Ruh-ul-Quran - Al-Hajj : 11
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّعْبُدُ اللّٰهَ عَلٰى حَرْفٍ١ۚ فَاِنْ اَصَابَهٗ خَیْرُ اِ۟طْمَاَنَّ بِهٖ١ۚ وَ اِنْ اَصَابَتْهُ فِتْنَةُ اِ۟نْقَلَبَ عَلٰى وَجْهِهٖ١ۚ۫ خَسِرَ الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةَ١ؕ ذٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُ
وَ : اور مِنَ : سے النَّاسِ : لوگ مَنْ : جو يَّعْبُدُ : بندگی کرتا ہے اللّٰهَ : اللہ عَلٰي : پر حَرْفٍ : ایک کنارہ فَاِنْ : پھر اگر اَصَابَهٗ : اسے پہنچ گئی خَيْرُ : بھلائی ۨ اطْمَاَنَّ : تو اطمینان پالیا بِهٖ : اس سے وَاِنْ : اور اگر اَصَابَتْهُ : اسے پہنچی فِتْنَةُ : کوئی آزمائش ۨ انْقَلَبَ : تو پلٹ گیا عَلٰي : پر۔ بل وَجْهِهٖ : اپنا منہ ڗ خَسِرَ الدُّنْيَا : دنا کا فساد وَالْاٰخِرَةَ : اور آخرت ذٰلِكَ : یہ ہے هُوَ الْخُسْرَانُ : وہ گھاٹا الْمُبِيْنُ : کھلا
(اور لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو اللہ کی بندگی ایک کنارے پر کھڑے ہوئے کرتے ہیں، پس اگر کوئی انھیں کوئی فائدہ پہنچے تب تو وہ اس سے مطمئن ہوجاتے ہیں اور اگر کوئی آزمائش پیش آگئی تو فوراً ( دین سے) منہ موڑ لیتے ہیں، انھوں نے دنیا بھی کھوئی اور آخرت بھی، یہی تو کھلا ہوا خسارہ ہے۔
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّعْبُدُاللّٰہَ عَلٰی حَرْفٍ ج فَاِنْ اَصَابَـہٗ خَیْرُ نِ اطْمَاَنَّ بِہٖ ج وَاِنْ اَصَابَتْـہُ فِتْنَۃُ نِ انْقَلَبَ عَلٰی وَجْھِہٖ قف ج خَسِرَالدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃَ ط ذٰلِکَ ھُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُ ۔ (الحج : 11) (اور لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو اللہ کی بندگی ایک کنارے پر کھڑے ہوئے کرتے ہیں، پس اگر کوئی انھیں کوئی فائدہ پہنچے تب تو وہ اس سے مطمئن ہوجاتے ہیں اور اگر کوئی آزمائش پیش آگئی تو فوراً ( دین سے) منہ موڑ لیتے ہیں، انھوں نے دنیا بھی کھوئی اور آخرت بھی، یہی تو کھلا ہوا خسارہ ہے۔ ) ہر چیز کے کنارے اور دہانے کو حرف کہتے ہیں۔ حَرْفُ کُلِّ شَیْ ئٍ طَرْفُـہٗ وَشَفِیْرُہٗ وَحَدُّہٗ (قرطبی) دشمنانِ دین کی دشمنی کا ایک رنگ اور ایمانی زندگی کا ایک پہلو اس سے پہلے اسلام کے معاندین کا مشرکین کے نام سے ذکر کیا گیا ہے جس سے ہمارے سامنے ایک تصویر ابھرتی ہے کہ ایک دور کے لوگ ہیں جو اپنی زندگی کی باگ ڈور، خواہشاتِ نفس اور شیطان کے ہاتھ میں دے چکے ہیں۔ ان کی زندگی کا مقصد دنیوی عیش و عشرت اور مال و متاع سے فائدہ اٹھانا ہے۔ ان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی پر کوئی قانون حاکم نہیں۔ فطری سادگی اور چند وضعی مراسم اور قبائلی مفادات سے جنم لینے والی ایک تہذیب ان کے معاشرے کی صورت گری کرتی ہے۔ خواہشاتِ نفس بےروک ہونے کی وجہ سے اخلاقیات کا وجود بہت حد تک ناپید ہوچکا ہے۔ دنیا کے قیام کو حاصل زندگی سمجھنے کی وجہ سے اسی دنیا کی خوشیوں اور غموں کے حصول کو صلاحیتوں اور توانائیوں کے لیے چیلنج بنادیا گیا ہے جس سے ایک نہ ختم ہونے والا تصادم مختلف قبائل میں پیدا ہوچکا ہے۔ نتیجتاً زندگی غیرمحفوظ ہو کر رہ گئی ہے۔ اس تباہ کن صورتحال کو بدلنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی رحمت جوش میں آتی ہے اور وہ اپنے آخری رسول کو مبعوث کرتا ہے۔ اس پر اپنی آخری کتاب اتارتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا آخری رسول ان لوگوں کی ناگفتہ بہ حالت کو بدلنے کے لیے ان کے سامنے وہ نسخہ شفا پیش کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس پر نازل کیا ہے۔ ان کی ایک ایک کمزوری اور ایک ایک گمراہی کو کھول کھول کر ان کے سامنے پیش کرتا ہے اور انھیں بتلاتا ہے کہ تم نے زندگی گزارنے کا جو طریقہ اپنا رکھا ہے وہ سراسر تباہی اور ہلاکت ہے۔ پورا جزیرہ عرب تمہارے اس رویئے کے باعث جہنم بن چکا ہے۔ تمہارے باہمی رشتے ٹوٹ چکے ہیں۔ زندگی کے حقیقی مقاصد سے بےبہرہ ہو کر تم نے اپنے لیے وہ مقاصد متعین کرلیے ہیں جن سے حیوانیت پیدا ہوتی ہے اور انسانیت دم توڑ جاتی ہے اور اخلاق تباہ ہوجاتے ہیں۔ تم آہستہ آہستہ اس صورتحال کی طرف بڑھ رہے ہو جو تباہ ہونے والی قوموں کی ہوتی ہے لیکن اس بگڑی ہوئی قوم نے ہمدردی اور خیرخواہی کی اس آواز کو قبول کرنے کی بجائے پہلے اس کی مخالفت کی اور جب دیکھا کہ تبلیغ و دعوت کا سلسلہ مخالفت سے رکنے کی بجائے اور تیز ہوگیا ہے تو پھر وہ معاندت پر اتر آئے اور اس کے لیے انھوں نے ہر رشتہ توڑ ڈالا، شرافت کی ہر قدر پامال کردی۔ چشمِ تصور سے دیکھیں تو صاف نظر آتا ہے کہ ایک طرف ہمدردی اور خیرخواہی اور نہایت فکرمندی کے ساتھ ان ڈوبنے والوں اور تباہ ہونے والوں کو بچانے کی ہر ممکن تدابیر ہورہی ہیں اور دوسری طرف ہمدردی اور خیرخواہی کی اس آواز کو ہر طریقے سے خاموش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ چناچہ دو گروہوں کی الگ الگ شناخت، الگ الگ چلن، الگ الگ طوراطوار اور الگ الگ سیرت و کردار نمایاں طور پر نظر آرہے ہیں کہ اچانک ان ہی میں سے ایک تیسرا گروہ بھی کہیں کہیں دکھائی دینے لگا ہے۔ وہ جب دیکھتے ہیں کہ مکہ میں رہنے والے بالخصوص اور باقی جزیرہ عرب کے رہنے والے بالعموم زندگی گزارنے کا جو طریقہ اختیار کرچکے ہیں وہ یقینا تباہی کی طرف لے جارہا ہے اور جو لوگ انھیں سمجھانے بجھانے اور اس طریقے کو چھوڑ کر ایک اور طریقہ اپنانے کی دعوت دے رہے ہیں وہ یقینا حُسنِ کردار کے مالک، گہری ہمدردی رکھنے والے، مقاصدِ زندگی کا واضح تصور دینے والے اور ایک ایسی پاکیزہ دعوت کو پیش کرنے والے ہیں جس کے نتیجے میں ہر چیز کے تبدیل ہوجانے کا امکان ہے۔ یہ جزیرہ عرب جو نفرت و وحشت کا جہنم بن چکا ہے اور جہاں دشمنی اور عداوت کے بگولے اٹھتے دکھائی دے رہے ہیں اور ہر طرف بداخلاقی اور گمراہی کی ایک باد سموم چل رہی ہے اگر اس صورتحال کو بدلا نہ گیا تو یقینا وہ ہلاکت اور بربادی دور نہیں جس سے اصلاح و دعوت کا کام کرنے والے برابر ہمیں آگاہ کررہے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ یہ دعوت و اصلاح کے داعی جو دعوت لے کے اٹھے ہیں ان میں خواہشاتِ نفس کی پیروی کا کوئی امکان نہیں۔ وہ ایک روکھی پھیکی زندگی ہے جو ایک بڑے مقصد کے حصول کے لیے گزاری جاتی ہے اور جس کے لیے قدم قدم پر قربانی و ایثار کے تقاضے ہیں۔ اب اگر ہم ان کی دعوت قبول کرکے ان کے ساتھ شامل ہوجاتے ہیں تو ہمارے ساتھ بھی وہی قیامت گزرے گی جس کا سامنا یہ لوگ کررہے ہیں اور اگر ہم دعوت کو قبول کرنے سے بالکل انکار کردیتے ہیں تو پھر اسی جہنم میں رہنے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ہے۔ وہ ایک دورا ہے پر کھڑے ہیں، دعوت کو قبول کرتے ہیں تو حقائق کی تلخیاں اور مخالفین کی اذیتیں اپنی طرف بڑھتی ہوئی محسوس کرتے ہیں، اور اگر قبول نہیں کرتے ہیں تو جو ضمیر میں تھوڑی سی روشنی پیدا ہوئی ہے وہ ملامت کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ چناچہ وہ اسی میں عافیت محسوس کرتے ہیں کہ اس نئی اٹھتی ہوئی اسلامی دعوت کو قبول تو کریں لیکن اس تصادم کے دریا میں اترنے سے اجتناب کریں۔ کنارے پر کھڑے ہو کر دیکھیں کہ اس تصادم کا نتیجہ کیا نکلتا ہے۔ چناچہ وہ مسلمانوں کے ساتھ اس تصور کے سائے میں آگے بڑھتے ہیں کہ اگر ان کے اپنے مفادات کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا اور کسی بڑی قربانی کا تقاضا پیدا نہیں ہوتا تو انھیں اسلام اور اس کی تمام خوبیوں کا اقرار ہے اور اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں اس شمع کو اٹھانے میں انھیں کوئی پش و پیش نہیں۔ لیکن اگر انھیں اپنے مفادات کی قربانی دینا پڑتی ہے اور زندگی میں کوئی بڑی تبدیلی رونما کرنا ضروری ہوجاتا ہے تو وہ واپس وہیں پلٹ جاتے ہیں جہاں سے وہ چلے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے سامنے زندگی کا کوئی حقیقی مقصد نہیں بلکہ وہ بندہ درہم و دینار ہیں۔ ان کی زندگی کا اصل ہدف آرام و راحت کا حصول، جلبِ منفعت اور بیش از بیش مفادات کا حاصل کرنا ہے۔ انھیں آنحضرت ﷺ کے دیئے ہوئے شعور اور پاکیزہ سیرت و کردار سے انکار نہیں لیکن اس کے لیے اپنے آرام و راحت کو تج دینا اور سب کچھ اس کے راستے میں قربان کردینا انتہائی تکلیف دہ فیصلہ ہے جو ان کے لیے قابل قبول نہیں۔ انھیں پھولوں سے محبت ہے لیکن پھول تک پہنچنے کے لیے کانٹوں کا تصور بھی ان کے لیے تکلیف دہ ہے۔ وہ سچ کو عزیز رکھتے ہیں لیکن اگر اس کی قیمت ادا کرنی پڑے تو پھر جھوٹ کے ساتھ گزارہ کرنے سے انھیں کوئی عار نہیں۔ اسلام اگر انھیں اس بات کی ضمانت دے سکے کہ ان کے مفادات پر کوئی ضرب نہیں پڑے گی تو وہ اسلام کو قبول کرنے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن اگر اسلام اس کی ضمانت نہیں دیتا بلکہ وہ صاف صاف کہتا ہے کہ زندگی کا ہر تعلق اور ہر وابستگی آزمائش کے مراحل سے گزرتی ہے، کوئی محبت اس وقت تک قابل اعتماد نہیں ہوتی جب تک وہ آزمائش میں اتر کر اپنا سچا ہونا ثابت نہیں کرتی۔ ؎ محبت کے مقدر میں کہاں آرام ہے اے ہمدم کہیں شعلہ، کہیں بجلی، کہیں سیماب ہوتی ہے جبکہ محبت محض ایک فرد کا دوسرے فرد سے تعلق کا نام ہے، تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اسلام جو زندگی کی ہمہ جہت اور ہمہ گیر تبدیلی کا داعی ہے کسی آزمائش میں ڈالے بغیر اسلامی وابستگی کا اعتبار کرلے جبکہ اسلام ہر طرح کے تعلق کو توڑ کر اللہ تعالیٰ سے وابستگی کی دعوت ہے جس میں دل و دماغ سے غیر اللہ سے تمام رشتے کاٹنے پڑتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے وفاداری کے مقابلے میں تمام وفاداریوں سے انکار کرنا پڑتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے قانون کی بالادستی کے مقابلے میں تمام قوانین کو جھٹکنا پڑتا ہے، اللہ تعالیٰ کی غیرمشروط اطاعت کے سامنے ہر طرح کی اطاعت سے انکار کرنا پڑتا ہے، اللہ تعالیٰ کے رسول سے محبت و اطاعت کا رشتہ جوڑ کر ان کی ذات کو نمونے کے طور پر اس طرح دل و دماغ میں بسانا اور زندگی کے طوراطوار میں رہنما بنانا پڑتا ہے کہ اس کے سامنے تمام حوالوں سے تسلیم کردہ ہیروز کی محبت کو دل سے نکالنا اور ان کی زندگی کے نمونوں کو زندگی کے تمام شعبوں سے بےدخل کرنا ناگزیر ہے۔ یہ ایک ایسی ہمہ گیر تبدیلی ہے جو عقیدے سے لے کر معاشرت، معیشت، سیاست، اصولِ حکمرانی، طریقِ حکومت، تصوراتِ ریاست اور آداب انسانیت غرضیکہ کے تمام انفرادی اور اجتماعی دوائر پر چھائی ہوئی ہے۔ اس میں نہ کسی دوسری وابستگی کا گزر ہوتا ہے، نہ کسی دوسری وفاداری کا تصور پایا جاتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی سروری کے سوا ہر سروری اور سرداری شرک ہے۔ بقول اقبال : سروری زیبا فقط اس ذات بےہمتا کو ہے حکمراں ہے اک وہی باقی بتان آذری اور زندگی کی رہنمائی اور نمونے کے لیے صرف ایک ذات عزیز ہے جس کی ہمہ گیری اور گہرائی کا عالم یہ ہے کہ : وہ دانائے سُبُل ختم الرُسُل مولائے کل جس نے غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادیِ سینا نگاہِ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر وہی قرآں وہی فرقاں وہی یٰسیں وہی طٰہٰ یہ کردار آج بھی موجود ہے لیکن اس دور کا منافق جو تحفظات کے ساتھ اسلام کے راستے پر چلنے کے لیے تیار ہے لیکن کسی قسم کے ایثار اور قربانی کے لیے تیار نہیں۔ یہ وہ صورتحال ہے جسے ہم آج بھی اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ آج کے دانشور یا ابنائے زمانہ اسلام کو تسلیم کرنے سے انکار نہیں کرتے، انھیں نبی کریم ﷺ کی ذات سے بھی انکار نہیں۔ وہ قرآن کریم کو اللہ تعالیٰ کی کتاب ماننے سے انکاری نہیں، لیکن یہ بات انھیں کسی طور گوارا نہیں کہ وہ اسلام کو ایک ایسے دین کے طور پر قبول کریں جس میں کسی اور رہنمائی کے لیے کوئی گنجائش نہ ہو۔ وہ قرآن کریم کو ایک ایسے قانون کے طور پر ماننے کے لیے تیار نہیں جو معاشرت، معیشت، سیاست، تہذیب و تمدن، غرضیکہ ہر شعبہ زندگی میں رہنمائی دینے پر مصر ہو۔ وہ نبی کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ کا رسول ماننے سے انکار نہیں کرتے، لیکن انھیں اس بات میں تأمل ہے کہ وہ انھیں دانائے سُبُل سمجھیں اور مولائے کل مانیں جن کی ذات سے ثقافت پھوٹے، جن کی معاشرتی رہنمائی سے تہذیب جنم لے اور جن کی شریعت سے تمدن کو رہنمائی ملے اور جن پر نازل ہونے والی کتاب عدالتوں میں قانون بن کر فیصلے دے۔ ٹھیک کہا کسی شاعر نے : یاراں عجب اندازِ دو رنگی دارند مصحف بہ بغل دین فرنگی دارند اسلام نے دو عملی اور دو رنگی کو نہ عہد نبوت میں قبول کیا تھا اور نہ آج قبول کرنے کو تیار ہے۔ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت جس طرح ہر قسم کے شرکت کو قبول کرنے سے انکار کرتی ہے اسی طرح اس کے مصطفیٰ کی شخصیت ہر دوسری شخصیت کو ماننے سے ابا کرتی ہے اور اس کا دیا ہوا ضابطہ حیات ہر دوسرے ضابطہ حیات کی دریوزہ گری سے انکار کرتا ہے۔ اس کا نازل کردہ آئین اور قانون ایک ہمہ گیر اور ہمہ جہت آخری قانون ہے اور نبی کریم ﷺ کی ذات گرامی آخری اسوہ کاملہ ہے جس میں کسی پیوند کی کوئی گنجائش نہیں۔ جس طرح اس پر نازل ہونے والی کتاب ہر طرح کے شک و شبہ سے ماورا ایک محفوظ کتاب ہے، اسی طرح نبی کریم ﷺ کی زندگی کے حالات قانونی اور اخلاقی رہنمائی کے طور پر بالکل محفوظ حالت میں ہیں اور ان کی زندگی کا روزنامچہ آج بھی اس طرح مسلمانوں کے ہاتھوں میں محفوظ ہے جس سے ہم اپنی شب و روز کی زندگی میں مکمل طور پر رہنمائی لے سکتے ہیں۔ دورِ نبوت میں جن لوگوں نے منافقت کی روش اختیار کی اور اسلام کو جلبِ منفعت کا ذریعہ بنانے کی کوشش کی ان کی دنیا بھی تباہ ہوئی اور آخرت بھی تباہ ہوگئی۔ کتبِ تفسیر میں اس آیت کا شان نزول بیان کرتے ہوئے یہ واقعہ لکھا گیا ہے کہ ایک یہودی مسلمان ہوا۔ اتفاق سے کچھ عرصہ بعد اس کی بینائی جاتی رہی، پھر اس کا زبردست مالی نقصان ہوگیا، اس کا ایک لڑکا تھا وہ بھی مرگیا۔ اس نے ان مصائب کو اسلام کی نحوست جانا۔ چناچہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا اقلنی ’ ’ کہ میں نے جو آپ ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی مجھے اس سے آزاد کردیجیے۔ “ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ان الاسلام لایقال ” یعنی اسلام کی بیعت واپس نہیں لی جاسکتی۔ “ کہنے لگا کہ مجھے اس دین سے کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔ میں اندھا ہوگیا، مال برباد ہوا، بیٹا مرگیا۔ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا یا یہودی ان الاسلام یسبک الرجال کما یسبک النارخبث الحدید والذھب والفضۃ ” اے یہودی ! اسلام اس طرح مردوں کو گلاتا ہے جس طرح آگ لوہے اور سونے اور چاندی کے میل کچیل کو صاف کرتی ہے۔ “ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ جو آدمی منفعت کے کاروبار اور مال و دولت کی محبت اور مفادات کی ہوس سے آزاد نہیں ہوتا، اسلام اس کے دل میں نہیں اترتا۔ وہ اسلام کو ایک کاروبار سمجھتا ہے جبکہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اور اس کے دین کی خاطر سب کچھ چھوڑ دینے کا نام ہے۔ اقبال نے ٹھیک کہا : یہ شہادت گہِ الفت میں قدم رکھنا ہے لوگ آساں سمجھتے ہیں مسلماں ہونا لیکن جو شخص اس تصور کو قبول کیے بغیر اسلام کے دائرے میں آتا ہے اسے جب آزمائش کی بھٹی میں ڈالا جاتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ اور اسلام سے بدگمان ہو کر آخرت تو تباہ کرتا ہے، دنیا بھی تباہ کرلیتا ہے، اسی کو آیت کے آخر میں فرمایا گیا کہ اس کی دنیا بھی گئی اور آخرت بھی گئی۔ اور یہی وہ سب سے بڑی ناکامی ہے جسے خسرانِ مبین قرار دیا گیا ہے۔ یَدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَالاَ یَضُرُّہٗ وَمَا لاَ یَنْفَعُہٗ ط ذٰلِکَ ھُوَالضَّلٰـلُ الْبَعِیْدُ ۔ (الحج : 12) (یہ اللہ کے سوا ایسی چیزوں کو پکارتے ہیں، جو نہ ضرر پہنچا سکتی ہیں اور نہ کوئی فائدہ پہنچا سکتی ہیں، یہی بڑی دور کی گمراہی ہے۔ ) مشرکین کا رویہ اور دعا کا مفہوم اس آیت کریمہ کا تعلق چونکہ گزشتہ آیت کریمہ سے ہے، اس میں ان لوگوں پر تنقید کی گئی ہے جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں لیکن ایک کنارے پر کھڑے ہوکر، ان کی زندگی کا اصل ہدف مفادات اور منافع کا حصول ہے۔ وہ کسی ایسے مقصد کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں جس کی انھیں قیمت ادا کرنی پڑے۔ جب وہ دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی بندگی اور عبادت میں ان کے مفادات محفوظ ہونے کی بجائے انھیں مصائب کا سامنا کرنے کی دعوت دی جارہی ہے تو وہ ایسے اسلام سے کان پر ہاتھ دھرتے اور دور بھاگ نکلتے ہیں۔ اور وہ یقین کرلیتے ہیں کہ اسلام کے قبول کرنے سے ہماری زندگی کا ہر رنگ پھیکا ہوجائے گا اور ہمیں اللہ تعالیٰ سے جو امیدیں اور آرزوئیں ہیں ان میں سے کسی کے پورا ہونے کا کوئی امکان نہیں تو وہ اللہ تعالیٰ کی بندگی کو چھوڑ کر اور آستانے تلاش کرنے لگتے ہیں۔ چناچہ پیش نظر آیت کریمہ میں ان کے اسی رویئے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ اب وہ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسرے لوگوں کو پکارتے ہیں اور صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ پکار عبادت کے معنی میں ہے کیونکہ یہ آیت گزشتہ آیت کے مضمون کا تسلسل ہے اور عبادت میں جس طرح بندگی اور اطاعت شامل ہے اسی طرح دُعا، استغاثہ، فریاد اور استمداد بھی شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہونے کے بعد حیرانی کی بات ہے کہ یہ ان آستانوں پر سر جھکاتے اور ان قوتوں سے فریاد کرتے ہیں جو نہ نفع پہنچا سکتی ہیں اور نہ نقصان دے سکتی ہیں۔ اگر تو اس سے بت مراد لیے جائیں تو پھر اگرچہ معنی زیادہ واضح ہوجاتا ہے لیکن اس میں بھی ایک بات کا دھیان رکھنا بہت ضروری ہے وہ یہ کہ جن لوگوں نے بت پرستی کا ارتکاب کیا ہے ان کے پیش نظر یہ کبھی نہیں رہا کہ یہ پتھر کے اپنے ہاتھوں سے تراشے ہوئے بت غیرمعمولی قدرتوں کے مالک ہیں یہ ہماری ہر بگڑی بنا سکتے اور ہماری زندگیاں سنوار سکتے ہیں بلکہ ان کے ذہن میں ان زندہ شخصیتوں کا تصور ہوتا ہے جن کے دنیا سے چلے جانے کے بعد ان کی یاد میں یہ مجسمے اور یہ بت تراشے گئے ہیں۔ وہ طاقت اور قدرت کا مالک ان شخصیتوں کو سمجھتے ہیں اور جن کے بارے میں ان کا گمان یہ ہے کہ مرنے کے بعد اللہ والوں میں زیادہ قوتیں آجاتی ہیں۔ جو کام وہ اپنی زندگی میں نہیں کرسکتے وہ موت کے بعد کرسکتے ہیں۔ وہ لوگوں کی دُعائیں سنتے اور ان کی فریادوں کو پورا کرتے ہیں جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ مرنے والے دنیا سے چلے گئے اور ان کے نام پر یہ گھڑے ہوئے بت اپنے اندر کوئی قدرت نہیں رکھتے۔ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مشرکین نے جس طرح بتوں کو خدا کا شریک بنایا ہے اسی طرح فرشتوں کو، دیوتائوں کو اور بعض قوتوں کے اوتاروں کو بھی اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرایا ہے۔ اور کتنی ایسی طاغوتی قوتیں ہیں جن کے اقتدار اور اختیار کے سامنے مشرکین نے نہ صرف سر جھکائے ہیں بلکہ اپنا مال و دولت اور اپنی صلاحیتوں کا سرمایہ ان کے اقتدار کو مضبوط کرنے کے لیے صرف کیا ہے۔ وہ اپنی خدائی کا صور پھونکتے ہیں تو یہ ان کی خدائی کو غذا فراہم کرتے ہیں جبکہ وہ جانتے ہیں کہ حقیقت میں وہ نہ نافع ہیں اور نہ ضار ہیں۔ نفع و ضرر کی حقیقی قوت صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے لیکن اس کے باوجود وہ ان کو نافع اور ضار سمجھ کر ان کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہیں۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ یہ کس قدر دور کی گمراہی ہے کیونکہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے سامنے نہیں جھکتا وہ بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت سے انکار نہیں کرسکتا۔ اسے خالق ومالک وہ بھی تسلیم کرتا ہے اور اسے بھی اس کی بےپناہ قوتوں کا اعتراف ہے اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ جن کے سامنے استمداد کے لیے ہاتھ پھیلایا جاتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر کسی کی مدد نہیں کرسکتے۔ اس کے باوجود جب وہ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر جبکہ وہ یقینی سہارا ہے اس کے سامنے سر جھکاتا اور ہاتھ پھیلاتا ہے جو نفع اور نقصان کی صلاحیت نہیں رکھتا تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ کتنی بڑی حماقت اور کتنی دور کی گمراہی ہے۔
Top