Ruh-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 65
ثُمَّ نُكِسُوْا عَلٰى رُءُوْسِهِمْ١ۚ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا هٰۤؤُلَآءِ یَنْطِقُوْنَ
ثُمَّ نُكِسُوْا : پھر وہ اوندھے کیے گئے عَلٰي رُءُوْسِهِمْ : اپنے سروں پر لَقَدْ عَلِمْتَ : تو خوب جانتا ہے مَا : جو هٰٓؤُلَآءِ : یہ يَنْطِقُوْنَ : بولتے ہیں
(پھر وہ اوندھے ہو کر (اپنی سابقہ گمراہی کی طرف) پلٹ گئے۔ بولے کہ تمہیں معلوم ہی ہے کہ یہ بولتے نہیں۔
ثُمَّ نُکِسُوْا عَلٰی رُئُ وْسِھِمْ ج لَقَدْعَلِمْتَ مَاھٰٓـؤُلَآئِ یَنْطِقُوْنَ ۔ (الانبیاء : 65) (پھر وہ اوندھے ہو کر (اپنی سابقہ گمراہی کی طرف) پلٹ گئے۔ بولے کہ تمہیں معلوم ہی ہے کہ یہ بولتے نہیں۔ ) مشکل الفاظ کی تشریح نَـکَسَ …کا معنی کسی چیز کو اس طرح الٹ دینا ہے کہ اس کے پائوں اوپر ہوجائیں اور سر نیچے۔ علامہ قرطبی فرماتے ہیں کہ بعض لوگوں نے یہ سمجھا ہے کہ اس کا معنی یہ ہے کہ شرم و خجالت کے مارے ان کے سر جھک گئے، یہ صحیح نہیں۔ اگر یہ کہنا ہوتا تو عبارت اس طرح ہونی چاہیے تھی نَکَسُوْ رُئُ وْسُھُمْ لیکن یہاں نُکِسُوْا عَلٰی رُئُ وْسِھِمْہے۔ اس کا معنی ہے کہ وہ اپنی مشرکانہ جہالت اور بتوں کی عبادت کی طرف پھر پلٹ گئے۔ حضرت عبداللہ ابن عباس ( رض) سے یہی معنی مروی ہے۔ اَدْرَکَھُمُ الشِقَائُ فَعَادُوْا اِلٰی کُفْرِھِمْ ” یعنی انھیں ان کی بدبختی نے آلیا اور پھر وہ اپنے کفر کی طرف لوٹ گئے۔ “ عصبیت ِجاہلیت بہت بری بلا ہے۔ جس دل اور دماغ پر یہ پنجے گاڑ لیتی ہے اسے ہوش نہیں آنے دیتی اور اگر کبھی اس کی آنکھ کھلتی بھی ہے تو دوسرے ہی لمحے وہ آنکھ بند کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ بارہا ایسا تجربہ ہوا کہ برادری، پارٹی یا اپنے فرقے کی بعض کمزوریوں کا ادراک شروع ہوا لیکن پھر گروہی تعصبات اور پارٹی مفادات غالب آگئے۔ اقبال نے تو صرف حکمران کی ساحری کی بات کی ہے برسوں کے جمے ہوئے تعصبات کی ساحری بھی اس سے کم نہیں ہوتی۔ ؎ نیند سے بیدار ہوتا ہے کوئی محکوم اگر پھر سلا دیتی ہے اس کو حکمراں کی ساحری زنجیریں نہ ٹوٹ سکیں یہ لوگ بھی ایک لمحے کے لیے ہوش میں آئے لیکن دوسرے ہی لمحے نسلوں کے تعصبات ان پر غالب آگئے اور پھر انھیں باتوں کی جگالی کرنے لگے۔ البتہ ! کہنے کو کوئی بات میسر نہ تھی۔ دھیمے ہو کر بولے کہ تم جانتے ہو ہمارے خدا بولا نہیں کرتے۔ کیسی عجیب بات ہے کہ ہیں یہ خدا، لیکن قوت گویائی سے محروم ہیں۔ جہالت بھی کس قدرتباہ کن شے ہے اور جاہلیت کا تعصب اس سے بھی بڑی مصیبت ہے۔ ان بتوں کو خدا بنا دیتا ہے جو بولنے سے بھی محروم ہیں۔ قَالَ اَفَتَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَالاَ یَنْفَعُکُمْ شَیْئًا وَّلاَ یَضُرُّکُمْ ۔ (الانبیاء : 64) (آپ نے فرمایا کیا تم عبادت کرتے ہو اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر ان چیزوں کی جو نہ تمہیں کچھ فائدہ پہنچا سکتی ہیں اور نہ تمہیں کوئی ضرر پہنچا سکتی ہیں۔ ) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا بھرپور وار مشرکین کے اس اعتراف کے بعد کہ یہ بول نہیں سکتے، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ایک بھرپور وار کیا اور ایک ضرب کاری لگائی کہ نادانو ! تم اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر ایسی چیزوں کو کیوں پوجتے ہو جو نہ تم کو نفع پہنچا سکیں اور نہ کوئی نقصان۔ کسی کی پرستش کرنا کوئی فیشن تو نہیں۔ یہ تو کسی کی عظمت کے سامنے اپنے آپ کو ڈھیر کردینا۔ کسی کی قدرت کے سامنے اپنی عاجزی کا اعتراف کرنا، کسی کی بڑائی کے سامنے اپنی کمتری کا اقرار کرنا ہے۔ کسی احسن، انفع اور اکمل ذات کے سامنے سجدہ ریز ہوجانا ہے اور تم اپنا یہ سرمایہ ان کے سامنے ڈھیر کرچکے ہو جو بولنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتے۔
Top