Ruh-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 80
وَ عَلَّمْنٰهُ صَنْعَةَ لَبُوْسٍ لَّكُمْ لِتُحْصِنَكُمْ مِّنْۢ بَاْسِكُمْ١ۚ فَهَلْ اَنْتُمْ شٰكِرُوْنَ
وَعَلَّمْنٰهُ : اور ہم نے اسے سکھائی صَنْعَةَ : صنعت (کاریگر) لَبُوْسٍ : ایک لباس لَّكُمْ : تمہارے لیے لِتُحْصِنَكُمْ : تاکہ وہ تمہیں بچائے مِّنْ : سے بَاْسِكُمْ : تمہاری لڑائی فَهَلْ : پس کیا اَنْتُمْ : تم شٰكِرُوْنَ : شکر کرنے والے
ہم نے انھیں تمہارے لیے ایک خاص جنگی لباس کی صنعت سکھائی تاکہ وہ تم کو جنگ میں محفوظ رکھے، تو کیا تم شکر ادا کرنے والے ہو۔
وَعَلَّمْنٰـہُ صَنْعَۃَ لَـبُوْسٍ لَّـکُمْ لِتُحْصِنَـکُمْ مِّنْ م بَاْسِکُمْ ج فَھَلْ اَنْـتُمْ شٰکِرُوْنَ ۔ (الانبیاء : 80) (ہم نے انھیں تمہارے لیے ایک خاص جنگی لباس کی صنعت سکھائی تاکہ وہ تم کو جنگ میں محفوظ رکھے، تو کیا تم شکر ادا کرنے والے ہو۔ ) حضرت دائود (علیہ السلام) درویش بھی تھے اور شہسوار بھی گزشتہ آیت کریمہ سے یہ تأثر ملتا ہے کہ حضرت دائود (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے نبی ہونے کی وجہ سے علم کے پیکر اور افتاء و قضاء کے شن اور تھے۔ آپ ( علیہ السلام) کی بیشتر توجہ لوگوں کے معاملات حل کرنے اور ان کی زندگیوں کی اصلاح پر رہتی تھی اور اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ ( علیہ السلام) کو وہ سوز و گداز بخشا تھا کہ آپ ( علیہ السلام) دن بھر علمی مصروفیات اور عدالتی معاملات میں مصروف رہتے لیکن رات کو اللہ تعالیٰ کی عبادت اور تسبیح وتحمید میں وقت گزرتا تھا اور طلوع سحر کے وقت پہاڑوں کی طرف نکل جاتے اور وہاں زبور کی تلاوت اور ذکر اللہ کی تسبیح میں اس طرح کھو جاتے کہ پہاڑ اور پرندے بھی ان کی تسبیح میں ان کی ہمنوائی کرتے۔ ایسا لگتا تھا کہ حکمرانی کے ساتھ ساتھ ان کی زندگیوں پر درویشی کا غلبہ تھا۔ بس یوں کہنا چاہیے کہ آپ ( علیہ السلام) ایک درویش حکمران تھے لیکن پیش نظر آیت کریمہ میں ان کی داستانِ حیات کا ایک اور ورق الٹا جارہا ہے۔ وہ یہ کہ جس طرح آپ ( علیہ السلام) کو علم اور عبادت سے بےپناہ شغف تھا اور اللہ تعالیٰ کی تسبیح آپ ( علیہ السلام) کی زندگی کا سب سے بڑا ہدف تھا اسی طرح آپ ( علیہ السلام) مردِ میدان بھی تھے۔ یوں کہنا چاہیے کہ آپ ( علیہ السلام) رات کے راہب اور دن کے شہسوار تھے۔ کوئی انھیں لوگوں کے معاملات کی طرف توجہ فرماتے ہوئے دیکھتا تو وہ سمجھتا کہ آپ ( علیہ السلام) ایک اچھے حکمران ہیں، لیکن جب ان کی عبادت کو دیکھتا تو آپ ( علیہ السلام) پر ایک درویش کا گمان ہوتا۔ لیکن جب وہ یہ دیکھتا کہ آپ ( علیہ السلام) اسلحہ جنگ کی تیاری میں ہمہ تن مصروف رہتے ہیں بلکہ آپ ( علیہ السلام) زرہ دائودی کے موجد ہیں اور اسی کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے انھیں اپنی معاصر قوموں پر غلبہ عطا فرمایا تھا تو وہ سمجھ جاتا کہ ہُوَ رَاہِبٌ بِالْلَّیْلِ وَفَارِسٌ م بِالنَّھَارِ ” آپ رات کو درویش ہوتے ہیں اور دن کو شہسوار ہوتے ہیں۔ “ ان کی ہمہ جہت شخصیت کا عالم یہ تھا کہ ان کی پرسوز دُعائوں اور مناجاتوں سے پہاڑوں کے دل موم ہوجاتے تھے اور ان کی دفاعی ایجادات اور فوجی قوت سے دشمنوں پر لرزہ طاری رہتا تھا۔ حضرت دائود (علیہ السلام) کے دور کے دفاعی اسلحہ میں زرہ کو چونکہ بےحد اہمیت حاصل تھی اور ساتھ ہی ساتھ اللہ تعالیٰ نے انھیں حکم اور علم سے نوازا تھا۔ اس لیے آپ ( علیہ السلام) پر ان بےپایاں نعمتوں کا حوالہ دے کر لوگوں سے سوال کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یہ نعمتیں اس کے شکر کی بدولت ہیں تو کیا تم بھی اس طرح اللہ تعالیٰ کر شکر ادا کرنے کی کوشش کروگے۔ یا اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت دائود (علیہ السلام) کو زرہ سازی کی صنعت اور دیگر دفاعی صلاحیتیں اس لیے عطا کی گئی تھیں تاکہ تم جنگ کی ہولناکیوں سے محفوظ رہو تو کیا تم اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہو
Top