Ruh-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 82
وَ مِنَ الشَّیٰطِیْنِ مَنْ یَّغُوْصُوْنَ لَهٗ وَ یَعْمَلُوْنَ عَمَلًا دُوْنَ ذٰلِكَ١ۚ وَ كُنَّا لَهُمْ حٰفِظِیْنَۙ
وَ : اور مِنَ : سے الشَّيٰطِيْنِ : شیطان (جمع) مَنْ يَّغُوْصُوْنَ : جو غوطہ لگاتے تھے لَهٗ : اس کے لیے وَيَعْمَلُوْنَ : اور کرتے تھے وہ عَمَلًا : کام دُوْنَ ذٰلِكَ : اس کے سوا وَكُنَّا : اور ہم تھے لَهُمْ : ان کے لیے حٰفِظِيْنَ : سنبھالنے والے
اور شیاطین میں سے بھی ہم نے اس کے لیے مسخر کردیئے تھے جو ان کے لیے سمندروں میں غوطے لگاتے تھے اور اس کے علاوہ دوسرے کام بھی کرتے تھے اور ہم ہی ان کے نگہبان تھے۔
وَمِنَ الشَّیٰطِیْنِ مَنْ یَّغُوْصُوْنَ لَـہٗ وَیَعْمَلُوْنَ عَمَلاً دُوْنَ ذٰلِکَ ج وَکُنَّا لَہُمْ حٰفِظِیْنَ ۔ (الانبیاء : 82) (اور شیاطین میں سے بھی ہم نے اس کے لیے مسخر کردیئے تھے جو ان کے لیے سمندروں میں غوطے لگاتے تھے اور اس کے علاوہ دوسرے کام بھی کرتے تھے اور ہم ہی ان کے نگہبان تھے۔ ) حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے جو کمالات بخشے اور جن نعمتوں سے نوازا ان میں سے ایک نعمت کا سابقہ آیت میں ذکر ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ( علیہ السلام) کے لیے ہَوائوں کو مسخر کردیا تھا۔ اب اس آیت کریمہ میں دوسری نعمت کا ذکر ہورہا ہے کہ جنات بھی آپ ( علیہ السلام) کے لیے مسخر کردیئے گئے تھے۔ قرآن کریم کے اسلوب سے معلوم ہوتا ہے کہ جنات آگ کے بنے ہوئے وہ اجسامِ لطیفہ ہیں جو عقل و شعور رکھتے ہیں اور انسان کی طرح احکامِ شرع کے مکلف ہیں۔ اس مخلوق کو اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے تابع فرمان کردیا تھا، لیکن ان میں سے جو جنات آپ ( علیہ السلام) پر ایمان نہیں لائے انھیں قرآن کریم شیاطین کے نام سے یاد کرتا ہے یعنی جنات کا لفظ تو مومن اور کافر دونوں پر بولا جاتا ہے لیکن غیر مومن اور غیرمسلم جنات کو شیاطین کہا گیا ہے۔ جو جنات مومن تھے وہ تو ایمان کی وجہ سے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی اطاعت کو فرض سمجھتے تھے اس لیے انھیں مسخر کرنے کی بات نہیں کی گئی لیکن جو جنات آپ ( علیہ السلام) پر ایمان نہیں لائے انھیں بطور خاص آپ ( علیہ السلام) کی تسخیر میں دیا گیا۔ وہ اپنے تمام تر کفر اور سرکشی کے باوجود حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے تابع فرمان بنائے گئے تھے وہ ایمان نہ رکھتے ہوئے بھی آپ ( علیہ السلام) کی اطاعت کرنے کے پابند تھے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) ان کی طاقت کے اعتبار سے ان سے ایسے کام لیتے تھے جنھیں انسان انجام نہیں دے سکتے تھے۔ وہ سمندروں میں غوطے لگاتے اور سمندری دولت مونگے اور موتی وغیرہ آپ ( علیہ السلام) کے لیے فراہم کرتے تھے۔ اور سورة سبا میں فرمایا گیا ہے کہ وہ آپ ( علیہ السلام) کے لیے محرابیں اور شاندار مکانات اور مورتیں اور پتھر کے بڑے بڑے پیالے (جو حوض کی طرح کام دیں) تیار کرتے تھے۔ اس کے علاوہ بھی نہ جانے ان سے اور کیا کیا کام لیے جاتے تھے۔ لیکن وہ اپنی ہر طرح کی سرکشی کے باوجود آپ ( علیہ السلام) کے حکم سے سرتابی کرنے کی مجال نہیں رکھتے تھے اور نہ اس بات پر قادر تھے کہ آپ ( علیہ السلام) کو کوئی نقصان پہنچا سکیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ ( علیہ السلام) کی حفاظت کی ذمہ داری لے رکھی تھی۔ اس لیے اس آیت کے آخر میں فرمایا وَکُنَّا لَہُمْ حٰفِظِیْنَ ” اور ہم ہی ان کے نگہبان تھے۔ “ مشرکینِ عرب ان جنات کو عالم الغیب سمجھتے تھے۔ اس لیے ان سے استمداد بھی کرتے تھے اور ان کے نام کے چڑھاوے بھی چڑھاتے تھے لیکن سورة سبا میں اللہ تعالیٰ نے ان کی غلط فہمی دور کرنے کے لیے یہ بات واضح کردی کہ وہ جس طرح باقی رعایا کی طرح حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے احکام کے پابند اور ان کے تابع فرمان تھے اسی طرح وہ دوسری مخلوقات کی طرح غیب جاننے والے نہ تھے ورنہ یہ ممکن نہ تھا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی وفات کی ان کو خبر تک نہ ہوتی اور وہ موت کے بعد بھی حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو سامنے کھڑا محسوس کرکے برابر سخت سے سخت کام انجام دیتے رہتے۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ فَلَمَّا قَضَیْنَا عَلَیْہِ الْمَوْتَ مَادَلَّـہُمْ عَلٰی مَوْتِـہٖٓ اِلاَّ دَآبَّـۃُ الْاَرْضِ تَاْکُلُ مِنْسَاَ تَـہٗ فَلَمَّا خَرَّتَـبَـیَّـنَـتِ الْجِنُّ اَنْ لَّوْکَانُوْا یَعْلَمُوْنَ الْغَیْبَ مَالَبِثُـوْا فِی الْعَذَابِ الْمُہِیْن ” پھر جب ہم نے سلیمان ( علیہ السلام) کو وفات دے دی تو ان جنوں کو اس کی موت پر مطلع کرنے والی کوئی چیز نہ تھی مگر زمین کا کیڑا (یعنی گھن) جو اس کے عصا کو کھا رہا تھا پس جب وہ گرپڑا تو جنوں کو پتہ چل گیا کہ اگر وہ واقعی غیب دان ہوتے تو اس ذلت کے عذاب میں اتنی مدت تک مبتلا نہ رہتے۔ “ قرآن کریم کی ان آیات کو پڑھ کر کوئی شخص اس غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہوسکتا کہ قرآن کریم جن شیاطین کی بات کررہا ہے وہ سرکش انسان تھے اور آس پاس کی قوموں سے فراہم کیے گئے تھے۔ صرف یہی نہیں کہ قرآن کے الفاظ میں ان کی اس تاویل کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے بلکہ قرآن میں جہاں جہاں بھی یہ قصہ آیا ہے وہاں کا سیاق وسباق اور انداز بیان اس تاویل کو راہ دینے سے صاف انکار کرتا ہے۔ حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کے لیے عمارتیں بنانے والے اگر انسان ہی تھے تو آخر یہ ان کی ایسی کیا خصوصیت تھی جس کو اس شان سے قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے اہرام مصری سے لے کر نیویارک کی فلک شگاف عمارتوں تک کس چیز کو انسان نے نہیں بنایا ہے اور کس بادشاہ یا رئیس یا ملک التجار کے لیے وہ ” جن “ اور ” شیاطین “ فراہم نہیں ہوئے جو آپ حضرت سلیمان کے لیے فراہم کررہے ہیں ؟ آیت کی تشریح دوسری آیات کی روشنی میں سورة سبا میں اس کی تفصیل یہ آئی ہے : وَمِنَ الْجِنِّ مَنْ یّعْمَلُ بَیْنَ یَدَیْـہِ بِاِذْنِ رَبِّـہٖ وَمَنْ یَّزِعُ مِنْھُمْ عَنْ اَمْرِنَا نُذِقْـہُ مِنْ عَذَابِ السَّعِیْرِ ۔ یَعْمَلُوْنَ لَـہٗ مَا یَشَّـآئُ مِنْ مَّحَارِیْبَ وَ تَمَاثِیْلَ وَجِفَانٍ کَالْجَوَابِ وَقُدُوْرٍ رَّسِیَاتٍ … فَلَمَّا قَضَیْنَا عَلَیْہِ الْمَوْتَ مَادَلَّـہُمْ عَلٰی مَوْتِـہٖٓ اِلاَّ دَآبَّـۃُ الْاَرْضِ تَاْکُلُ مِنْسَاَ تَـہٗ فَلَمَّا خَرَّتَـبَـیَّـنَـتِ الْجِنُّ اَنْ لَّوْکَانُوْا یَعْلَمُوْنَ الْغَیْبَ مَالَبِثُـوْا فِی الْعَذَابِ الْمُہِیْنِ ۔ ” اور جنوں میں سے ایسے جن ہم نے اس کے لیے مسخر کردیئے تھے جو اس کے رب کے حکم سے اس کے آگے کام کرتے تھے اور جو کوئی ہمارے حکم سے ان میں سے انحراف کرتا تو ہم اس کو بھڑکتی ہوئی آگ کا مزا چکھاتے۔ وہ اس کے لیے جیسے وہ چاہتا قصر اور مجسمے اور حوض جیسے بڑے بڑے لگن اور بھاری جمی ہوئی دیگیں بناتے تھے … پھر جب ہم نے سلیمان ( علیہ السلام) کو وفات دے دی تو ان جنوں کو اس کی موت پر مطلع کرنے والی کوئی چیز نہ تھی مگر زمین کا کیڑا (یعنی گھن) جو اس کے عصا کو کھا رہا تھا پس جب وہ گرپڑا تو جنوں کو پتہ چل گیا کہ اگر وہ واقعی غیب دان ہوتے تو اس ذلت کے عذاب میں اتنی مدت تک مبتلا نہ رہتے۔ اس آیت سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ جو شیاطین حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کے لیے مسخر ہوئے تھے اور جو ان کے لیے مختلف خدمات انجام دیتے تھے وہ جن تھے اور جن بھی وہ جن کے بارے میں مشرکین عرب کا یہ عقیدہ تھا اور جو خود اپنے بارے میں بھی یہ غلط فہمی رکھتے تھے کہ ان کو علم غیب حاصل ہے اب ہر شخص جو قرآن مجید کو آنکھیں کھول کر پڑھے اور اس کو اپنے تعصبات اور پیشگی قائم کیے ہوئے نظریات کا تابع بنائے بغیر پڑھے وہ خود دیکھ سکتا ہے کہ جہاں قرآن مطلق ” شیطان “ اور ” جن “ کے الفاظ استعمال کرتا ہے وہاں اس کی مراد کونسی مخلوق ہوتی ہے اور قرآن کی رو سے وہ کون سے جن ہیں جن کو مشرکین عرب عالم الغیب سمجھتے تھے۔ (تفہیم القرآن)
Top