Ruh-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 53
قَالُوْا وَجَدْنَاۤ اٰبَآءَنَا لَهَا عٰبِدِیْنَ
قَالُوْا : وہ بولے وَجَدْنَآ : ہم نے پایا اٰبَآءَنَا : اپنے باپ دادا لَهَا : انکے لیے۔ کی عٰبِدِيْنَ : پوجا کرنے والے
انھوں نے جواب دیا ہم نے اپنے باپ دادا کو ان کی عبادت کرتے پایا ہے۔
قَالُوْا وَجَدْنَـآ ٰ ابَـآئَ نَالَھَا عٰبِدِیْنَ ۔ (الانبیاء : 53) (انھوں نے جواب دیا ہم نے اپنے باپ دادا کو ان کی عبادت کرتے پایا ہے۔ ) قوم کا حماقت آمیز جواب جواب میں آپ ( علیہ السلام) کی قوم کے لوگوں نے وہی بات کہی جو ایسی حماقتوں کے حامی ہمیشہ کہا کرتے ہیں۔ جب ان سے دلیل کا جواب دلیل سے بن نہیں پاتا تو ان کے نزدیک سب سے بڑی دلیل یہ ہوتی ہے کہ ہم نے اسی پر اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔ اگر ہم غلط ہیں تو ہمارے باپ دادا تو غلط نہیں ہوسکتے۔ قرآن کریم نے اور بھی بعض مواقع پر ان کی اس حماقت پر گرفت کی ہے۔ اور یہ اصولی بات ارشاد فرمائی ہے کہ دنیوی معاملات میں یہ جاننے کے لیے کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے۔ علم اور عقل سے پوچھا جاتا ہے۔ چناچہ ہر دور کے اہل علم اور اصحابِ عقل ان معاملات میں جو کچھ کہتے ہیں اسے قبول کرلیا جاتا ہے۔ اسی طرح جس بات کا تعلق دین سے ہو اس میں ان لوگوں سے پوچھا جاتا ہے جو ہدایت یافتہ ہوں اور دین کو سمجھتے ہوں۔ قطع نظر اس سے کہ وہ لوگ پہلے گزرے ہیں یا آج موجود ہیں۔ جس طرح آج اچھے لوگ بھی موجود ہیں اور برے بھی، اسی طرح جو لوگ گزر چکے اور آج انھیں آبائواجداد کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ان میں بھی ہر طرح کے لوگ تھے۔ اس لیے ان کا آبائواجداد ہونا کوئی دلیل نہیں۔ دلیل علم ہے، عقل ہے یا ہدایت۔ آج کے لوگ چند سالوں کے بعد آبائواجداد میں شامل ہوجائیں گے۔ تو کیا ان لوگوں کے بارے میں یہ سمجھ لیا جائے کہ ان کی جہالت اور ان کی بےدینی ان کی اولاد کے لیے سند بن جائے گی۔
Top