Ruh-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 64
فَرَجَعُوْۤا اِلٰۤى اَنْفُسِهِمْ فَقَالُوْۤا اِنَّكُمْ اَنْتُمُ الظّٰلِمُوْنَۙ
فَرَجَعُوْٓا : پس وہ لوٹے (سوچ میں پڑھ گئے) اِلٰٓى : طرف۔ میں اَنْفُسِهِمْ : اپنے دل فَقَالُوْٓا : پھر انہوں نے کہا اِنَّكُمْ : بیشک تم اَنْتُمُ : تم ہی الظّٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع)
(لاجواب ہوکر) اپنے دلوں میں غور کرنے لگے، پھر بولے بلاشبہ تم ہی ناحق پر ہو۔
فَرَجَعُوْٓا اِلٰٓی اَنْفُسِھِمْ فَقَالُوْٓا اِنَّـکُمْ اَنْتُمُ الظّٰلِمُوْنَ ۔ (الانبیاء : 64) (لاجواب ہوکر) اپنے دلوں میں غور کرنے لگے، پھر بولے بلاشبہ تم ہی ناحق پر ہو۔ ) حقیقت کی جھلک حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اس چونکا دینے والے طنز نے ان کے دماغ کے تاروں کو شدت سے ہلایا۔ بت پرستی کی عصیبت کے پردوں میں دراڑیں پڑیں۔ دل و دماغ میں بجلی سی کوند گئی۔ متنبہ ہو کے سوچنے لگے کہ یہ نوجوان غلط نہیں کہہ رہا۔ غضب خدا کا ہم نے جنھیں خدائی کے منصب پر بٹھا رکھا ہے وہ یہ بتانے کے قابل بھی نہیں ہیں کہ انھیں اس تباہی سے دوچار کس نے کیا ہے تو وہ ہماری قسمتیں بنانے میں کیا کردار ادا کرسکیں گے۔ ہم اب تک ان کی عقیدت و محبت میں اندھے ہو کر جو کچھ کرتے رہے ہیں وہ سراسر ظلم، جہالت اور نادانی تھی۔ ہم نے ہر اس شخص کو ظالم سمجھا جس نے بت پرستی پر تنقید کی اور ان پتھر کے مجسموں کو پتھر کہنے کی جسارت کی لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم خود اپنے آپ پر ظلم کرتے رہے ہیں۔
Top