Ruh-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 87
وَ ذَا النُّوْنِ اِذْ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ اَنْ لَّنْ نَّقْدِرَ عَلَیْهِ فَنَادٰى فِی الظُّلُمٰتِ اَنْ لَّاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنْتَ سُبْحٰنَكَ١ۖۗ اِنِّیْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَۚۖ
وَ : اور ذَا النُّوْنِ : ذوالنون (مچھلی والا) اِذْ : جب ذَّهَبَ : چلا وہ مُغَاضِبًا : غصہ میں بھر کر فَظَنَّ : پس گمان کیا اس نے اَنْ لَّنْ نَّقْدِرَ : کہ ہم ہرگز تنگی نہ کریں گے عَلَيْهِ : اس پر فَنَادٰي : تو اس نے پکارا فِي الظُّلُمٰتِ : اندھیروں میں اَنْ لَّآ : کہ نہیں اِلٰهَ : کوئی معبود اِلَّآ اَنْتَ : تیرے سوا سُبْحٰنَكَ : تو پاک ہے اِنِّىْ : بیشک میں كُنْتُ : میں تھا مِنَ : سے الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
اور یاد کرو مچھلی والے کو جبکہ وہ قوم سے برہم ہو کر چل کھڑا ہو اور یہ خیال کیا کہ ہم اس پر کوئی گرفت نہیں کریں گے، پھر اس نے تاریکیوں میں پکارا کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو پاک ہے، بیشک میں ہی قصورواروں سے ہوں۔
وَذَاالنُّوْنِ اِذْ ذَّھَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ اَنْ لَّنْ نَّقْدِرَعَلَیْہِ فَنَادٰی فِی الظُّلُمٰـتِ اَنْ لَّآ اِلٰـہَ اِلاَّ ٓ اَنْتَ سُبْحٰنَکَ صلے ق اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ ۔ (الانبیاء : 87) (اور یاد کرو مچھلی والے کو جبکہ وہ قوم سے برہم ہو کر چل کھڑا ہو اور یہ خیال کیا کہ ہم اس پر کوئی گرفت نہیں کریں گے، پھر اس نے تاریکیوں میں پکارا کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو پاک ہے، بیشک میں ہی قصورواروں سے ہوں۔ ) حضرت یونس (علیہ السلام) کی سرگزشت اس آیت کریمہ میں ذوالنون کے نام سے ایک اور پیغمبر کا ذکر فرمایا جارہا ہے۔ بتانا یہ ہے کہ ہر طرح کی تکلیف اور مایوسی میں اگر کوئی ذات سہارا دینے والی اور کام آنے والی ہے تو وہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ تکلیفوں میں جس طرح عام آدمی مبتلا ہوتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کے نبی بھی مبتلا ہوتے ہیں۔ جس طرح عام آدمی اپنی مدد کے لیے اللہ تعالیٰ کو پکارتا ہے، انبیائے کرام بھی اپنی تمام تر قدرومنزلت کے باوجود اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی ذات اتنی عظیم ہے کہ وہ جب گرفت کرنے پہ آتا ہے تو بڑے سے بڑے مقام و مرتبے والے کی بھی گرفت کرتا ہے۔ عربی زبان میں نون مچھلی کو کہتے ہیں، ذوالنون کا معنی ہے مچھلی والا۔ مراد اس سے حضرت یونس (علیہ السلام) ہیں۔ انھیں مچھلی والا اس لیے کہا گیا ہے کہ وہ ایک محدود عرصے تک مچھلی کے پیٹ میں رہے اور پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی فضل و کرم سے انھیں نجات بخشی۔ انھیں نام کی بجائے لقب سے پکارنا دراصل ایک قسم کے پیار کا اظہار ہے۔ حضرت یونس (علیہ السلام) اہل نینوا کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے تھے۔ نینوا موصل کے قریب ایک شہر تھا جس میں رہنے والوں کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار کہی جاتی ہے۔ صحیفہ یونس میں اسی تعداد کا ذکر کیا گیا ہے اور قرآن کریم نے اسے مِائَۃَ اَلْفٍ اَوْیَزِیْدُوْنَسے تعبیر کیا ہے، یعنی ایک لاکھ اور چند۔ یہ دوسرے لفظوں میں صحیفہ یونس کی روایت کی تائید ہے۔ حضرت یونس (علیہ السلام) نے ایک مدت تک اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلایا لیکن کسی نے ان کی بات سننا گوارا نہ کیا۔ آپ جیسے جیسے دعوت میں سرگرمی پیدا کرتے گئے ویسے ویسے ان کی مخالفت میں اضافہ ہوتا گیا۔ حتیٰ کہ ایک وقت آگیا کہ آپ ان کے رویئے سے حددرجہ نالاں ہوگئے۔ آپ نے محسوس کیا کہ میں اس قدر طویل عرصے تک نہایت اخلاص اور پِتَّہ خون کردینے والی محنت کے ساتھ قوم کو سمجھا چکا ہوں اور انہوں نے کوئی اس کا اثر قبول نہیں کیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس قوم پر اتمامِ حجت ہوچکا۔ اگر ان میں قبولیت کا تھوڑا سا مادہ بھی ہوتا تو یہ ضرور اس دعوت کو قبول کرتے۔ مزید ان کے ساتھ سر کھپانا پتھروں سے سر ٹکرانے کے مترادف ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ میں نے آج تک قبرستانوں میں اذانیں دی ہیں۔ انھیں دعوت دیتے ہوئے میرے بالوں کی سیاہی دھلنے لگی ہے لیکن ان پتھر دلوں میں کوئی نرمی پیدا نہیں ہوئی۔ اس لیے مزید یہاں ٹھہرنا اپنے دکھوں میں اضافہ کرنے کے سوا اور کچھ نہیں ہوگا۔ چناچہ آپ حمیت حق کے جذبے سے جس میں قوم کے رویئے نے برہمی کا عنصر بھی شامل کردیا تھا ناراض ہو کر نینوا سے نکل گئے۔ جب کوئی قوم حق کی ناقدری میں بڑھتی چلی جاتی ہے تو دعوت الی اللہ کا فریضہ انجام دینے والوں میں قوم کی طرف سے مایوسی کا پیدا ہوجانا ایک فطری جذبہ ہے اور اس میں کسی نفسانیت کے شائبہ کی بجائے حمیتِ حق کا جذبہ کارفرما ہوتا ہے۔ اسی جذبے کے تحت حضرت یونس (علیہ السلام) قوم کو چھوڑ کر چلے گئے لیکن اس جذبے کے غلبے کی وجہ سے ان کے ذہن سے یہ بات اتر گئی کہ وہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے نینوا میں رسول کی حیثیت سے مبعوث کیے گئے ہیں۔ آپ کی حیثیت ایک مورچے میں متعین سپاہی کی ہے۔ آپ کسی حالت میں بھی اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر مورچہ نہیں چھوڑ سکتے۔ آپ کو کب تک اپنی قوم میں رہنا ہے اور کب وہاں سے ہجرت کرنا ہے اس کا فیصلہ آپ نہیں کریں گے بلکہ پروردگار کرے گا۔ انبیائے کرام کی یہ سنت رہی ہے کہ چاہے ان پر کیسی قیامت گزر جائے وہ کبھی اپنی قوم کو اذن الٰہی کے بغیر چھوڑ کر ہجرت نہیں کرتے۔ حضرت یونس (علیہ السلام) حمیتِ حق کے جوش میں انبیائے کرام کی اس سنت کی طرف توجہ نہیں دے سکے اور ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انھیں اس بات کا یقین تھا کہ میں چونکہ ایک طویل عرصے تک بدترین حالات میں اپنے فرائض انجام دے چکا ہوں، میرے یہاں سے نکلنے پر اللہ تعالیٰ کوئی گرفت نہیں فرمائیں گے۔ حضرت یونس (علیہ السلام) اپنی بستی سے نکلے تو نئی منزل کی تلاش میں دریا کو عبور کرنے کے لیے ایک کشتی میں سوار ہوئے جو پہلے سے تیار کھڑی تھی۔ کشتی کچھ سفر کرنے کے بعد ایک طوفان میں گھر گئی۔ جب طوفان ٹلتا نظر نہ آیا تو ملاحوں نے اس زمانے کے عام وہم کے مطابق یہ خیال کیا کہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کشتی میں غلام ہے جو اپنے مالک سے بھاگ آیا ہے۔ اب سوال یہ تھا کہ وہ غلام کون ہے ؟ اس کے لیے انھوں نے قرعہ اندازی کا فیصلہ کیا۔ قرعہ ڈالنے کے لیے انھوں نے حضرت یونس (علیہ السلام) سے درخواست کی، کیونکہ آپ ( علیہ السلام) اپنی پیغمبرانہ وجاہت اور دلآویز شخصیت کے باعث سب میں ثقہ معلوم ہورہے تھے۔ قرعہ ڈالا گیا تو حضرت یونس (علیہ السلام) ہی کا نام نکلا۔ آپ ( علیہ السلام) سمجھ گئے کہ میں ہی بھاگا ہوا غلام ہوں جو اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر بستی سے نکل آیا ہوں۔ آپ ( علیہ السلام) سمندر میں کود گئے۔ ایک بہت بڑی مچھلی اللہ تعالیٰ کے حکم سے پہلے ہی منہ کھولے کھڑی تھی، اس نے آپ ( علیہ السلام) کو نگل لیا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے حکم دیا کہ خبردار میرے پیغمبر کو کوئی نقصان نہ پہنچے، یونس تمہاری خوراک نہیں بلکہ ہم نے تیرے شکم کو اس کے لیے قیدخانہ بنایا ہے۔ حضرت یونس (علیہ السلام) نے جب دیکھا کہ میں نے مشکلات سے نکلنے کے لیے ایک کوشش کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مجھے گہرے ظلمات میں ڈال دیا گیا۔ مچھلی کے پیٹ کی تاریکی، سمندر کے پانی کی تاریکی اور پھر اوپر بادلوں کی تاریکی۔ آپ ( علیہ السلام) جان گئے کہ یہاں سے نکلنے کی کوئی راہ نہیں۔ چناچہ آپ ( علیہ السلام) کے دل سے وہ زندہ جاوید دعا نکلی جس کے لیے آج بھی یہ ضمانت ہے کہ وہ اگر صدق دل سے مانگی جائے تو کبھی قبولیت سے محروم نہیں رہتی۔ اس دعا میں آپ ( علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور سبوحیت کا اقرار کیا اور اپنے آپ کو گنہگار اور قصوروار ٹھہرا کر نہایت بےبسی سے اپنے رب کو پکارا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی اور مچھلی نے ان کو ساحل کی ریت پر اگل دیا۔ وہاں اللہ تعالیٰ نے ان کے نڈھال جسم کو گرمی اور دھوپ کی تمازت سے بچانے کے لیے کدو یا اسی قسم کی کوئی بیل پہلے سے اگا رکھی تھی جس کے نیچے انھیں پناہ ملی۔ جب اس حادثہ سے اوسان بجا ہوئے اور جسم میں کچھ جان آئی تو ان کو پھر اہل نینوا کے پاس انذار کے لیے جانے کی ہدایت ہوئی۔ نینوا کے عام باشندے اس سے پہلے ہی حالات کے تیور دیکھ کر اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدہ ریز ہوچکے تھے۔ وہ سب اللہ پر ایمان لائے۔ بادشاہ نے بھی شاہی لباس اتار کر ٹاٹ کا پیرہن پہن لیا اور باشندوں کے نام فرمان جاری کیا کہ ہر شخص اپنی بری ر اہ سے باز آجائے، روزہ رکھے، اللہ کے حضور زاری کرے اور توبہ وانابت کا سر جھکائے۔ آیتِ کریمہ کے بعض جملوں کے غلط ترجمے کی وجہ سے غلط فہمیاں پیدا ہوئی ہیں۔ اس لیے میں ضروری سمجھتا ہوں کہ ان جملوں کی وضاحت کردی جائے تاکہ یہ غلط فہمیاں دور ہوجائیں۔ بعض جملوں کی تشریح اِذْ ذَّھَبَ مُغَاضِبًا ” جب وہ نکلے غضبناک ہوکر۔ “ بعض لوگوں نے اس سے یہ سمجھا کہ حضرت یونس (علیہ السلام) اپنے کام سے دلبرداشتہ اور غضبناک ہو کر ذمہ داری سے پہلو تہی کرتے ہوئے نکل کھڑے ہوئے حالانکہ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ان کی غضبناکی اور ناراضگی کا سبب وہ آزردگی تھی جو انھیں قوم کے رویئے سے ہوئی۔ انھوں نے قوم کو راہ راست پر لانے کے لیے سارے جتن کر ڈالے لیکن ان سنگدلوں میں کہیں نرمی پیدا نہ ہوئی۔ اس صورتحال نے ان کو آزردہ کیا جس سے جوشِ حمیت نے ان کے اندر غضبناکی پیدا کی۔ جس کا سبب قوم کی طرف سے اللہ تعالیٰ کے دین کی ناقدری کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ فَظَنَّ اَنْ لَّنْ نَّقْدِرَعَلَیْہِ … بعض لوگوں نے اس کا مطلب یہ سمجھا ہے کہ حضرت یونس (علیہ السلام) نے یہ گمان کیا کہ اللہ تعالیٰ اس پر قادر نہیں حالانکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت یونس (علیہ السلام) نے یہ گمان کیا کہ ان کے اپنی قوم کو چھوڑ کر نکل جانے سے اللہ تعالیٰ کوئی گرفت نہیں فرمائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کوئی نہیں جانتا کہ میں کس حد تک یہاں محنت کرچکا ہوں اور قوم کے رویئے نے مجھے کس حد تک مایوس کیا ہے۔ اس پر اگر آپ غور کریں گے تو آپ محسوس کریں گے کہ یہ سراسر فطری جذبہ تھا جس میں کوئی قابل گرفت بات نہیں البتہ حضرت یونس کو جوشِ غیرت میں اس بات کی طرف توجہ نہیں ہوسکی کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں جس محاذ پر مامور کیا ہے وہ اس کے اذن اور اجازت کے بغیر اسے چھوڑ نہیں سکتے۔ یہ ایک ایسی اجتہادی فروگزاشت تھی جو کسی عام شخص سے ہوتی، وہ اپنی ذات میں کتنا بھی نیک ہوتا لیکن پیغمبر نہ ہوتا، تو اللہ تعالیٰ اس پر کبھی گرفت نہ فرماتا۔ لیکن حضرات انبیائے چونکہ تمام انسانیت کے لیے نمونہ ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے ان سے کوئی ادنیٰ لغزش بھی صادر ہوتی ہے تو پروردگار اس کی اصلاح فرماتے ہیں تاکہ اصلاح و تربیت کا اعلیٰ نمونہ متأثر نہ ہونے پائے۔ حضرت یونس (علیہ السلام) نے جو دعا کی، اسے عام طور پر آیت کریمہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ امامِ احمد، امامِ ترمذی اور دیگر محدثین سے منقول ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا : ” دَعوَۃُ ذِی النُّونِ اِذَا دَعَارَبَّہ وَھُوَ فِی بَطْنِ الحُوتِ لَااِلہَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحَانَکَ اِنِّی کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِیْنَ ، لَم یَدَعَ بِہَارَجُلٌ مُسْلِمٌ فِی شَییئٍ اِلَّااِسْتَجَابَ لَہٗ ۔ “ یعنی حضرت ذی النون کی وہ دعا جو مچھلی کے شکم میں انھوں نے کی تھی جو مسلمان جس مشکل میں ان الفاظ سے دعا کرے گا اللہ تعالیٰ اس کی دعا قبول فرمائے گا۔ حاکم نے ایک اور ارشادِ نبوی اس طرح نقل کیا ہے۔ الا اخبرکم بشییء اذا نزل باحدمنکم کرب اوبلاء فدعا بہ الافرج اللہ عنہ قیل بلی یارسول اللہ۔ حضور نے اپنے صحابہ سے پوچھا کیا میں تمہیں ایک ایسی چیز نہ بتادوں کہ جب تمہیں کوئی غم اور مصیبت لاحق ہو اور تم اس سے بارگاہ الٰہی میں التجا کرو تو اللہ تعالیٰ تمہاری مشکل آسان فرما دے۔ صحابہ نے عرض کی اے اللہ کے رسول ضرور ارشاد فرمایئے تو حضور ﷺ نے یہی دعا ارشاد فرمائی۔ حضرت شاہ عبدالعزیز نے اپنے والد بزرگوار حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) سے قضائے حاجات کے لیے نفل پڑھنا بیان فرمایا۔ ناظرین کے فائدہ کے لیے ان کی ترتیب بھی لکھی جاتی ہے۔ ” مجھ کو میرے والد مرشد نے اجازت فرمائی ہے کہ انسان حاجاتِ مشکلہ کے بر آنے کے واسطے چار رکعتیں پڑھے۔ پہلی رکعت میں سورة فاتحہ کے بعد لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اَنْتَ سُبْحَانَـکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِیْن فَاسْتَجَبْنَا لَـہٗ وَنَجَّیْنٰہُ مِنَ الْغَمِّ وَکَذَالِکَ نُنْجِی الْمُؤْمِنِیْن کو سو بار پڑھے۔ دوسری رکعت میں فاتحہ کے بعد رَبِّ اِنِّیْ مَسَّنِیَ الضُرُّوَ اَنْتَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْن سو بار پڑھے۔ تیسری رکعت میں فاتحہ کے بعد وَاُفَـوِّضُ اَمْرِیْ اِلٰی اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ بَصِیْرٌ بِالْعِبَادِسو بار۔ چوتھی رکعت میں بعد فاتحہ کے قَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْل پھر سلام پھیر کر سو بار یہ کہے رب انی مغلوب فانتصر۔ شاہ عبدالعزیز صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ حضرت امام جعفر صادق ( رح) نے ارشاد فرمایا کہ یہ چاروں آیتیں اسم اعظم ہیں کہ ان کے وسیلے سے جو سوال کیا جائے اور جو دعا کی جائے قبول ہوتی ہے۔
Top