Ruh-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 76
وَ نُوْحًا اِذْ نَادٰى مِنْ قَبْلُ فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ فَنَجَّیْنٰهُ وَ اَهْلَهٗ مِنَ الْكَرْبِ الْعَظِیْمِۚ
وَنُوْحًا : اور نوح اِذْ نَادٰي : جب پکارا مِنْ قَبْلُ : اس سے پہلے فَاسْتَجَبْنَا : تو ہم نے قبول کرلی لَهٗ : اس کی فَنَجَّيْنٰهُ : پھر ہم نے اسے نجات دی وَاَهْلَهٗ : اور اس کے لوگ مِنَ : سے الْكَرْبِ : بےچینی الْعَظِيْمِ : بڑی
(اور حضرت نوح کو بھی ہم نے ہدایت بخشی، یاد کرو جب انھوں نے دعاکی اس سے پہلے، تو ہم نے ان کی دعا قبول کی پھر نجات دی ہم نے آپ کو اور آپ کے اہل کو عظیم مصیبت سے۔
وَنُوْحًا اِذْ نَادٰی مِنْ قَبْلُ فَاسْتَجَبْنَا لَـہٗ فَنَجَّیْنٰـہُ وَاَھْلَـہٗ مِنَ الْکَرْبِ الْعَظِیْمِ ۔ (الانبیاء : 76) (اور حضرت نوح کو بھی ہم نے ہدایت بخشی، یاد کرو جب انھوں نے دعاکی اس سے پہلے، تو ہم نے ان کی دعا قبول کی پھر نجات دی ہم نے آپ کو اور آپ کے اہل کو عظیم مصیبت سے۔ ) حضرت نوح (علیہ السلام) کا تذکرہ جس طرح ہم نے حضرت ابراہیم، حضرت اسحاق، حضرت یعقوب اور حضرت لوط کو اپنی ہدایت سے نوازا اور انھیں نبوت عطا فرمائی، اسی طرح ہم نے ان سے پہلے حضرت نوح (علیہ السلام) کو بھی ہدایت دی تھی۔ ان کے ساتھ بھی ان کی قوم نے وہی کچھ سلوک کیا جیسے ہر نبی اور رسول کی قوم نے ہر نبی اور رسول کے ساتھ کیا۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) نے جس قدر طویل مدت تک تبلیغ و دعوت کا فرض انجام دیا اور آپ ( علیہ السلام) کی قوم نے بےپناہ مصائب سے آپ ( علیہ السلام) کو دوچار کیے رکھا۔ یہ آپ ( علیہ السلام) کی ایک ایسی انفرادیت ہے جس میں کوئی اور رسول آپ ( علیہ السلام) کا شریک وسہیم نہیں۔ کسی اور رسول کو ساڑھے نوسو سال تک اس کٹھنائی سے گزرنا نہیں پڑا۔ چند سالوں کی اذیتیں انسان کو ہلا کے رکھ دیتی ہیں۔ چہ جائیکہ نو صدیوں تک ایک داعی الی الحق دعوت کا فرض انجام دے اور اس کی پاداش میں گونا گوں مصائب کا شکار رہے۔ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو کس کینڈے سے پیدا کیا تھا اور صبر و استقامت کی کتنی بڑی مقدار آپ ( علیہ السلام) کو عطا کی تھی، لیکن جب اس قدر طویل مدت تک بھی آپ ( علیہ السلام) کی قوم کے دل نہ پسیجے اور انھوں نے آپ ( علیہ السلام) کی دعوت کو قبول کرنا تو دور کی بات ہے اپنے رویئے پر نظرثانی کرنا بھی برداشت نہ کیا تو تب حضرت نوح (علیہ السلام) نے محسوس کیا کہ اتمامِ حجت میں کوئی کمی باقی نہیں رہ گئی۔ محسوس ہوتا ہے کہ ہدایت اس قوم کی قسمت میں نہیں۔ چناچہ آپ ( علیہ السلام) نے دعا کا دامن اپنے رب کے سامنے پھیلا دیا۔ اور جس طرح اپنا دل اپنے رب کے سامنے کھول کے رکھا اس کا تفصیلی ذکر تو انشاء اللہ تعالیٰ سورة نوح میں آئے گا یہاں ہم صرف اس سلسلہ کی آخری آیات کا ذکر کرنے پر اکتفا کررہے ہیں۔ مِمَّا خَطِیٰٓـتِھِمْ اُغْرِقُوْا فَاُدْخِلُوْا نَارًا۔ فَلَمْ یَجِدُوْا لَھُمْ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَنْصَارًا۔ وَقَالَ نُوْحٌ رَّبِّ لاَ تَذَرْ عَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ دَیَّارًا۔ اِنَّـکَ اِنْ تَذَرْھُمْ یُضِلُّوْا عِبَادَکَ وَلاَ یَلِدُوْٓا اِلاَّ فَاجِرًا کَفَّارًا۔ رَبِّ اغْفِرْلِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَیْتِیَ مُؤْمِنًاوَّلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ طوَلاَ تَزِدِالظّٰلِمِیْنَ اِلاَّ تَبَارًا۔ (نوح : 25۔ 28) (پس قوم نوح ( علیہ السلام) کے لوگ اپنے جرموں کی پاداش میں غرق کردیئے گئے اور آگ میں داخل کیے گئے اور وہ خدا کے مقابل میں اپنے لیے کوئی مددگار نہ پا سکے۔ اور نوح ( علیہ السلام) نے دعا کی کہ اے میرے رب ! تو زمین پر ان کافروں میں سے ایک کو بھی چلتا پھرتا نہ چھوڑ۔ اگر تو ان کو چھوڑے رکھے گا تو یہ تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور صرف ناہنجاروں اور ناشکروں ہی کو جنم دیں گے۔ اے میرے رب ! میری اور میری والدین کی مغفرت فرما اور ان کی جو میرے گھر میں ایمان کے ساتھ داخل ہوجائیں۔ اور تمام مومنین و مومنات کی اور ظالموں کے لیے صرف تباہی میں اضافہ کر۔ ) فَنَجَّیْنٰـہُ وَاَھْلَـہٗ مِنَ الْکَرْبِ الْعَظِیْمِ …اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعا کو قبول فرمایا اور آپ ( علیہ السلام) کی دعا کے مطابق آپ ( علیہ السلام) کی قوم پر وہ عذاب بھیجا جس نے ان کی جڑ کاٹ کے رکھ دی اور ان کی تباہی اور بربادی کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) اور آپ ( علیہ السلام) کے اہل کو کرب عظیم سے نجات عطا فرمائی۔ اہل سے مراد آپ ( علیہ السلام) کے اہل خانہ بھی ہیں اور آپ ( علیہ السلام) پر ایمان لانے والے بھی بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ آپ ( علیہ السلام) کے اہل خانہ میں سے بھی انھیں نجات عطا فرمائی جو آپ ( علیہ السلام) پر ایمان لا چکے تھے اور آپ ( علیہ السلام) کا وہ بیٹا جسے کنعان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور جس نے اپنے باپ پر ایمان نہ لا کر تباہی کو دعوت دی اور اس حد تک قوت ادراک سے محروم ہوا کہ یہ بھی نہ جان سکا کہ یہ کوئی بارش نہیں، یہ اللہ تعالیٰ کا عذاب ہے اور اپنے پدربزرگوار کی پیار بھری دعوت کے باوجود آپ ( علیہ السلام) کے ساتھ کشتی پر سوار ہونے سے انکار کردیا اور یہ سمجھا کہ میں اپنے تنومند جسم سے کام لے کر پہاڑ پر چڑھ جاؤں گا تو یہ پانی میرا کیا بگاڑ سکتا ہے ؟ لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے پانی کی ایک موج اٹھی اور بیٹا باپ کی آنکھوں کے سامنے ڈوب گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کا عذاب آتا ہے تو اس میں ایمان کے سوا کوئی اور قوت بچانے والی نہیں ہوتی۔ جس کے دل میں ایمان ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کی دستگیری کرتی ہے۔ چناچہ اس عذاب سے اور اس کرب عظیم سے جس میں صدیوں سے حضرت نوح (علیہ السلام) اور آپ ( علیہ السلام) پر ایمان لانے والے مبتلا تھے اس سے اللہ تعالیٰ نے نجات دے دی۔ معلوم ہوتا ہے کہ جس کرب و بلا سے آنحضرت ﷺ پر ایمان لانے والے کفار مکہ کے ہاتھوں دوچار کیے جارہے تھے اسی اذیت رسانی میں حضرت نوح (علیہ السلام) اور آپ ( علیہ السلام) پر ایمان لانے والے مبتلا کیے گئے تھے اور صدیوں سے اس عذاب کو برداشت کر رہے تھے۔ قوم کی تباہی اور اس عذاب سے ان کی جان چھوٹی۔
Top