Ruh-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 61
قَالُوْا فَاْتُوْا بِهٖ عَلٰۤى اَعْیُنِ النَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَشْهَدُوْنَ
قَالُوْا : وہ بولے فَاْتُوْا : ہم نے سنا ہے بِهٖ : اسے عَلٰٓي : سامنے اَعْيُنِ : آنکھیں النَّاسِ : لوگ لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَشْهَدُوْنَ : وہ دیکھیں
انھوں نے کہا کہ اس کو لوگوں کے سامنے پکڑ کر لائو تاکہ وہ بھی گواہ رہیں۔
قَالُوْا فَاْ تُوْا بِہٖ عَلٰٓی اَعْیُنِ النَّاسِ لَعَلَّھُمْ یَشْھَدُوْنَ ۔ (الانبیاء : 61) (انھوں نے کہا کہ اس کو لوگوں کے سامنے پکڑ کر لائو تاکہ وہ بھی گواہ رہیں۔ ) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر مقدمہ قوم کے سربراہوں اور مذہبی پروہتوں نے حکم دیا کہ انھیں لوگوں کے سامنے گرفتار کرکے لائو تاکہ اس کے جرم کی تحقیق لوگوں کے سامنے کی جائے اور پھر اس کی سزا کو بھی تمام لوگ اپنی نگاہوں سے دیکھیں اور لوگوں کے سامنے جا کر گواہی دیں کہ وہ شخص جس نے ہمارے خدائوں کے ساتھ یہ جسارت کی تھی وہ اپنے انجام کو پہنچ گیا ہے۔ ان نام نہاد خدائوں سے چونکہ سب لوگوں کا عقیدت و محبت اور بندگی کا رشتہ تھا تو جس نے ان کے ساتھ گستاخی کی تھی وہ پوری قوم کا مجرم تھا۔ اس لیے اربابِ حل و عقد نے یہ ضروری سمجھا کہ اس شخص کو پکڑ کر سامنے لایا جائے اور اس پر مقدمہ سب کے سامنے چلایا جائے اور پھر جو اس کو سزا ملے سب اپنی آنکھوں سے دیکھیں اور دوسروں کے سامنے اس کی شہادت دیں کیونکہ شہود کا معنی دیکھنا بھی ہوتا ہے اور گواہی دینا بھی، تاکہ لوگوں کے لیے یہ سزا عبرت کا سامان بن جائے۔
Top