Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-Hajj : 11
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّعْبُدُ اللّٰهَ عَلٰى حَرْفٍ١ۚ فَاِنْ اَصَابَهٗ خَیْرُ اِ۟طْمَاَنَّ بِهٖ١ۚ وَ اِنْ اَصَابَتْهُ فِتْنَةُ اِ۟نْقَلَبَ عَلٰى وَجْهِهٖ١ۚ۫ خَسِرَ الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةَ١ؕ ذٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُ
وَ
: اور
مِنَ
: سے
النَّاسِ
: لوگ
مَنْ
: جو
يَّعْبُدُ
: بندگی کرتا ہے
اللّٰهَ
: اللہ
عَلٰي
: پر
حَرْفٍ
: ایک کنارہ
فَاِنْ
: پھر اگر
اَصَابَهٗ
: اسے پہنچ گئی
خَيْرُ
: بھلائی
ۨ اطْمَاَنَّ
: تو اطمینان پالیا
بِهٖ
: اس سے
وَاِنْ
: اور اگر
اَصَابَتْهُ
: اسے پہنچی
فِتْنَةُ
: کوئی آزمائش
ۨ انْقَلَبَ
: تو پلٹ گیا
عَلٰي
: پر۔ بل
وَجْهِهٖ
: اپنا منہ
ڗ خَسِرَ الدُّنْيَا
: دنا کا فساد
وَالْاٰخِرَةَ
: اور آخرت
ذٰلِكَ
: یہ ہے
هُوَ الْخُسْرَانُ
: وہ گھاٹا
الْمُبِيْنُ
: کھلا
(اور لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو اللہ کی بندگی ایک کنارے پر کھڑے ہوئے کرتے ہیں، پس اگر کوئی انھیں کوئی فائدہ پہنچے تب تو وہ اس سے مطمئن ہوجاتے ہیں اور اگر کوئی آزمائش پیش آگئی تو فوراً ( دین سے) منہ موڑ لیتے ہیں، انھوں نے دنیا بھی کھوئی اور آخرت بھی، یہی تو کھلا ہوا خسارہ ہے۔
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّعْبُدُاللّٰہَ عَلٰی حَرْفٍ ج فَاِنْ اَصَابَـہٗ خَیْرُ نِ اطْمَاَنَّ بِہٖ ج وَاِنْ اَصَابَتْـہُ فِتْنَۃُ نِ انْقَلَبَ عَلٰی وَجْھِہٖ قف ج خَسِرَالدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃَ ط ذٰلِکَ ھُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُ ۔ (الحج : 11) (اور لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو اللہ کی بندگی ایک کنارے پر کھڑے ہوئے کرتے ہیں، پس اگر کوئی انھیں کوئی فائدہ پہنچے تب تو وہ اس سے مطمئن ہوجاتے ہیں اور اگر کوئی آزمائش پیش آگئی تو فوراً ( دین سے) منہ موڑ لیتے ہیں، انھوں نے دنیا بھی کھوئی اور آخرت بھی، یہی تو کھلا ہوا خسارہ ہے۔ ) ہر چیز کے کنارے اور دہانے کو حرف کہتے ہیں۔ حَرْفُ کُلِّ شَیْ ئٍ طَرْفُـہٗ وَشَفِیْرُہٗ وَحَدُّہٗ (قرطبی) دشمنانِ دین کی دشمنی کا ایک رنگ اور ایمانی زندگی کا ایک پہلو اس سے پہلے اسلام کے معاندین کا مشرکین کے نام سے ذکر کیا گیا ہے جس سے ہمارے سامنے ایک تصویر ابھرتی ہے کہ ایک دور کے لوگ ہیں جو اپنی زندگی کی باگ ڈور، خواہشاتِ نفس اور شیطان کے ہاتھ میں دے چکے ہیں۔ ان کی زندگی کا مقصد دنیوی عیش و عشرت اور مال و متاع سے فائدہ اٹھانا ہے۔ ان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی پر کوئی قانون حاکم نہیں۔ فطری سادگی اور چند وضعی مراسم اور قبائلی مفادات سے جنم لینے والی ایک تہذیب ان کے معاشرے کی صورت گری کرتی ہے۔ خواہشاتِ نفس بےروک ہونے کی وجہ سے اخلاقیات کا وجود بہت حد تک ناپید ہوچکا ہے۔ دنیا کے قیام کو حاصل زندگی سمجھنے کی وجہ سے اسی دنیا کی خوشیوں اور غموں کے حصول کو صلاحیتوں اور توانائیوں کے لیے چیلنج بنادیا گیا ہے جس سے ایک نہ ختم ہونے والا تصادم مختلف قبائل میں پیدا ہوچکا ہے۔ نتیجتاً زندگی غیرمحفوظ ہو کر رہ گئی ہے۔ اس تباہ کن صورتحال کو بدلنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی رحمت جوش میں آتی ہے اور وہ اپنے آخری رسول کو مبعوث کرتا ہے۔ اس پر اپنی آخری کتاب اتارتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا آخری رسول ان لوگوں کی ناگفتہ بہ حالت کو بدلنے کے لیے ان کے سامنے وہ نسخہ شفا پیش کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس پر نازل کیا ہے۔ ان کی ایک ایک کمزوری اور ایک ایک گمراہی کو کھول کھول کر ان کے سامنے پیش کرتا ہے اور انھیں بتلاتا ہے کہ تم نے زندگی گزارنے کا جو طریقہ اپنا رکھا ہے وہ سراسر تباہی اور ہلاکت ہے۔ پورا جزیرہ عرب تمہارے اس رویئے کے باعث جہنم بن چکا ہے۔ تمہارے باہمی رشتے ٹوٹ چکے ہیں۔ زندگی کے حقیقی مقاصد سے بےبہرہ ہو کر تم نے اپنے لیے وہ مقاصد متعین کرلیے ہیں جن سے حیوانیت پیدا ہوتی ہے اور انسانیت دم توڑ جاتی ہے اور اخلاق تباہ ہوجاتے ہیں۔ تم آہستہ آہستہ اس صورتحال کی طرف بڑھ رہے ہو جو تباہ ہونے والی قوموں کی ہوتی ہے لیکن اس بگڑی ہوئی قوم نے ہمدردی اور خیرخواہی کی اس آواز کو قبول کرنے کی بجائے پہلے اس کی مخالفت کی اور جب دیکھا کہ تبلیغ و دعوت کا سلسلہ مخالفت سے رکنے کی بجائے اور تیز ہوگیا ہے تو پھر وہ معاندت پر اتر آئے اور اس کے لیے انھوں نے ہر رشتہ توڑ ڈالا، شرافت کی ہر قدر پامال کردی۔ چشمِ تصور سے دیکھیں تو صاف نظر آتا ہے کہ ایک طرف ہمدردی اور خیرخواہی اور نہایت فکرمندی کے ساتھ ان ڈوبنے والوں اور تباہ ہونے والوں کو بچانے کی ہر ممکن تدابیر ہورہی ہیں اور دوسری طرف ہمدردی اور خیرخواہی کی اس آواز کو ہر طریقے سے خاموش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ چناچہ دو گروہوں کی الگ الگ شناخت، الگ الگ چلن، الگ الگ طوراطوار اور الگ الگ سیرت و کردار نمایاں طور پر نظر آرہے ہیں کہ اچانک ان ہی میں سے ایک تیسرا گروہ بھی کہیں کہیں دکھائی دینے لگا ہے۔ وہ جب دیکھتے ہیں کہ مکہ میں رہنے والے بالخصوص اور باقی جزیرہ عرب کے رہنے والے بالعموم زندگی گزارنے کا جو طریقہ اختیار کرچکے ہیں وہ یقینا تباہی کی طرف لے جارہا ہے اور جو لوگ انھیں سمجھانے بجھانے اور اس طریقے کو چھوڑ کر ایک اور طریقہ اپنانے کی دعوت دے رہے ہیں وہ یقینا حُسنِ کردار کے مالک، گہری ہمدردی رکھنے والے، مقاصدِ زندگی کا واضح تصور دینے والے اور ایک ایسی پاکیزہ دعوت کو پیش کرنے والے ہیں جس کے نتیجے میں ہر چیز کے تبدیل ہوجانے کا امکان ہے۔ یہ جزیرہ عرب جو نفرت و وحشت کا جہنم بن چکا ہے اور جہاں دشمنی اور عداوت کے بگولے اٹھتے دکھائی دے رہے ہیں اور ہر طرف بداخلاقی اور گمراہی کی ایک باد سموم چل رہی ہے اگر اس صورتحال کو بدلا نہ گیا تو یقینا وہ ہلاکت اور بربادی دور نہیں جس سے اصلاح و دعوت کا کام کرنے والے برابر ہمیں آگاہ کررہے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ یہ دعوت و اصلاح کے داعی جو دعوت لے کے اٹھے ہیں ان میں خواہشاتِ نفس کی پیروی کا کوئی امکان نہیں۔ وہ ایک روکھی پھیکی زندگی ہے جو ایک بڑے مقصد کے حصول کے لیے گزاری جاتی ہے اور جس کے لیے قدم قدم پر قربانی و ایثار کے تقاضے ہیں۔ اب اگر ہم ان کی دعوت قبول کرکے ان کے ساتھ شامل ہوجاتے ہیں تو ہمارے ساتھ بھی وہی قیامت گزرے گی جس کا سامنا یہ لوگ کررہے ہیں اور اگر ہم دعوت کو قبول کرنے سے بالکل انکار کردیتے ہیں تو پھر اسی جہنم میں رہنے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ہے۔ وہ ایک دورا ہے پر کھڑے ہیں، دعوت کو قبول کرتے ہیں تو حقائق کی تلخیاں اور مخالفین کی اذیتیں اپنی طرف بڑھتی ہوئی محسوس کرتے ہیں، اور اگر قبول نہیں کرتے ہیں تو جو ضمیر میں تھوڑی سی روشنی پیدا ہوئی ہے وہ ملامت کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ چناچہ وہ اسی میں عافیت محسوس کرتے ہیں کہ اس نئی اٹھتی ہوئی اسلامی دعوت کو قبول تو کریں لیکن اس تصادم کے دریا میں اترنے سے اجتناب کریں۔ کنارے پر کھڑے ہو کر دیکھیں کہ اس تصادم کا نتیجہ کیا نکلتا ہے۔ چناچہ وہ مسلمانوں کے ساتھ اس تصور کے سائے میں آگے بڑھتے ہیں کہ اگر ان کے اپنے مفادات کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا اور کسی بڑی قربانی کا تقاضا پیدا نہیں ہوتا تو انھیں اسلام اور اس کی تمام خوبیوں کا اقرار ہے اور اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں اس شمع کو اٹھانے میں انھیں کوئی پش و پیش نہیں۔ لیکن اگر انھیں اپنے مفادات کی قربانی دینا پڑتی ہے اور زندگی میں کوئی بڑی تبدیلی رونما کرنا ضروری ہوجاتا ہے تو وہ واپس وہیں پلٹ جاتے ہیں جہاں سے وہ چلے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے سامنے زندگی کا کوئی حقیقی مقصد نہیں بلکہ وہ بندہ درہم و دینار ہیں۔ ان کی زندگی کا اصل ہدف آرام و راحت کا حصول، جلبِ منفعت اور بیش از بیش مفادات کا حاصل کرنا ہے۔ انھیں آنحضرت ﷺ کے دیئے ہوئے شعور اور پاکیزہ سیرت و کردار سے انکار نہیں لیکن اس کے لیے اپنے آرام و راحت کو تج دینا اور سب کچھ اس کے راستے میں قربان کردینا انتہائی تکلیف دہ فیصلہ ہے جو ان کے لیے قابل قبول نہیں۔ انھیں پھولوں سے محبت ہے لیکن پھول تک پہنچنے کے لیے کانٹوں کا تصور بھی ان کے لیے تکلیف دہ ہے۔ وہ سچ کو عزیز رکھتے ہیں لیکن اگر اس کی قیمت ادا کرنی پڑے تو پھر جھوٹ کے ساتھ گزارہ کرنے سے انھیں کوئی عار نہیں۔ اسلام اگر انھیں اس بات کی ضمانت دے سکے کہ ان کے مفادات پر کوئی ضرب نہیں پڑے گی تو وہ اسلام کو قبول کرنے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن اگر اسلام اس کی ضمانت نہیں دیتا بلکہ وہ صاف صاف کہتا ہے کہ زندگی کا ہر تعلق اور ہر وابستگی آزمائش کے مراحل سے گزرتی ہے، کوئی محبت اس وقت تک قابل اعتماد نہیں ہوتی جب تک وہ آزمائش میں اتر کر اپنا سچا ہونا ثابت نہیں کرتی۔ ؎ محبت کے مقدر میں کہاں آرام ہے اے ہمدم کہیں شعلہ، کہیں بجلی، کہیں سیماب ہوتی ہے جبکہ محبت محض ایک فرد کا دوسرے فرد سے تعلق کا نام ہے، تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اسلام جو زندگی کی ہمہ جہت اور ہمہ گیر تبدیلی کا داعی ہے کسی آزمائش میں ڈالے بغیر اسلامی وابستگی کا اعتبار کرلے جبکہ اسلام ہر طرح کے تعلق کو توڑ کر اللہ تعالیٰ سے وابستگی کی دعوت ہے جس میں دل و دماغ سے غیر اللہ سے تمام رشتے کاٹنے پڑتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے وفاداری کے مقابلے میں تمام وفاداریوں سے انکار کرنا پڑتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے قانون کی بالادستی کے مقابلے میں تمام قوانین کو جھٹکنا پڑتا ہے، اللہ تعالیٰ کی غیرمشروط اطاعت کے سامنے ہر طرح کی اطاعت سے انکار کرنا پڑتا ہے، اللہ تعالیٰ کے رسول سے محبت و اطاعت کا رشتہ جوڑ کر ان کی ذات کو نمونے کے طور پر اس طرح دل و دماغ میں بسانا اور زندگی کے طوراطوار میں رہنما بنانا پڑتا ہے کہ اس کے سامنے تمام حوالوں سے تسلیم کردہ ہیروز کی محبت کو دل سے نکالنا اور ان کی زندگی کے نمونوں کو زندگی کے تمام شعبوں سے بےدخل کرنا ناگزیر ہے۔ یہ ایک ایسی ہمہ گیر تبدیلی ہے جو عقیدے سے لے کر معاشرت، معیشت، سیاست، اصولِ حکمرانی، طریقِ حکومت، تصوراتِ ریاست اور آداب انسانیت غرضیکہ کے تمام انفرادی اور اجتماعی دوائر پر چھائی ہوئی ہے۔ اس میں نہ کسی دوسری وابستگی کا گزر ہوتا ہے، نہ کسی دوسری وفاداری کا تصور پایا جاتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی سروری کے سوا ہر سروری اور سرداری شرک ہے۔ بقول اقبال : سروری زیبا فقط اس ذات بےہمتا کو ہے حکمراں ہے اک وہی باقی بتان آذری اور زندگی کی رہنمائی اور نمونے کے لیے صرف ایک ذات عزیز ہے جس کی ہمہ گیری اور گہرائی کا عالم یہ ہے کہ : وہ دانائے سُبُل ختم الرُسُل مولائے کل جس نے غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادیِ سینا نگاہِ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر وہی قرآں وہی فرقاں وہی یٰسیں وہی طٰہٰ یہ کردار آج بھی موجود ہے لیکن اس دور کا منافق جو تحفظات کے ساتھ اسلام کے راستے پر چلنے کے لیے تیار ہے لیکن کسی قسم کے ایثار اور قربانی کے لیے تیار نہیں۔ یہ وہ صورتحال ہے جسے ہم آج بھی اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ آج کے دانشور یا ابنائے زمانہ اسلام کو تسلیم کرنے سے انکار نہیں کرتے، انھیں نبی کریم ﷺ کی ذات سے بھی انکار نہیں۔ وہ قرآن کریم کو اللہ تعالیٰ کی کتاب ماننے سے انکاری نہیں، لیکن یہ بات انھیں کسی طور گوارا نہیں کہ وہ اسلام کو ایک ایسے دین کے طور پر قبول کریں جس میں کسی اور رہنمائی کے لیے کوئی گنجائش نہ ہو۔ وہ قرآن کریم کو ایک ایسے قانون کے طور پر ماننے کے لیے تیار نہیں جو معاشرت، معیشت، سیاست، تہذیب و تمدن، غرضیکہ ہر شعبہ زندگی میں رہنمائی دینے پر مصر ہو۔ وہ نبی کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ کا رسول ماننے سے انکار نہیں کرتے، لیکن انھیں اس بات میں تأمل ہے کہ وہ انھیں دانائے سُبُل سمجھیں اور مولائے کل مانیں جن کی ذات سے ثقافت پھوٹے، جن کی معاشرتی رہنمائی سے تہذیب جنم لے اور جن کی شریعت سے تمدن کو رہنمائی ملے اور جن پر نازل ہونے والی کتاب عدالتوں میں قانون بن کر فیصلے دے۔ ٹھیک کہا کسی شاعر نے : یاراں عجب اندازِ دو رنگی دارند مصحف بہ بغل دین فرنگی دارند اسلام نے دو عملی اور دو رنگی کو نہ عہد نبوت میں قبول کیا تھا اور نہ آج قبول کرنے کو تیار ہے۔ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت جس طرح ہر قسم کے شرکت کو قبول کرنے سے انکار کرتی ہے اسی طرح اس کے مصطفیٰ کی شخصیت ہر دوسری شخصیت کو ماننے سے ابا کرتی ہے اور اس کا دیا ہوا ضابطہ حیات ہر دوسرے ضابطہ حیات کی دریوزہ گری سے انکار کرتا ہے۔ اس کا نازل کردہ آئین اور قانون ایک ہمہ گیر اور ہمہ جہت آخری قانون ہے اور نبی کریم ﷺ کی ذات گرامی آخری اسوہ کاملہ ہے جس میں کسی پیوند کی کوئی گنجائش نہیں۔ جس طرح اس پر نازل ہونے والی کتاب ہر طرح کے شک و شبہ سے ماورا ایک محفوظ کتاب ہے، اسی طرح نبی کریم ﷺ کی زندگی کے حالات قانونی اور اخلاقی رہنمائی کے طور پر بالکل محفوظ حالت میں ہیں اور ان کی زندگی کا روزنامچہ آج بھی اس طرح مسلمانوں کے ہاتھوں میں محفوظ ہے جس سے ہم اپنی شب و روز کی زندگی میں مکمل طور پر رہنمائی لے سکتے ہیں۔ دورِ نبوت میں جن لوگوں نے منافقت کی روش اختیار کی اور اسلام کو جلبِ منفعت کا ذریعہ بنانے کی کوشش کی ان کی دنیا بھی تباہ ہوئی اور آخرت بھی تباہ ہوگئی۔ کتبِ تفسیر میں اس آیت کا شان نزول بیان کرتے ہوئے یہ واقعہ لکھا گیا ہے کہ ایک یہودی مسلمان ہوا۔ اتفاق سے کچھ عرصہ بعد اس کی بینائی جاتی رہی، پھر اس کا زبردست مالی نقصان ہوگیا، اس کا ایک لڑکا تھا وہ بھی مرگیا۔ اس نے ان مصائب کو اسلام کی نحوست جانا۔ چناچہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا اقلنی ’ ’ کہ میں نے جو آپ ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی مجھے اس سے آزاد کردیجیے۔ “ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ان الاسلام لایقال ” یعنی اسلام کی بیعت واپس نہیں لی جاسکتی۔ “ کہنے لگا کہ مجھے اس دین سے کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔ میں اندھا ہوگیا، مال برباد ہوا، بیٹا مرگیا۔ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا یا یہودی ان الاسلام یسبک الرجال کما یسبک النارخبث الحدید والذھب والفضۃ ” اے یہودی ! اسلام اس طرح مردوں کو گلاتا ہے جس طرح آگ لوہے اور سونے اور چاندی کے میل کچیل کو صاف کرتی ہے۔ “ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ جو آدمی منفعت کے کاروبار اور مال و دولت کی محبت اور مفادات کی ہوس سے آزاد نہیں ہوتا، اسلام اس کے دل میں نہیں اترتا۔ وہ اسلام کو ایک کاروبار سمجھتا ہے جبکہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اور اس کے دین کی خاطر سب کچھ چھوڑ دینے کا نام ہے۔ اقبال نے ٹھیک کہا : یہ شہادت گہِ الفت میں قدم رکھنا ہے لوگ آساں سمجھتے ہیں مسلماں ہونا لیکن جو شخص اس تصور کو قبول کیے بغیر اسلام کے دائرے میں آتا ہے اسے جب آزمائش کی بھٹی میں ڈالا جاتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ اور اسلام سے بدگمان ہو کر آخرت تو تباہ کرتا ہے، دنیا بھی تباہ کرلیتا ہے، اسی کو آیت کے آخر میں فرمایا گیا کہ اس کی دنیا بھی گئی اور آخرت بھی گئی۔ اور یہی وہ سب سے بڑی ناکامی ہے جسے خسرانِ مبین قرار دیا گیا ہے۔ یَدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَالاَ یَضُرُّہٗ وَمَا لاَ یَنْفَعُہٗ ط ذٰلِکَ ھُوَالضَّلٰـلُ الْبَعِیْدُ ۔ (الحج : 12) (یہ اللہ کے سوا ایسی چیزوں کو پکارتے ہیں، جو نہ ضرر پہنچا سکتی ہیں اور نہ کوئی فائدہ پہنچا سکتی ہیں، یہی بڑی دور کی گمراہی ہے۔ ) مشرکین کا رویہ اور دعا کا مفہوم اس آیت کریمہ کا تعلق چونکہ گزشتہ آیت کریمہ سے ہے، اس میں ان لوگوں پر تنقید کی گئی ہے جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں لیکن ایک کنارے پر کھڑے ہوکر، ان کی زندگی کا اصل ہدف مفادات اور منافع کا حصول ہے۔ وہ کسی ایسے مقصد کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں جس کی انھیں قیمت ادا کرنی پڑے۔ جب وہ دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی بندگی اور عبادت میں ان کے مفادات محفوظ ہونے کی بجائے انھیں مصائب کا سامنا کرنے کی دعوت دی جارہی ہے تو وہ ایسے اسلام سے کان پر ہاتھ دھرتے اور دور بھاگ نکلتے ہیں۔ اور وہ یقین کرلیتے ہیں کہ اسلام کے قبول کرنے سے ہماری زندگی کا ہر رنگ پھیکا ہوجائے گا اور ہمیں اللہ تعالیٰ سے جو امیدیں اور آرزوئیں ہیں ان میں سے کسی کے پورا ہونے کا کوئی امکان نہیں تو وہ اللہ تعالیٰ کی بندگی کو چھوڑ کر اور آستانے تلاش کرنے لگتے ہیں۔ چناچہ پیش نظر آیت کریمہ میں ان کے اسی رویئے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ اب وہ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسرے لوگوں کو پکارتے ہیں اور صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ پکار عبادت کے معنی میں ہے کیونکہ یہ آیت گزشتہ آیت کے مضمون کا تسلسل ہے اور عبادت میں جس طرح بندگی اور اطاعت شامل ہے اسی طرح دُعا، استغاثہ، فریاد اور استمداد بھی شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہونے کے بعد حیرانی کی بات ہے کہ یہ ان آستانوں پر سر جھکاتے اور ان قوتوں سے فریاد کرتے ہیں جو نہ نفع پہنچا سکتی ہیں اور نہ نقصان دے سکتی ہیں۔ اگر تو اس سے بت مراد لیے جائیں تو پھر اگرچہ معنی زیادہ واضح ہوجاتا ہے لیکن اس میں بھی ایک بات کا دھیان رکھنا بہت ضروری ہے وہ یہ کہ جن لوگوں نے بت پرستی کا ارتکاب کیا ہے ان کے پیش نظر یہ کبھی نہیں رہا کہ یہ پتھر کے اپنے ہاتھوں سے تراشے ہوئے بت غیرمعمولی قدرتوں کے مالک ہیں یہ ہماری ہر بگڑی بنا سکتے اور ہماری زندگیاں سنوار سکتے ہیں بلکہ ان کے ذہن میں ان زندہ شخصیتوں کا تصور ہوتا ہے جن کے دنیا سے چلے جانے کے بعد ان کی یاد میں یہ مجسمے اور یہ بت تراشے گئے ہیں۔ وہ طاقت اور قدرت کا مالک ان شخصیتوں کو سمجھتے ہیں اور جن کے بارے میں ان کا گمان یہ ہے کہ مرنے کے بعد اللہ والوں میں زیادہ قوتیں آجاتی ہیں۔ جو کام وہ اپنی زندگی میں نہیں کرسکتے وہ موت کے بعد کرسکتے ہیں۔ وہ لوگوں کی دُعائیں سنتے اور ان کی فریادوں کو پورا کرتے ہیں جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ مرنے والے دنیا سے چلے گئے اور ان کے نام پر یہ گھڑے ہوئے بت اپنے اندر کوئی قدرت نہیں رکھتے۔ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مشرکین نے جس طرح بتوں کو خدا کا شریک بنایا ہے اسی طرح فرشتوں کو، دیوتائوں کو اور بعض قوتوں کے اوتاروں کو بھی اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرایا ہے۔ اور کتنی ایسی طاغوتی قوتیں ہیں جن کے اقتدار اور اختیار کے سامنے مشرکین نے نہ صرف سر جھکائے ہیں بلکہ اپنا مال و دولت اور اپنی صلاحیتوں کا سرمایہ ان کے اقتدار کو مضبوط کرنے کے لیے صرف کیا ہے۔ وہ اپنی خدائی کا صور پھونکتے ہیں تو یہ ان کی خدائی کو غذا فراہم کرتے ہیں جبکہ وہ جانتے ہیں کہ حقیقت میں وہ نہ نافع ہیں اور نہ ضار ہیں۔ نفع و ضرر کی حقیقی قوت صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے لیکن اس کے باوجود وہ ان کو نافع اور ضار سمجھ کر ان کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہیں۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ یہ کس قدر دور کی گمراہی ہے کیونکہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے سامنے نہیں جھکتا وہ بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت سے انکار نہیں کرسکتا۔ اسے خالق ومالک وہ بھی تسلیم کرتا ہے اور اسے بھی اس کی بےپناہ قوتوں کا اعتراف ہے اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ جن کے سامنے استمداد کے لیے ہاتھ پھیلایا جاتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر کسی کی مدد نہیں کرسکتے۔ اس کے باوجود جب وہ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر جبکہ وہ یقینی سہارا ہے اس کے سامنے سر جھکاتا اور ہاتھ پھیلاتا ہے جو نفع اور نقصان کی صلاحیت نہیں رکھتا تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ کتنی بڑی حماقت اور کتنی دور کی گمراہی ہے۔
Top