Ruh-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 71
وَ نَجَّیْنٰهُ وَ لُوْطًا اِلَى الْاَرْضِ الَّتِیْ بٰرَكْنَا فِیْهَا لِلْعٰلَمِیْنَ
وَنَجَّيْنٰهُ : اور ہم نے اسے بچا لیا وَلُوْطًا : اور لوط اِلَى : طرف الْاَرْضِ : سرزمین الَّتِيْ بٰرَكْنَا : وہ جس میں ہمنے برکت رکھی فِيْهَا : اس میں لِلْعٰلَمِيْنَ : جہانوں کے لیے
اور ہم نے حضرت ابراہیم کو اور حضرت لوط کو نجات دی اس سر زمین کی طرف جسے ہم نے بابرکت بنایا تھا تمام جہان والوں کے لیے۔
وَنَجَّیْنٰـہُ وَلُوْطًا اِلَی الْاَرْضِ الَّتِیْ بٰـرَکْنٰافِیْھَا لِلْعٰلَمِیْنَ ۔ (الانبیاء : 71) (اور ہم نے حضرت ابراہیم کو اور حضرت لوط کو نجات دی اس سر زمین کی طرف جسے ہم نے بابرکت بنایا تھا تمام جہان والوں کے لیے۔ ) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ہجرت بت کدے کے پجاری، پروہت اور اربابِ اقتدار حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو جلانے میں ناکامی سے کوئی سبق سیکھنے کی بجائے زخمی سانپ کی طرح پہلے سے بھی زیادہ زہر اگلنے لگے۔ انھوں نے محسوس کیا کہ کفر کی اتنی بڑی ناکامی اور حق کی اتنی بڑی فتح اثر کیے بغیر نہیں رہ سکتی۔ لوگ جبر و استبداد اور صدیوں کی عصبیت کی وجہ سے بولنے کی ہمت تو نہیں کریں گے لیکن ان کے احساس میں ایک شعلہ سا ضرور بھڑکے گا کہ اگر ابراہیم سچائی پر نہ ہوتے تو اتنا بڑا الائو ان کے لیے سلامتی نہ بنتا۔ کوئی تعجب نہیں کہ یہی احساس کا شعلہ آنے والے دنوں میں بت پرستی کو بھسم کرنے کا باعث بن جائے۔ چناچہ انھوں نے شہر میں ایسے حالات پیدا کردیئے اور بادشاہ کو مجبور کردیا کہ یہ نہایت خطرناک شخص ہے اسے ہر ممکن طریقے سے ختم کردینا چاہیے۔ ایسے حالات میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے ابراہیم کو ہجرت کا حکم دیا اور وہ حضرت لوط کو ساتھ لے کر اس سرزمین کی طرف ہجرت کر گئے جسے ہم نے برکت دے رکھی ہے۔ بائیبل کے بیان کے مطابق حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دو بھائی تھے، نحور اور حاران۔ حضرت لوط (علیہ السلام) حاران کے بیٹے تھے۔ (پیدائش باب 11 آیت 26) سورة عنکبوت میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا جو تذکرہ آیا ہے اس سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان کی قوم میں سے صرف ایک حضرت لوط ہی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر ایمان لائے تھے۔ ملاحظہ ہو آیت 26 اور پھر آگے چل کر اللہ تعالیٰ نے انھیں نبوت سے سرفراز فرمایا۔ برکت والی سرزمین سے مراد شام اور کنعان کی سرزمین ہے جسے اللہ تعالیٰ نے زرخیزی اور شادابی عطا فرمائی ہے اور ساتھ ساتھ روحانی برکات سے بھی نوازا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد متعدد نبی وہاں مبعوث ہوئے۔ اس سرزمین نے ان کے خیروبرکت سے فائدہ اٹھایا اور آج کتنے انبیائے کرام وہاں مدفون ہیں۔
Top