Ruh-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 98
اِنَّكُمْ وَ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ١ؕ اَنْتُمْ لَهَا وٰرِدُوْنَ
اِنَّكُمْ : بیشک تم وَمَا : اور جو تَعْبُدُوْنَ : تم پرستش کرتے ہو مِنْ : سے دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا حَصَبُ : ایندھن جَهَنَّمَ : جہنم اَنْتُمْ لَهَا : تم اس میں وٰرِدُوْنَ : داخل ہونے والے
بیشک تم اور تمہارے وہ معبود جن کو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو جہنم کا ایندھن بنو گے، تم لازماً اس میں داخل ہو کر رہو گے۔
اِنَّـکُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ حَصَبُ جَھَنَّمَ ط اَنْـتُمْ لَھَاوٰرِدُوْنَ ۔ (الانبیاء : 98) (بیشک تم اور تمہارے وہ معبود جن کو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو جہنم کا ایندھن بنو گے، تم لازماً اس میں داخل ہو کر رہو گے۔ ) تمہارا اعتراف کام نہیں آئے گا آج تم اپنی قسمت کا ماتم کرتے ہو اور اعتراف کرتے ہو کہ ہم غفلت میں پڑے رہے، اللہ تعالیٰ کے عظیم پیغمبر نے ہرچند کوشش کی لیکن ہم نے آنکھیں کھولنا گوارا نہ کیں بلکہ ہم ظلم کے راستے پر چل نکلے۔ پیش نظر آیت کریمہ میں فرمایا جارہا ہے کہ تمہارا یہ اعتراف اور یہ واویلا قیامت میں کسی کام نہیں آئے گا۔ تمہارا انجام اس کے سوا کچھ نہیں کہ تمہیں بھی جہنم میں پھینکا جائے گا اور تمہارے ان معبودوں کو بھی جنھیں تم نے اللہ تعالیٰ کا شریک بنا رکھا تھا اور جن کی تم اللہ تعالیٰ کے علاوہ عبادت کرتے ہو۔ ماتعبدون میں ” ما “ اس بات کا قرینہ ہے کہ اس سے مراد ان کے اصنام و احجار ہیں، مشرکین جن کی پوجا کرتے تھے۔ ” ما “ کا استعمال چونکہ بےجان چیزوں کے لیے ہوتا ہے اس لیے اس سے مراد وہ جاندار قوتیں نہیں ہوسکتیں جن کی مشرکین بتوں کے علاوہ پوجا کرتے تھے۔ ان کا ذکر قرآن کریم نے بعض دوسرے مواقع پر کیا ہے۔ یہاں تو صرف یہ بتانا ہے کہ جن پتھروں کے خدائوں کو تم نے اپنا معبود سمجھا جب تمہیں جہنم میں ڈالا جائے گا تو تمہارے ساتھ انھیں بھی جہنم میں پھینکا جائے گا اور وہ بھی تمہاری طرح جہنم کا ایندھن بنیں گے۔ اس وقت تمہیں شدید احساس ہوگا کہ جنھیں ہم اپنا معبود سمجھ کر پوجتے رہے اور یہ یقین کرتے رہے کہ قیامت کے دن یہ ہمارے سفارشی ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچانے کے لیے یہ ہماری شفاعت کریں گے اور آج ان کا حال یہ ہے کہ یہ ہمارے ساتھ جہنم میں جل رہے ہیں۔ روایات میں آتا ہے کہ اس آیت پر عبداللہ بن الزیغری نے اعتراض کیا کہ تم یہ کہتے ہو کہ مشرکین کے معبود بھی ان کے ساتھ جہنم میں ڈالے جائیں گے، تو اس کا مطلب تو یہ ہے کہ حضرت مسیح اور حضرت عزیر اور ملائکہ بھی جہنم میں جائیں گے کیونکہ عیسائیوں نے حضرت مسیح کو ابن اللہ ٹھہرایا اور ان کی پوجا کی اور یہود نے حضرت عزیر کو معبود سمجھا اور مشرکین عرب فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دیتے رہے اور ان سے مرادیں مانگتے رہے۔ تو کیا یہ بھی اپنے پوجا کرنے والوں کے ساتھ جہنم میں ڈالے جائیں گے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا، نَعَمْ کُلُّ مَنْ اَحَبَّ اَنْ یُعْبَدَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَھُوَ مَعْ مَنْ عَبَدَہٗ ” ہاں ہر وہ شخص جس نے پسند کیا کہ اللہ تعالیٰ کی بجائے اس کی بندگی کی جائے، وہ جہنم کے عذاب میں ان کے ساتھ ہوگا۔ “ اس کا مطلب یہ ہے کہ مشرکین کے ساتھ جہنم میں وہ شخص ڈالا جائے گا جس نے انھیں اپنی بندگی کی تعلیم دی ہو اور جو اپنی بندگی پر خوش ہوتا رہا ہو۔ رہے وہ لوگ جنھوں نے عمر بھر خلق خدا کو بندگیِ رب کی ترغیب دی لیکن دنیا سے چلے جانے کے بعد لوگوں نے انھیں ہی معبود بنا لیا۔ جیسے اللہ تعالیٰ کے نبی اور ولی۔ اس سے ظاہر ہے کہ دوسروں کے جرم میں وہ کیسے ماخوذ ہوں گے۔ حضرت عیسیٰ اور حضرت عزیر (علیہ السلام) اپنی قوموں کو اللہ تعالیٰ کی توحید سکھاتے اور اس کی بندگی کی تعلیم دیتے رہے، بعد میں لوگوں نے کیا روش اختیار کی، اس کی ان پر کیا ذمہ داری۔ اسی طرح ملائکہ اللہ تعالیٰ کے مقرب بندے ہیں اور ہر وقت اس کے احکام کی تعمیل میں لگے رہتے ہیں، انھیں کیا خبر اور ان کی کیا ذمہ داری کہ لوگ ان کے بارے میں کس گمراہی میں مبتلا ہیں۔ البتہ جن لوگوں نے اہل دنیا سے اپنی بندگی کروائی اور طاغوت بن کر زندگی گزاری اور اللہ تعالیٰ کے قانون کے مقابلے میں لوگوں پر اپنا قانون نافذ کیا، وہ یقینا اللہ تعالیٰ کے یہاں سخت جوابدہی سے گزریں گے۔
Top