Ruh-ul-Quran - Al-Hajj : 16
وَ كَذٰلِكَ اَنْزَلْنٰهُ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ١ۙ وَّ اَنَّ اللّٰهَ یَهْدِیْ مَنْ یُّرِیْدُ
وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح اَنْزَلْنٰهُ : ہم نے اس کو نازل کیا اٰيٰتٍ : آیتیں بَيِّنٰتٍ : روشن وَّ : اور اَنَّ : یہ کہ اللّٰهَ : اللہ يَهْدِيْ : ہدایت دیتا ہے مَنْ : جس کو يُّرِيْدُ : وہ چاہتا ہے
اور ہم نے اسی طرح اس قرآن کو نازل کیا ہے۔ واضح دلائل کی صورت میں بیشک اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔
وَکَذٰلِکَ اَنْزَلْنٰـہُ اٰیٰتٍ م بَیِّنٰتٍ لا وَّاَنَّ اللّٰہَ یَھْدِیْ مَنْ یُّرِیْدُ ۔ (الحج : 16) (اور ہم نے اسی طرح اس قرآن کو نازل کیا ہے۔ واضح دلائل کی صورت میں بیشک اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ ) دلائل کب بےاثر ہوتے ہیں ؟ گزشتہ آیت کریمہ میں ہم پڑھ چکے ہیں کہ مشرکین کو آنحضرت ﷺ کی دعوت پر اس قدر غصہ اور رنج تھا کہ وہ یہ سوچتے تھے کہ کاش ! کوئی ایسی صورت ممکن ہو کہ ہم نبی کریم ﷺ پر نازل ہونے والی وحی کا سلسلہ منقطع کردیں۔ ایسی صورت میں آنحضرت ﷺ کی دعوت کا سلسلہ خود بخود رک جائے گا اور آیت کے الفاظ میں اس کی بھی گنجائش ہے کہ وہ اللہ کی ذات کریم سے بھی انتہائی نالاں اور آزردہ تھے۔ وہ محسوس کرتے تھے کہ ہم اس دعوت کو روکنے کے لیے جو کچھ کرتے ہیں اس میں ہمیں کہیں کامیابی نہیں ہوتی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری بالکل مدد کرنا نہیں چاہتا۔ چناچہ اس پس منظر میں جب کہ مشرکین اللہ سے بھی ناراض ہیں اور آنحضرت ﷺ کی دعوت پر وہ غیض وغضب میں جلے جارہے ہیں ان سے ارشاد فرمایا جارہا ہے کہ انسان کی سرشت یہ ہے کہ جب اس سے کوئی بھلے کی بات کہی جائے تو وہ اسے سمجھنے کے لیے دلیل کا خواہش مند ہوتا ہے اور اگر اسے دلائل سے مطمئن کردیا جائے تو پھر اپنی سرشت کے تقاضا کے مطابق ہے اس بات کو قبول کرلیتا ہے۔ البتہ ! جب کوئی شخص کسی اچھی سے اچھی بات کے حوالے سے بھی تحفظات کا شکار ہوجاتا ہے یا اس کے منفی جذبات اس کے خلاف کام کرنے لگتے ہیں تو دلائل بھی بےاثر ہوجاتے ہیں۔ مشرکین کا اصل مسئلہ یہی ہے۔ قرآن کریم پروردگار نے واضح دلائل کے ساتھ اتارا ہے۔ وہ کوئی بات بھی بلا دلیل نہیں کرتا اور لائل میں ہر طرح کے دلائل سے کام لیتا ہے۔ کبھی دلائل آفاق پیش کرتا ہے اور کبھی دلائل انفس کبھی انسانی فطرت کو آواز دیتا ہے اور کبھی دلوں کے دروازوں پر دستک دیتا ہے۔ لیکن جب انسان اپنے منفی جذبات کے تحت ہر دروازہ بند کرلیتا ہے۔ تو اس کے سمع و قبول کے امکانات محدود ہوجاتے ہیں۔ سنت اللہ کا بیان آیت کے دوسرے حصے میں ہدایت و ضلالت سے متعلق سنت اللہ کو بیان کیا جارہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کی عنایت انسانوں کے لیے ہدایت کو آسان بنانے کی خاطر دلائل میں کوئی کمی نہیں رہنے دیتی۔ سمجھانے بجھانے کے تمام امکانات سے کام لیا جاتا ہے۔ لیکن فیصلہ اللہ کی سنت کے مطابق اس بات پر ہوتا ہے کہ انسان کو اللہ نے جس جوہر عقل سے نوازا ہے اور دل دماغ کی جو رعنائیاں عطا فرمائی ہیں انسان ان سے کہاں تک کام لیتا ہے۔ اگر وہ ان خداداد صلاحیتوں سے کام لیتا ہے، اللہ سے توفیق مانگتا ہے تو یقینا اس کے لیے قبولیت کے دروازے کھل جاتے ہیں لیکن اگر وہ گروہی عصبیت کا شکار ہو کر منفی جذبات کے تحت بات کو سننا بھی پسند نہیں کرتا تو پھر اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو ہدایت دینا کبھی پسند نہیں کرتا۔ اللہ کی ذات انتہائی غیور ہے اور اس کا دین نہایت قدروقیمت کا حامل ہے۔ یہ ایسے شخص کو کبھی عطا نہیں ہوتا جو اس کے لیے اپنے دل میں خواہش نہیں رکھتا۔ آنحضرت ﷺ کی ذاتی وجاہت آپ کا بےعیب کردار، آپ کی انسانوں کے لیے انتہائی ہمدردی اور خیرخواہی اور قرآن کریم کی فصاحت و بلاغت اور اس کا معجزانہ انداز بھی اس کی ہدایت کا باعث نہیں بنتا۔ جس طرح ہدایت کی قبولیت کے لیے دلائل اپنا ایک مقام رکھتے ہیں۔ انسانی ماحول اور انسانی فطرت اپنا کام کرتی ہے۔ اس سے بڑھ کر اللہ کی توفیق اس میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ جو شخص اللہ سے توفیق نہیں مانگتا اور اس کے رویے میں طلب صادق پیدا نہیں ہوتی وہ کبھی بھی ہدایت سے نوازا نہیں جاتا۔
Top