Ruh-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 68
قَالُوْا حَرِّقُوْهُ وَ انْصُرُوْۤا اٰلِهَتَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ فٰعِلِیْنَ
قَالُوْا : وہ کہنے لگے حَرِّقُوْهُ : تم اسے جلا ڈالو وَانْصُرُوْٓا : اور تم مدد کرو اٰلِهَتَكُمْ : اپنے معبودوں کو اِنْ : اگر كُنْتُمْ فٰعِلِيْنَ : تم ہو کرنے والے (کچھ کرنا ہے)
(سب یک زبان ہو کر بولے) جلا ڈالو اس کو اور مدد کرو اپنی خدائوں کی اگر تم کچھ کرنا چاہتے ہو۔
قَالُوْا حَرِّقُوْہُ وَانْصُرُوْٓا اٰ لِھَتَـکُمْ اِنْ کُنْتُمْ فٰعِلِیْنَ ۔ (الانبیاء : 68) (سب یک زبان ہو کر بولے) جلا ڈالو اس کو اور مدد کرو اپنی خدائوں کی اگر تم کچھ کرنا چاہتے ہو۔ ) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے سزا کا اعلان اہلِ باطل اور اربابِ اقتدار کا ہمیشہ یہ شیوہ رہا ہے کہ جب وہ دلائل کی جنگ ہار جاتے ہیں تو پھر تشدد پر اتر آتے ہیں بالخصوص ان کا مذہبی طبقہ جب اپنی پیشوائی کو خطرے میں دیکھتا ہے تو پھر وہ برہنہ طاقت بن کر میدان میں آجاتا ہے۔ یہاں چونکہ اقتدار اور مذہبی اجارہ دار ملی بھگت سے اس ملک پر حکومت کررہے تھے، ان کے لیے یہ بات انتہائی تشویشناک تھی کہ ان کی سیادت و امارت اور تخت اقتدار غیر اللہ کی پرستش کے جن تصورات پر قائم ہے اسے کوئی نقصان پہنچے۔ اس لیے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعوت میں جب انھوں نے ان بنیادی تصورات کی مخالفت دیکھی تو انھیں یوں محسوس ہوا کہ ہمارے پائوں تلے سے زمین ہلنے لگی ہے اور ایک نوجوان ہماری سیادت و امارت کو چیلنج کررہا ہے۔ اب ان کے پاس ایک ہی راستہ تھا کہ اپنے تحفظ وبقاء کے لیے اس زبان کو ہمیشہ کے لیے خاموش کردیں جس سے وہ خطرہ محسوس کررہے تھے۔ چناچہ سب بیک زبان چلا اٹھے اس شخص کو پکڑو اور اسے جلادو اور اس طرح سے اپنے خدائوں کے بارے میں جو خطرات لاحق ہورہے ہیں ان کا سد باب کردو۔ چناچہ حکم دے دیا گیا کہ آگ کا ایک بہت بڑا الائو روشن کرو اور عام لوگوں کے سامنے اسے ایک مذہبی ضرورت اور اپنے مزعومہ مذہب کی بقاء کی جنگ کے طور پر پیش کرو۔ عوام تو ایسی باتوں سے دیوانگی کی حد تک برافروختہ ہوجاتے ہیں۔ چناچہ ہر شخص نے اسے اپنی نجات کا ذریعہ سمجھتے ہوئے اپنا حصہ ڈالنا ضروری سمجھا۔ لکڑیوں کے گٹھے اٹھا کے لائے اور اس میدان میں ڈھیر کرتے چلے گئے جہاں الائو جلانا تھا۔ بالآخر لکڑیوں کے اس انبار کو آگ لگائی گئی۔ اس حد تک اس کے شعلے بھڑکے کہ اس کے قریب جانا ناممکن ہوگیا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اس میں پھینکنے کے لیے منجنیق تیار کی گئی۔ جب یہ سازوسامان ہوگیا تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اس حال میں قید خانے سے نکالا گیا کہ ان کے پائوں میں بیڑیاں اور ہاتھوں میں ہتھکڑیاں تھیں۔ جب انھیں منجنیق میں رکھ کر پھینکا جانے لگا تو عالم بالا میں قیامت برپا ہوگئی۔ الٰہی ! تیری اس بھری دنیا میں صرف ایک ابراہیم ہے جو تیرا نام لیتا ہے اور تیری توحید کا پرچم سربلند کرنا چاہتا ہے۔ کیا زمین میں اس کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ یہ ایسا جرم ہے کہ اس کی پاداش میں اس کو جلا دینا چاہیے۔ یہی تو ایک شمع ہے جس نے کفر کی تاریکیوں میں روشنی پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اگر یہ بجھ گئی تو تیرا نام لیوا دنیا میں کوئی نہیں رہے گا۔ بارگاہِ ایزدی سے حکم ہوا کہ ملاء ِ اعلیٰ کے رہنے والو ! تمہیں ابراہیم کی مدد کرنے کی اجازت ہے۔ سب اپنی درخواست لے کر پہنچے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے نہایت استغنا سے کسی کی بھی مدد لینے سے انکار کردیا۔ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) حاضر ہوئے کہ خلیل ! میں ہر حکم کی تعمیل کے لیے حاضر ہوں، آپ ( علیہ السلام) چاہیں تو میں اس آتش کدے کو بجھا دوں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ کیا اللہ تعالیٰ میرے حال سے واقف ہے یا نہیں ؟ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا وہ تو سب سے واقف ہے۔ فرمایا پھر مجھے آپ کی مدد کی ضرورت نہیں۔ حضرت جبرائیل ( علیہ السلام) نے درخواست کی کہ اپنے رب سے اپنے بچائو کی دعا کیجیے۔ اس پیکر تسلیم و رضا نے جواب دیا حَسْبِیْ مِنْ سُؤالِیْ عِلْمُہٗ بِحَالِیْ جب وہ میرے حال کو جانتا ہے تو مجھے درخواست کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ میں اس کے ہر فیصلے کے سامنے سر جھکاتا ہوں۔ اقبال نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اس طرز عمل کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا : یقیں مثل خلیل آتش نشینی یقیں اللہ مستی خود گزینی
Top