Ruh-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 77
وَ نَصَرْنٰهُ مِنَ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا١ؕ اِنَّهُمْ كَانُوْا قَوْمَ سَوْءٍ فَاَغْرَقْنٰهُمْ اَجْمَعِیْنَ
وَنَصَرْنٰهُ : اور ہم نے اس کو مدد دی مِنَ : سے (پر) الْقَوْمِ : لوگ الَّذِيْنَ : جنہوں نے كَذَّبُوْا : جھٹلایا بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیتوں کو اِنَّهُمْ : بیشک وہ كَانُوْا : وہ تھے قَوْمَ : لوگ سَوْءٍ : برے فَاَغْرَقْنٰهُمْ : ہم نے غرق کردیا انہیں اَجْمَعِيْنَ : سب
اور ہم نے ان کی حمایت کی اس قوم کے مقابلہ میں جنھوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا تھا، بیشک وہ نہایت ہی برے لوگ تھے، پس ہم نے ان سب کو غرق کردیا۔
وَنَصَرْنٰـہُ مِنَ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰـتِنَا ط اِنَّھُمْ کَانُوْا قَوْمَ سَوْئٍ فَاَغْرَقْـنٰـھُمْ اَجْمَعِیْنَ ۔ (الانبیاء : 77) (اور ہم نے ان کی حمایت کی اس قوم کے مقابلہ میں جنھوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا تھا، بیشک وہ نہایت ہی برے لوگ تھے، پس ہم نے ان سب کو غرق کردیا۔ ) حضرت نوح (علیہ السلام) کا انجام معلوم ہوتا ہے کہ قوم نوح کی اذیت رسانیوں سے حضرت نوح (علیہ السلام) اور آپ ( علیہ السلام) پر ایمان لانے والے انتہائی ناگفتہ بہ حالت سے گزر رہے تھے۔ صدیوں تک قوم نے جنھیں اپنی ستم رانیوں کا نشانہ بنا رکھا تھا یقینا ان کے کاروبار تباہ ہوچکے ہوں گے۔ جان و تن کا رشتہ قائم رکھنا ان کے لیے مشکل ہورہا ہوگا۔ وہ اس قدر کمزور کیے جا چکے ہوں گے کہ وہ ہزار کوشش کے باوجود بھی اذیتوں کی بھٹی سے نکلنے پر قادر نہ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے خصوصی فضل و کرم سے ان کی نصرت فرمائی اور انھیں اس طرح ان کے چنگل سے نکالا جس کا تصور بھی دور دور تک مشکل تھا اور قوم نوح نے چونکہ اپنے کفر و شرک اور بداعمالیوں کے باعث فسق و فجور کو انتہا تک پہنچا دیا تھا اور اللہ تعالیٰ کی زمین کو فساد سے بھر دیا تھا۔ اب ضرورت اس بات کی تھی کہ اس زمین کو ان کے شر و فساد سے پاک کیا جائے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے اس کا انتظام اس طرح فرمایا کہ زمین کے سمندروں اور آسمان کے بادلوں کو حکم دیا چناچہ ہر طرف سے پانی برسا اور زمین سے پانی ابلا۔ دیکھتے ہی دیکھتے پہاڑ بھی پانی میں چھپ گئے اور حضرت نوح (علیہ السلام) کا سفینہ نجات کا سفینہ بن کر پانی کی سطح پر تیرتا ہوا جودی پہاڑ پر جا کر رک گیا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اصحابِ ایمان کو ظالموں کے ظلم سے بچایا اور زمین کی مکمل تطہیر کا انتظام کیا اور اس قوم کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ ان پر ظلم نہ تھا بلکہ انھوں نے اپنے فسق و فجور سے اپنے آپ کو اس کا مستحق ثابت کردیا تھا۔
Top