Ruh-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 85
وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِ١ؕ كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ
وَاِسْمٰعِيْلَ : اور اسمعیل وَاِدْرِيْسَ : اور ادریس وَذَا الْكِفْلِ : اور ذوالکفل كُلٌّ : یہ سب مِّنَ : سے الصّٰبِرِيْنَ : صبر کرنے والے
اور یاد کرو اسماعیل، ادریس اور ذوالکفل کو، یہ سب صبر کرنے والوں میں سے تھے۔
وَاِسْمٰعِیْلَ وَاِدْرِیْسَ وَذَاالْـکِفْلِ ط کُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَ وَاَدْخَلْنٰـھُمْ فِیْ رَحْمَتِنَا ط اِنَّھُمْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ ۔ (الانبیاء : 85، 86) (اور یاد کرو اسماعیل، ادریس اور ذوالکفل کو، یہ سب صبر کرنے والوں میں سے تھے۔ اور ہم نے ان کو اپنی خاص رحمت میں داخل کیا، بیشک وہ نیکوکاروں میں سے تھے۔ ) یہ تینوں انبیائے کرام صبر کی تصویر ہیں یہ تینوں انبیائے کرام بھی حضرت ایوب (علیہ السلام) کی طرح دیگر خصائلِ حمیدہ کے ساتھ ساتھ صبر میں بطور خاص امتیاز رکھتے تھے۔ اس لیے حضرت ایوب (علیہ السلام) کے ذکر کے بعد ان کا ذکر کرکے فرمایا یہ سب صبر کرنے والوں یعنی مشکل سے مشکل حالات میں ثابت قدم رہنے والوں میں سے تھے۔ ان میں حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کا جہاں تک تعلق ہے۔ ان کی زندگی کے حالات اور اپنی ذات کی قربانی کے حوالے سے ان کا کارنامہ صبر کی ہمیشہ رہنے والی ایک ایسی درخشاں مثال ہے اور جس سے امت مسلمہ کا ایک ایک فرد واقف ہے۔ جہاں تک حضرت ادریس (علیہ السلام) کا تعلق ہے قرآن کریم نے بعض جگہ نہایت اہتمام کے ساتھ ان کا ذکر فرمایا ہے اور انھیں صدیق نبی کا خطاب دیا ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں ان کا مقام بہت بلند ہے لیکن ان کی زندگی کے حالات سے تاریخ بالکل خاموش ہے۔ وہ زمانہ قبل از تاریخ کی شخصیت ہیں نہ ہم اس دور کی تاریخ سے واقف ہیں اور نہ ان کی زبان سے۔ بحرمردار کے غاروں سے کچھ نوشتے ملے ہیں جن کے بارے میں بعض ماہرین کا خیال ہے کہ یہ وہ صحیفے ہیں جو حضرت ادریس (علیہ السلام) پر نازل ہوئے تھے، لیکن ان کی زبان چونکہ آج مردہ ہوچکی ہے اس لیے یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا تاوقتیکہ اسے ماہرین پڑھنے میں کامیاب نہ ہوجائیں۔ جہاں تک حضرت ذوالکفل (علیہ السلام) کا تعلق ہے، اس کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ مفسرین کے اقوال میں بہت اضطراب پایا جاتا ہے۔ ان کے نام، ان کے زمانے اور جس علاقے میں وہ مبعوث ہوئے ہر چیز میں شدید اختلاف ہے۔ زیادہ تر لوگ انھیں حضرت حزقیل قرار دیتے ہیں، لیکن یہ بھی اسی شکل میں قابل اعتماد ہے جب یہ ثابت ہوجائے کہ حضرت حزقیل اس لقب سے ملقب تھے۔ قدیم صحیفوں میں ہمیں ان کا کہیں ذکر نہیں ملتا۔ قرآن کریم نے دو جگہ ذکر فرما کر ان کے نام کو زندہ کردیا ہے لیکن ان کے تفصیلی حالات ذکر نہیں فرمائے۔ ممکن ہے عربی لب و لہجہ میں ان کے نام بدل گئے ہوں یا قدیم صحیفوں میں جس طرح اور بعض چیزیں غائب ہوگئی ہیں، ان کا نام بھی غائب کردیا گیا ہو۔ بہر صورت یہ بات تو یقینی ہے کہ جس طرح قرآن کریم نے ان کا ذکر کیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نبی تھے اور صبر ان کا خصوصی اور امتیازی وصف تھا۔
Top