بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Ruh-ul-Quran - Al-Hajj : 1
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمْ١ۚ اِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَیْءٌ عَظِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ : اے لوگو ! اتَّقُوْا : ڈرو رَبَّكُمْ : اپنا رب اِنَّ : بیشک زَلْزَلَةَ : زلزلہ السَّاعَةِ : قیامت شَيْءٌ : چیز عَظِيْمٌ : بڑی بھاری
(اے لوگو ! اپنے پروردگار کے غضب سے بچو، بیشک قیامت کا زلزلہ بڑی ہی ہولناک چیز ہے۔
یٰٓـاَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّـکُمْ ج اِنَّ زَلْزَلَـۃَ السَّاعَۃِ شَیْ ئٌ عَظِیْمٌ۔ (الحج : 1) (اے لوگو ! اپنے پروردگار کے غضب سے بچو، بیشک قیامت کا زلزلہ بڑی ہی ہولناک چیز ہے۔ ) نسخہ اصلاح پروردگار نے انسان کے اعمال و اخلاق کی اصلاح کے لیے جو نسخہ تجویز فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ انسان کے دل و دماغ میں یہ خیال راسخ کردیا جائے کہ تمہارا ایک خدا ہے جو تمہارا خالق ومالک اور حاکم حقیقی ہے۔ اس نے تمہیں دنیا میں ایک مقصد کے لیے پیدا فرمایا ہے۔ اس مقصد کے شعور کو تازہ رکھنے کے لیے ہر دور میں اس نے اپنے نبی اور رسول بھیجے ہیں اور اس مقصد کی وضاحت کے لیے کتابیں اتاری ہیں اور عملی زندگی پر انطباق کے لیے اپنے رسول کی زندگی کو اسوہ حسنہ و کاملہ ٹھہرایا ہے۔ کتاب اور صاحب کتاب دونوں مل کر اللہ تعالیٰ کے اس قانون کو دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں جس کے مطابق زندگی گزارنا کامیابی کی ضمانت ہے اور جس کی مخالفت دنیا و آخرت کی ناکامی اور ہلاکت ہے۔ اپنے ہر پیغمبر کی معرفت اس نے اہل دنیا پر یہ بات واضح کی کہ تم ہمارے دیئے ہوئے نظام زندگی کے مطابق زندگی گزارتے ہو یا اس کی مخالفت کرتے ہو، اس کا پورا ریکارڈ ہمارے فرشتے تیار رکھیں گے اور اس میں تمہارا کوئی عمل چھوٹنے نہیں پائے گا۔ ایک دن ایسا آئے گا جب ہم اس ریکارڈ کی بنیاد پر تم سے جواب طلب کریں گے۔ تم اپنے ایک ایک عمل کا جواب دینے کے پابند ٹھہرو گے۔ اسی جوابدہی پر تمہاری جزاء اور سزا کا دارومدار ہوگا۔ قیامت کا یہ تصور جیسے جیسے پختہ ہوتا جاتا ہے، ویسے ویسے انسان کی زندگی میں ہر آلودگی کی تطہیر ہوتی جاتی ہے۔ وہ جب بھی کسی دماغی خیانت کا ارتکاب کرتا ہے تو اسے یہ خیال دامن گیر ہوجاتا ہے کہ میرا خدا میری اس خیانت سے واقف ہے کیونکہ اس کا علم مجھے گھیرے ہوئے ہے۔ جب کبھی وہ اللہ تعالیٰ کے دین کے خلاف دل میں منصوبے باندھتا ہے تو اگر قیامت کا یقین اس کے دل کے کسی گوشے میں موجود ہے تو وہ فوراً اسے روکتا ہے کہ تم شاید سمجھتے ہو کہ تمہاری اس منصوبہ بندی سے کوئی واقف نہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ تمہارے دل کی حالت کو بھی جانتا ہے۔ اسی طرح کبھی اس کا قدم اسلامی شریعت کی حدود سے آگے نکلنے لگتا ہے تو قیامت کا یقین اسے آ پکڑتا ہے کہ تم بھول گئے ہو کہ تم اللہ تعالیٰ کی نگاہوں میں ہو۔ صحرا میں کوئی پتّا گرتا ہے تو وہ اسے جانتا ہے، زمین میں کوئی دانہ پھوٹتا ہے یا کلی چٹکتی ہے تو اللہ تعالیٰ اسے دیکھ رہا ہوتا ہے، سمندر کی تاریکیوں میں کوئی مچھلی حرکت کرتی ہے تو وہ اس کی آواز سنتا ہے۔ اسی طرح تمہارا ہر عمل بھی اس کی نگاہوں میں ہے۔ اور تمہارے کندھوں پر بیٹھنے والے دو معزز فرشتے برابر تمہارا روزنامچہ مرتب کررہے ہیں۔ جس طرح ایک چور چوکیدار کی موجودگی میں نقب لگانے کی جرأت نہیں کرتا، ایک کلرک، ہیڈکلرک کے ہوتے ہوئے، ایک دفتر کے کارکنان سپرنٹنڈنٹ کی موجودگی میں اور ایک سیکشن میں کام کرنے والے سیکشن افسر کے ہوتے ہوئے غلط کام کرنے کی جرأت نہیں کرتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ دیکھنے والی نگاہ ہمیں دیکھ رہی ہے۔ تو جس شخص کو اس بات کا یقین ہوجائے کہ میں اللہ تعالیٰ کی نگاہوں میں ہوں، اس کے علم کے حصار میں ہوں، فرشتوں کے جھرمٹ میں ہوں اور میرے کندھوں پر بیٹھنے والے میری ہر حرکت کو ضبط تحریر میں لا رہے ہیں تو وہ دیوانہ ہوجائے تو اور بات ہے ورنہ ہوش و حواس میں وہ گناہ کا ارتکاب نہیں کرسکتا، کسی خیانت کی جرأت نہیں کرسکتا اور کسی بدکرداری کا حوصلہ نہیں کرسکتا۔ قیامت کے زلزلے کی تصویر اصلاح کے اس بنیادی حوالے کے باعث اس آیت کریمہ میں سب سے پہلے یہ حکم دیا گیا کہ لوگو ! اپنے رب سے ڈرو، اس کی قوت بےپناہ اور اس کی قدرت احاطہ تصور سے ماورا ہے۔ اس کا علم ہر غلطی سے پاک اور اس کے کارکنان ہر تساہل سے محفوظ ہیں۔ تمہاری زندگی کا ایک ایک عمل اس کی عدالت میں محفوظ ہے۔ تمہیں کچھ اندازہ بھی ہے کہ جس دن جوابدہی کا وہ دن آئے گا تو اللہ تعالیٰ کی عدالت میں جو گزرے گی وہ تو بعد کی بات ہے لیکن اس سے پہلے اس دن کا اعلان تین مرحلوں میں ہوگا۔ حضرت ابوہریرہ ( رض) کی طویل حدیث میں ان مراحل کو تین نفخوں کی صورت میں بیان کیا گیا ہے۔ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ حضرت اسرافیل تین مرتبہ صور پھونکیں گے۔ پہلی دفعہ صور پھونکنے کو نفخۃ الفزع سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ قیامت کی ہمہ گیر تباہی سے پہلے اس طرح کی صورتحال پیدا کردی جائے گی جس سے ہر شخص اور ہر مخلوق پر گھبراہٹ طاری ہوگی اور اسے یہاں زلزلہ عظیم سے تعبیر کیا گیا ہے۔ زلزلہ کی تعبیر بھی اس دن کی ہولناکی کو پوری طرح واضح نہیں کرسکتی۔ البتہ ! ہمارے فہم کے قریب کرنے کے لیے یہ تعبیر اختیار کی گئی ہے کیونکہ ہر ملک کے رہنے والے اور ہر نسل سے تعلق رکھنے والے زلزلے کی تباہیوں سے واقف ہیں۔ زلزلہ کیا ہے، ہر پستی کا بلندی میں بدل جانا اور ہر بلندی کا پستی میں ڈوب جانا۔ پہاڑوں کا اپنی جگہ چھوڑ دینا، سمندروں میں نئے جزیروں کا نکل آنا، پرانے جزیروں کا غائب ہوجانا اور بعض دفعہ مکمل شہروں کا چشم زدن میں نابود ہوجانا۔ غالباً 1935 ء کے زلزلہ کوئٹہ میں 51 ہزار انسان لقمہ اجل بنے۔ جاپان میں 1924 ء میں 16 لاکھ انسان اچانک موت کا شکار ہوگئے۔ 2004 ء میں پاکستان میں آنے والا زلزلہ تقریباً ڈیڑھ لاکھ انسانی جانوں کی ہلاکت کا باعث بنا۔ کئی شہر زمین بوس ہوگئے۔ بعض جگہ جھیلیں نکل آئیں اور پہاڑوں نے اپنی جگہ بدل لی۔ بعض زلزلوں سے پہاڑ پھٹ جاتے ہیں اور ان سے ابلتے ہوئے لاوے کا ایک دریا بہہ نکلتا ہے اور انسان ان حادثات کے مقابلے میں اس قدر بےبس ہے کہ وہ آج تک انھیں روکنے کی کوئی سبیل نہیں سوچ سکا۔ علمائے زمین شناس کا نظریہ یہ ہے کہ آج سے لاکھوں سال پہلے جب زمین سورج سے الگ ہوئی تھی تو اس کا درجہ حرارت سورج کے برابر تھا۔ یہ حرارت آج بھی بطن زمین میں موجود ہے اور لاوے کا درجہ حرارت وہی ہے جو آغاز میں زمین کا تھا یعنی 12 ہزار فارن ہائٹ۔ اب اگر کسی زلزلے سے سارا لاوا باہر آجائے تو سطح زمین ایک کھولتے ہوئے جہنم میں بدل جائے۔ اس سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ زمین کی تباہی کے لیے اس کو پیدا کرنے والے نے کس قدر امکانات پیدا کر رکھے ہیں اور جہاں تک فضاء، خلاء اور آسمانوں کا تعلق ہے اس کی تباہی کوئی ایسی بات نہیں جو سمجھ میں آنے والی نہ ہو۔ خلاء میں کروڑوں بلین ستارے حیرت انگیز رفتار سے محو پرواز ہیں۔ ان میں سے بعض زمین سے دس گنا اور اور بعض ایک کروڑ گنا بڑے ہیں۔ ان کا نظام پرواز اتنا مکمل ہے کہ آج تک کوئی ستارہ دوسرے سے متصادم نہیں ہوا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہ طاقت جس نے ان ستاروں کو بنایا اور پھر ان کی راہیں متعین کیں اس بات پر قادر نہیں کہ انھیں باہم ٹکرا دے اور سب کچھ تباہ کردے۔ سائنسدان کہتے ہیں کہ نظام عالم کی پوری گاڑی جس انجن سے چل رہی ہے وہ گرم آفتاب ہے جس کی گرمی روز بروز کم ہوتی جارہی ہے۔ اب سائنسدانوں نے اندازہ لگانا شروع کردیا ہے کہ اس بات کا امکان ہے کہ ایک دن ایسا آئے گا جب یہ انجن بالکل ٹھنڈا ہوجائے گا اور ساری گاڑی ٹوٹ پھوٹ جائے گی اور یہ بات بھی سائنسدان کہتے ہیں کہ یہ پورا نظام کائنات کشش ثقل کے ستون پر قائم ہے اور یہ کشش ثقل بھی روز بروز مدھم پڑتی جارہی ہے۔ چناچہ ایک دن آئے گا کہ تمام کُرّے ایک دوسرے کے قریب ہو کر ٹکرا جائیں گے اور یہ تصادم ان کو چور چور کردے گا۔ اور ممکن ہے کہ یہی وہ زلزلہ ہو جس سے قیامت کا آغاز ہو۔ حدیث میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ پہلی مرتبہ جب صور پھونکا جائے گا تو زمین جھٹکے کھانے لگے گی اور جس طرح کشتی سمندر میں ہچکولے کھاتی ہے اور چاروں طرف سے موجیں اسے تھپیڑے مارتی ہیں اور یا جس طرح کوئی لٹکی ہوئی قندیل آندھی میں حرکت کرتی ہے، یہی حال اس وقت زمین کا ہوگا، اغلب یہ ہے کہ زمین کا یہ حال اس وقت ہوگا جبکہ زمین یکایک الٹی پھر نی شروع ہوجائے گی اور سورج مشرق کی بجائے مغرب سے طلوع ہوگا۔ یہی بات قدیم مفسرین میں سے علقمہ اور شعبی نے بیان کی ہے کہ یَکُوْنُ ذٰلِکَ عِنْدَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ مِنْ مَّغْرِبِھَا اور زمین کی آبادی پر کیا گزرے گی قرآن کریم میں مختلف مقامات پر اس کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ سورة الزلزال میں ارشاد فرمایا گیا ہے اِذَازُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَھَا۔ وَاَخْرَجَتِ الْاَرْضُ اَثْقَالَھَا۔ وَقَالَ الْاِنْسَانُ مَالَھَا۔ (جبکہ زمین پوری کی پوری ہلا دی جائے گی اور وہ اپنے پیٹ کے بوجھ نکال پھینکے گی اور انسان کہے گا کہ یہ اس کو کیا ہورہا ہے۔ ) سورة الحاقۃ میں فرمایا گیا : فَاَذَا نُفِخَ فِی الصُّوْرِنَفْخَۃٌ وَّاحِدَۃٌ وَحُمِلَتِ الْاَرْضُ وَالْجِبَالُ فَدُکَّتَا دَکَّۃٌ وَّاحِدَۃً فَیُوْمَئِذٍوَّقَعَتِ الْوَاقِعَۃْ ۔ (اور جب صور میں ایک پھونک ماردی جائے گی اور زمین اور پہاڑ اٹھا کر ایک ہی چوٹ میں توڑ دیئے جائیں گے تو وہ واقعہ عظیم پیش آجائے گا۔ ) یَوْمَ تَرَوْنَھَا تَذْھَلُ کُلُّ مُرْضِعَۃٍ عَمَّـآ اَرْضَعَتْ وَتَضَعُ کُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَھَا وَتَرَی النَّاسَ سُکٰرٰی وَمَا ھُمْ بِسُکٰرٰی وَلٰـکِنَّ عَذَابَ اللّٰہِ شَدِیْدٌ۔ (الحج : 2) (جس روز تم اسے دیکھو گے ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچے کو بھول جائے گی اور ہر حاملہ اپنا حمل ڈال دے گی اور تم لوگوں کو مدہوش دیکھو گے حالانکہ وہ مدہوش نہیں ہوں گے بلکہ اللہ کا عذاب ہی کچھ ایسا سخت ہوگا۔ ) قیامت کی ہولناکی کی مزید وضاحت سابقہ آیت میں جس دن کو زلزلہ قرار دیا گیا ہے یہ اسی کی ہولناکی کی تصویر ہے اور اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ کیفیت پہلے نفخہ کے وقت ہوگی جبکہ گھبراہٹ کا عالم یہ ہوگا کہ ہر دودھ پلانے والی اپنے بچے کو دودھ پلانا بھول جائے گی۔ ماں کی مامتا سب سے زوردار جذبہ ہے اور یہ جذبہ بچے سے محبت کا دوسرا نام ہے۔ ماں سب کچھ بھول سکتی ہے لیکن اپنے بچے کو نہیں بھول سکتی لیکن اس دن کی ہولناکی کا عالم یہ ہوگا کہ ماں اپنے بچے کو بھی بھول جائے گی۔ بعض اہل علم کا خیال ہے کہ آیت کریمہ میں مرضع کی بجائے مرضعۃ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ دونوں میں فرق یہ ہے کہ مرضع تو دودھ پلانے والی عورت کو کہتے ہیں لیکن مرضعۃ اس وقت بولتے ہیں جبکہ ماں بالفعل اپنے بچے کو دودھ پلانے میں مصروف ہو اور بچہ ماں کا پستان منہ میں لیے ہوئے ہو۔ اس دن کی ہولناکی کا عالم یہ ہوگا کہ ماں دودھ پلانے میں مصروف ہونے کے باوجود اس دن کی ہولناکی کے باعث بچے کو بھی بھول جائے گی اور دودھ پلانے کو بھی بھول جائے گی۔ لوگ دیوانوں کی طرح بھاگے پھریں گے۔ ہر شخص نشے میں مدہوش محسوس ہوگا۔ ایسا لگے گا جیسے اس نے نشہ آور چیز پی لی ہو حالانکہ وہ کسی نشے میں نہیں ہوگا بلکہ اس دن کی ہولناکی نے اسے حواس باختہ کردیا ہوگا۔ ہمارے مفسرین نے اس بات میں اختلاف کیا ہے کہ ان دونوں آیتوں میں جس زلزلہ قیامت کا ذکر ہے اور جس ہولناکی کی تصویر کشی کی گئی ہے کیا اس کا تعلق قیامت کے قائم ہونے اور لوگوں کے دوبارہ زندہ ہونے کے بعد سے ہے یا اس سے پہلے۔ قرآن کریم کے سیاق وسباق اور بعض دوسری آیات سے جن کا ہم نے اوپر حوالہ دیا ہے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا تعلق نفخہ فزع سے ہے جو قیامت قائم ہونے سے پہلے ہوگا اور جسے قیامت کی آخری علامت سمجھا جاتا ہے لیکن بعض حضرات نے بعض دوسری احادیث سے استدلال کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ یہ زلزلہ حشرونشر اور دوبارہ زندہ ہونے کے بعد ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ دونوں میں کوئی منافات نہیں۔ قیامت سے پہلے زلزلہ آنا آیت قرآن اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔ اور حشرونشر کے بعد ہونا اس حدیث سے ثابت ہے جو حدیث آدم (علیہ السلام) کے نام سے معروف ہے۔ البتہ ! اس پر اشکال یہ ہے کہ حشرونشر اور قیامت قائم ہونے کے بعد یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ کوئی عورت اپنے بچے کو دودھ پلا رہی ہو یا کوئی حاملہ حمل ڈال دے تو اس اشکال کی توجیہ کرتے ہوئے یہ کہا گیا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو عورت اس دنیا میں حالت حمل میں مری، قیامت کے روز اسی حالت میں اس کا حشر ہوگا اور جو دودھ پلانے کے زمانے میں مرگئی، وہ اسی طرح بچے کے ساتھ اٹھائی جائے گی۔ (کماذکرہ القرطبی)
Top