Ruh-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 96
حَتّٰۤى اِذَا فُتِحَتْ یَاْجُوْجُ وَ مَاْجُوْجُ وَ هُمْ مِّنْ كُلِّ حَدَبٍ یَّنْسِلُوْنَ
حَتّٰٓي : یہانتک کہ اِذَا : جب فُتِحَتْ : کھول دئیے جائینگے يَاْجُوْجُ : یاجوج وَمَاْجُوْجُ : اور ماجوج وَهُمْ : اور وہ مِّنْ : سے كُلِّ : ہر حَدَبٍ : بلندی (ٹیلہ) يَّنْسِلُوْنَ : پھیلتے (دوڑتے) آئیں گے
یہاں تک کہ جب یاجوج اور ماجوج کھول دیئے جائیں گے اور وہ ہر بلندی سے نیچے اترنے لگیں گے۔
حَتّٰیٓ اِذَا فُتِحَتْ یَاْجُوْجُ وَ مَاْجُوْجُ وَھُمْ مِّنْ کُلِّ حَدَبٍ یَّنْسِلُوْنَ ۔ (الانبیاء : 96) (یہاں تک کہ جب یاجوج اور ماجوج کھول دیئے جائیں گے اور وہ ہر بلندی سے نیچے اترنے لگیں گے۔ ) ” حدب “ اونچی جگہ کو کہتے ہیں۔ اس کی جمع ” حداب “ ہے۔ ” ینسلون “ نسلان الذئب سے ماخوذ ہے، بھیڑیئے کی سرعت رفتار کو کہتے ہیں۔ یاجوج و ماجوج سے مراد یاجوج اور ماجوج کے متعلق تفصیلی بحث سورة کہف میں گزر چکی ہے۔ ملاحظہ ہو سورة کہف آیت 94۔ لیکن وہاں صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ ذوالقرنین جب ایشیا کے شمال مشرقی علاقے میں پہنچے ہیں تو وہاں پہاڑوں کے دامن میں رہنے والوں نے شکایت کی تھی کہ وقتاً فوقتاً یاجوج اور ماجوج ہم پر حملہ آور ہو کر تباہی مچا دیتے ہیں۔ چونکہ وہ ان پہاڑوں کے پیچھے رہتے ہیں اور مختلف قبائل کی صورت میں کھلے آسمان کے نیچے فطری زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کی کثرت تعداد اور خوف و خطر سے بےنیاز طبیعت کے باعث متمدن ممالک ان کا مقابلہ کرنے سے عاجز ہیں۔ آپ ہمارے اور ان کے درمیان پہاڑوں کے درمیان ایک دیوار کھینچ دیجیے تاکہ وہ ہم تک نہ پہنچ سکیں۔ چناچہ ذوالقرنین ان کے راستے میں ایک مضبوط دیوار کھڑی کردی اور اس طرح سے اس وقت کی متمدن دنیا کو ان کی یلغار سے محفوظ کردیا۔ بیشتر مؤرخین کا خیال ہے کہ یاجوج و ماجوج سے مراد روس اور شمالی چین کے وہ قبائل ہیں جو تاتاری، منگولی، ھن اور سیتھین وغیرہ ناموں سے مشہور ہیں اور قدیم زمانے سے متمدن ممالک پر حملے کرتے رہے ہیں۔ بائبل کی کتاب پیدائش (باب 10) میں ان کو حضرت نوح (علیہ السلام) کے بیٹے یافث کی نسل میں شمار کیا گیا ہے۔ حزقی ایل کے صحیفے (باب 38۔ 39) میں ان کا علاقہ روس اور توبل (موجودہ توبالسک) اور مسک (موجودہ ماسکو) بتایا گیا ہے۔ اسرائیلی مؤرخ یوسیفوس ان سے مراد سیتھین قوم لیتا ہے جس کا علاقہ بحراسود کے شمال اور مشرق میں واقع تھا۔ جیردم کے بیان کے مطابق ماجوج کا کیشیا کے شمال میں بحر خزر کے قریب آباد تھے۔ لیکن پیش نظر آیت کریمہ میں جن یاجوج و ماجوج کا ذکر ہورہا ہے، اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ یہ انھیں یاجوج و ماجوج کی اولاد ہیں یا یہ کوئی اور قوم ہیں جنھیں کسی خاص مناسبت کے باعث یاجوج و ماجوج کہا گیا ہے۔ ان کا ظہور قرب قیامت میں ہوگا۔ نبی کریم ﷺ کا مشہور ارشاد جسے مسلم نے حذیفہ بن اسید الغفاری ( رض) کی روایت سے نقل کیا ہے، اس میں بھی یاجوج ماجوج کا ذکر فرمایا گیا ہے اور اس حدیث میں بیان کردہ تمام نشانیوں کا تعلق قرب قیامت سے ہے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ قیامت قائم نہ ہوگی جب تک تم اس سے پہلے دس علامتیں نہ دیکھ لو۔ دھواں، دجال، دابۃ الارض، مغرب سے سورج کا طلوع، حضرت عیسیٰ ابن مریم کا نزول، یاجوج و ماجوج کی یورش اور تین بڑے خسوف ایک مشرق میں، دوسرا مغرب اور تیسرا جزیرۃ العرب میں۔ پھر سب سے آخر میں یمن سے ایک سخت آگ اٹھے گی جو لوگوں کو محشر کی طرف ہانکے گی۔ ان کا صحیح تعین تو مشکل ہے، اسی وجہ سے مفسرین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ مولانا شبیراحمد عثمانی ( رح) نے فوائد القرآن میں جو کچھ لکھا ہے ہم اس کو نقل کر رہے ہیں۔ وہ بالکل ایک مختلف بات کی طرف ہماری رہنمائی کررہے ہیں۔ ایک تحقیق یاجوج و ماجوج کون ہیں ؟ کس ملک میں رہتے ہیں ؟ ذوالقرنین کی بنائی ہوئی سد (آہنی دیوار) کہاں ہے ؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے متعلق مفسرین و مؤرخین کے اقوال مختلف رہے ہیں۔ میرا خیال یہ ہے (واللہ اعلم) کہ یاجوج و ماجوج کی قوم عام انسانوں اور جنات کے درمیان ایک برزخی مخلوق ہے اور جیسا کہ کعب احبار نے فرمایا اور نووی نے فتاوی میں جمہور علماء سے نقل کیا ہے ان کا سلسلہ نسب باپ کی طرف سے آدم پر منتہی ہوتا ہے مگر ماں کی طرف سے حوا تک نہیں پہنچتا گویا وہ عام آدمیوں کے محض باپ شریک بھائی ہوئے۔ کیا عجب ہے کہ دجال اکبر جسے تمیم داری نے کسی جزیرہ میں مقید دیکھا تھا اسی قوم کا ہو، جب حضرت مسیح (علیہ السلام) جو محض ایک آدم زاد خاتون (مریم صدیقہ) کے بطن سے بتوسط نفخہ ملکیہ پیدا ہوئے نزول من السماء کے بعد دجال کو ہلاک کردیں گے۔ اس وقت یہ قوم یاجوج و ماجوج دنیا پر خروج کرے گی اور آخرکار حضرت مسیح کی دعا سے غیرمعمولی موت مرے گی۔ اس وقت یہ قوم کہاں ہے ؟ اور ذوالقرنین کی دیوار آہنی کس جگہ واقع ہے ؟ سو جو شخص ان سب اوصاف کو پیش نظر رکھے گا جن کا ثبوت اس قوم اور دیوار آہنی کے متعلق قرآن کریم اور احادیث صحیحہ میں ملتا ہے اس کو کہنا پڑے گا کہ جن قوموں، ملکوں اور دیواروں کا لوگوں نے رائے سے پتہ بتادیا ہے یہ مجموعہ اوصاف ایک میں بھی پایا نہیں جاتا۔ لہٰذا وہ خیالات صحیح معلوم نہیں ہوتے اور احادیث صحیحہ کا انکار یا نصوص کی تاویلات بعیدہ دین کے خلاف ہے۔ رہا مخالفین کا یہ شبہ کہ ہم نے تمام زمین کو چھان ڈالا مگر کہیں اس کا پتہ نہیں ملا اور اسی شبہ کے جواب کے لیے ہمارے مخالفین نے پتہ بتلانے کی کوشش کی ہے۔ اس کا صحیح جواب وہی ہے جو علامہ آلوسی بغدادی نے دیا ہے کہ ہم کو اس کا موقع معلوم نہیں، اور ممکن ہے کہ ہمارے اور اس کے درمیان بڑے بڑے سمندر حائل ہوں، اور یہ دعویٰ کرنا کہ ہم تمام خشکی اور تری پر محیط ہوچکے ہیں واجب التسلیم نہیں۔ عقلاً جائز ہے کہ جس طرح اب سے پانچ سو برس پہلے ہم کو چوتھے براعظم (امریکہ) کے وجود کا پتہ نہ تھا اب بھی کوئی پانچواں براعظم ایسا موجود ہو جہاں تک ہم رسائی نہ حاصل کرسکے ہوں اور تھوڑے دنوں بعد ہم وہاں تک یا وہ لوگ ہم تک پہنچ سکیں۔ سمندر کی دیوار اعظم جو آسٹریلیا کے شمال مشرقی ساحل پر واقع ہے آج کل برطانوی سائنسدان ڈاکٹر سی ایم ینگ کے زیرہدایت اس کی تحقیقات جاری ہیں۔ یہ دیوار ہزار میل سے زیادہ لمبی اور بعض بعض مقامات پر بارہ بارہ میل تک چوڑی اور ہزار فٹ اونچی ہے جس پر بیشمار مخلوق بستی ہے جو مہم اس کام کے لیے روانہ ہوئی تھی حال میں اس نے اپنی یک سالہ تحقیق ختم کی ہے، جس سے سمندر کے عجیب و غریب اسرار منکشف ہوتے ہیں اور انسان کو حیرت واستعجاب کی ایک نئی دنیا معلوم ہو رہی ہے، پھر کیسے دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ ہم کو خشکی و تری کی تمام مخلوق کے مکمل انکشافات حاصل ہوچکے ہیں ؟ بہرحال مخبر صادق نے جس کا صدق دلائل قطعیہ سے ثابت ہے جب اس دیوار کی مع اس کے اوصاف کے خبر دی تو ہم پر واجب ہے کہ ہم اس کی تصدیق کریں اور ان واقعات کے منتظر رہیں جو مشرکین و منکرین کے علی الرغم پیش آکر رہیں گے۔ (حاشیہ قرآن بر ترجمہ شیخ محمود حسن، مطبوعہ مملکۃ عربیہ سعودیہ) یاجوج و ماجوج کا ظہور قرب قیامت کی علامت ہے یاجوج و ماجوج کوئی بھی ہوں، یہاں صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ قرب قیامت کی علامتوں میں سے ایک علامت یاجوج و ماجوج کا ظہور بھی ہے۔ قربِ قیامت میں یہ لوگ اپنی پناہ گاہوں سے اتنی بڑی تعداد میں اور اس سرعت رفتار کے ساتھ نکلیں گے کہ ساری دنیا فساد سے بھر جائے گی اور وہ اس طرح دنیا پر ٹوٹ پڑیں گے جیسے کوئی شکاری درندہ یکایک پنجرے یا بندھن سے چھوڑ دیا گیا ہو۔ اس وقت دنیا کی کیا صورت ہوگی، بعض اہل علم کا خیال ہے کہ یہ چیز متشابہات میں سے ہے اور متشابہات کی اصل حقیقت اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ تاہم یہ بات واضح ہے کہ اس وقت قیامت کا وقت انتہائی قریب آ لگا ہوگا۔ یہ قریش مکہ اور ان جیسے دوسرے لوگ جو آنحضرت ﷺ اور قرآن کے پیش کردہ دلائل سے مطمئن ہونے والے نہیں، ان کی آنکھیں اس وقت کھلیں گی جب قیامت ان کے سر پر آکھڑی ہوگی، یہ اس وقت ایمان لانے کی کوشش کریں گے لیکن اس وقت ایمان لانا ان کے کسی کام نہیں آئے گا۔
Top