Ruh-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 8
وَ مَا جَعَلْنٰهُمْ جَسَدًا لَّا یَاْكُلُوْنَ الطَّعَامَ وَ مَا كَانُوْا خٰلِدِیْنَ
وَ : اور مَا جَعَلْنٰهُمْ : ہم نے نہیں بنائے ان کے جَسَدًا : ایسے جسم لَّا يَاْكُلُوْنَ : نہ کھاتے ہوں الطَّعَامَ : کھانا وَ : اور مَا كَانُوْا : وہ نہ تھے خٰلِدِيْنَ : ہمیشہ رہنے والے
اور ہم نے ان کے ایسے جسم نہیں بنائے کہ وہ کھانا نہ کھاتے ہوں اور نہ ہی وہ ہمیشہ رہنے والے تھے۔
وَمَا جَعَلْنٰـھُمْ جَسَدًا لاَّ یَاْکُلُوْنَ الطَّعَامَ وَمَا کَانُوْا خٰلِدِیْنَ ۔ (الانبیاء : 8) (اور ہم نے ان کے ایسے جسم نہیں بنائے کہ وہ کھانا نہ کھاتے ہوں اور نہ ہی وہ ہمیشہ رہنے والے تھے۔ ) انبیائے کرام انسانی احتیاجات سے ماورا نہیں ہوتے کفارِ مکہ کو آنحضرت ﷺ پر یہ اعتراض بھی تھا کہ یہ شخص کیسے رسول ہوسکتا ہے جو ہماری طرح کھاتا پیتا اور بازاروں میں گھومتا یعنی کاروبار کرتا ہے قَالُوْا مَالِھٰذَاالرَّسُوْلِ یَاکُلُ الْطَّعَامَ وَیَمْشِیْ فِی الْاَسْوَاقِ ” انھوں نے کہا، یہ کیسا رسول ہے کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے۔ “ اس آیت کریمہ میں اس کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ہم نے کوئی ایسا جسم تخلیق نہیں فرمایا جو کھانے پینے سے مبرا ہو۔ ہر جسم کی زندگی غذا کی محتاج ہے۔ انبیائے کرام چونکہ بشر ہوتے ہیں اور بشر ایک جسم رکھتا ہے۔ ظاہر ہے وہ کھائے پیئے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا تو انبیائے کرام بھی ضرورت کے تحت کھاتے پیتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کی زندگی کھانے پینے کے لیے نہیں ہوتی البتہ ! کھانا پینا زندگی کے لیے ہوتا ہے وہ اس لیے زندہ نہیں رہتے کہ اکل و شرب کے مزے لوٹیں بلکہ اکل و شرب صرف ان کی ضرورت ہوتے ہیں، زندگی ان کی اس مقصد کے لیے وقف ہوتی ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ انھیں مبعوث فرماتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے ہر سطح پر انسانی ذہن کے افق کو روشن کیا ہے اور اسے وہ بلندی عطا کی ہے جس سے پہلے وہ بالکل بیخبر تھا۔ لوگوں کے یہاں خدا رسیدہ ہونے اور گناہوں سے محفوظ زندگی گزارنے کے لیے ضروری تھا کہ علائق دنیوی سے وہ زندگی یکسر بےنیاز ہو۔ ایک کھانے کمانے والا، کاروبار کرنے والا اور دنیوی معاملات کو خوش اسلوبی سے ادا کرنے والا ان کے نزدیک کچھ اور تو ہوسکتا ہے لیکن بزرگ، ولی یا خدا رسیدہ نہیں ہوسکتا۔ دنیا ان کے نزدیک ایک ایسا داغ ہے جو کسی اللہ والے کے دامن پر زیب نہیں دیتا۔ چناچہ آج تک دوسری قوموں کے زیراثر مسلمانوں میں بھی اس کے آثار باقی ہیں۔ آج جب بھی کسی اللہ کے ولی کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کی ایسی صفات بیان کی جاتی ہیں جو کسی فرشتے کی صفات تو ہوسکتی ہیں، انسان کی ہرگز نہیں۔ یعنی انھوں نے برسوں کا روزہ رکھا، شادی نہیں کی، ایک تہہ خانے میں محبوس رہے اور لوگوں کو کبھی منہ نہ دکھاتے تھے۔ اسلام کی نگاہ میں ان میں سے کوئی بات بھی تقرب الٰہی کی علامت نہیں۔ بلکہ اس سے رہبانیت کی بو آتی ہے۔ اقبال نے شاید اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا : تیرے دیر و حرم سے آرہی ہے بوئے رہبانی یہی ہے مرنے والی امتوں کا عالم پیری اسلام نے ایک مومن کو ہر دور کا امام بنایا ہے۔ وہ زندگی کے ہر شعبے میں دنیوی فرائض کو اس طرح ادا کرکے دکھاتا ہے جس سے یہ بات واضح ہوسکے کہ دین کی ہدایت کے مطابق زندگی گزارنے کا طریقہ کیا ہوتا ہے۔ وہ تجارت کرتا ہے، مزدوری کرتا ہے، ملازمت کرتا ہے، نکاح کرتا ہے، بچوں کی تربیت کرتا ہے، لوگوں سے میل جول رکھتا ہے، ہر طرح کے اجتماعی معاملے میں شریک ہوتا ہے، لیکن اس کا کوئی کام بھی اپنی مرضی اور اپنے طریقے کے مطابق نہیں ہوتا بلکہ ہر کام کرنے سے پہلے وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کو دیکھتا ہے اور شریعت کے طریقے کو جاننے کی کوشش کرتا ہے، پھر اس کے مطابق اپنا کام انجام دیتا ہے۔ وہ دنیا کو اس طرح برت کے دکھاتا ہے جس سے یہ بات مبرہن ہوجاتی ہے کہ دنیوی معاملات میں ایک مومن اور کافر میں کیا فرق ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نبی دنیا کو یہی سکھانے کے لیے آتے ہیں اور وہ اس کے لیے سب سے مکمل اسوہ اور نمونہ ہوتے ہیں لیکن اہل مکہ چونکہ اس بارے میں اپنا مخصوص طرز فکر رکھتے تھے، اس لیے انھوں نے آنحضرت ﷺ کے معمولات کو جو نبوت کا عکس تھے دنیاداری سمجھ کر نبوت کے برعکس قرار دیا اور صاف کہا کہ آپ ﷺ تو ہماری طرح ایک دنیادار آدمی ہیں آپ ﷺ پیغمبر کیسے ہوسکتے ہیں۔ آپ ﷺ تو اسی طرح کھاتے پیتے ہیں جس طرح ہم کھاتے پیتے ہیں۔ چناچہ اسی کے جواب میں ایک ایسی بات فرمائی گئی جو عقل کو اپیل کرتی ہے کہ پیغمبر بھی جسم رکھتے ہیں تو ہر جسم جو اپنے خصائص رکھتا ہے وہی خصائص پیغمبروں کے اجسام کے بھی ہوتے ہیں۔ نبی حیات جاوداں لے کر نہیں آتے دوسری بات ارشاد فرمائی کہ وہ ہمیشہ رہنے والے نہیں ہوتے۔ انھیں بھی باقی انسانوں کی طرح موت آتی ہے۔ ہمیشہ زندہ رہنا صرف اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ اس میں کفار مکہ کے اس عقیدہ کا رد ہے۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے نبی کبھی موت سے ہمکنار نہیں ہوتے اور محمد ﷺ چونکہ ہماری ہی طرح ایک بشر ہیں اس لیے یقینا موت سے ہمکنار ہوں گے تو وہ پیغمبر کیسے ہوسکتے ہیں۔ قرآن کریم نے دوسری جگہ بھی کفار کے اس عقیدے کا ذکر کیا ہے کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ پیغمبر کو کبھی موت نہیں آتی۔ وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِکَ الْخُلْدِ ” ہم نے آپ ﷺ سے پہلے کسی بشر کو ہمیشگی اور دوام نہیں بخشا۔ “ کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَۃُ الْمَوْتِ ” ہر نفس موت کا مزہ چکھنے والا ہے۔ “ امیرمینائی نے ٹھیک کہا : جو زندہ ہے وہ موت کی تکلیف سہے گا جب احمد مرسل نہ رہے کون رہے گا
Top