Ruh-ul-Quran - Al-Hajj : 19
هٰذٰنِ خَصْمٰنِ اخْتَصَمُوْا فِیْ رَبِّهِمْ١٘ فَالَّذِیْنَ كَفَرُوْا قُطِّعَتْ لَهُمْ ثِیَابٌ مِّنْ نَّارٍ١ؕ یُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُءُوْسِهِمُ الْحَمِیْمُۚ
ھٰذٰنِ : یہ دو خَصْمٰنِ : دو فریق اخْتَصَمُوْا : وہ جھگرے فِيْ رَبِّهِمْ : اپنے رب (کے بارے) میں فَالَّذِيْنَ : پس وہ جنہوں نے كَفَرُوْا : کفر کیا قُطِّعَتْ : قطع کیے گئے لَهُمْ : ان کے لیے ثِيَابٌ : کپڑے مِّنْ نَّارٍ : آگ کے يُصَبُّ : ڈالا جائے گا مِنْ فَوْقِ : اوپر رُءُوْسِهِمُ : ان کے سر (جمع) الْحَمِيْمُ : کھولتا ہوا پانی
یہ دو فریق ہیں جنھوں نے اپنے رب کے بارے میں جھگڑا کیا ان میں سے وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا ان کے لیے آگ کے لباس تراشے جائیں گے۔ ان کے سروں پر کھولتا ہوا پانی ڈالا جائے گا۔
ھٰذٰنِ خَصْمٰنِ اخْتَصَمُوْا فِیْ رَبِّھِمْ ز فَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا قُطِّعَتْ لَہُمْ ثِیَابٌ مِّنْ نَّارٍ ط یُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُئُ وْسِہِمُ الْحَمِیْمُ ۔ یُصْھَرُبِہٖ مَا فِیْ بُطُوْنِہِمْ وَالْجُلُوْدُ ۔ وَلَھُمْ مَّقَامِعُ مِنْ حَدِیْدٍ ۔ کُلَّمَآ اَرَادُوْآ اَنْ یَّخْرُجُوْا مِنْھَا مِنْ غَمٍّ اُعِیْدُوْا فِیْھَا ق وَذُوْقُوْا عَذابَ الْحَرِیْقِ ۔ (الحج : 19 تا 22) (یہ دو فریق ہیں جنھوں نے اپنے رب کے بارے میں جھگڑا کیا ان میں سے وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا ان کے لیے آگ کے لباس تراشے جائیں گے۔ ان کے سروں پر کھولتا ہوا پانی ڈالا جائے گا۔ اس سے جو کچھ ان کے پیٹوں میں ہے سب گل جائے گا اور کھالیں بھی۔ اور ان کی سرکوبی کے لیے لوہے کے گرز ہوں گے۔ جب جب وہ اس کے کسی عذاب سے نکلنے کی کوشش کریں گے اسی میں دھکیل دیئے جائیں گے کہ چکھو اب جلنے کا عذاب۔ ) اسلام کے متحارب گروہوں کا انجام گزشتہ آیات میں ہم نے حق و باطل کی کشمکش کا جو منظر دیکھا ہے اس میں اگرچہ کرداروں کی تعداد دو سے زیادہ ہے لیکن حقیقت میں دو ہی فریق ہیں جن کے درمیان یہ لڑائی جاری ہے۔ ایک طرف اہل حق کا بلند حوصلہ لیکن بےوسیلہ گروہ ہے۔ جسے مسلسل اذیتوں اور مصیبتوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور دوسری طرف مشرکین کا گروہ ہے جنھیں کسی طور توحید گوارہ نہیں۔ جو شرک کی حمائت میں آستینیں چڑھائے ہوئے مرنے مارنے پر تلا ہوا ہے۔ یہود ہر لحاظ سے ان کی مدد کے لیے سرگرم ہیں نصاریٰ صابی اور مجوس پس پردہ رہ کر مشرکین کے لیے کلمہ تحسین کہتے اور ہر طرح کی اخلاقی مدد مہیا کرتے ہیں کیونکہ ان کا اور مشرکین کا مضمون واحد ہے۔ یہ تعداد میں اگرچہ زیادہ ہیں۔ لیکن الکفر ملۃ واحدۃ کے مصداق ایک ہی بےسایہ شجر کی شاخیں ہیں۔ ان کی ہر بات اور ان کا ہر عمل کفر اور شرک کی خدمت کے لیے وقف ہے اور مسلمانوں کی تمام مساعی اور تمام تر استقامت صرف اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے ہے۔ اس لحاظ سے یہ تصادم دو گروہوں میں ہے چاہے ان کے نام کچھ بھی ہوں اور ان کی تعداد کتنی ہو۔ ہر دور میں یہ نام بدلتے رہے ہیں اور بدلتے رہیں گے لیکن ان کی تمام تر کشمکش اور تمام تر لڑائی حق و باطل کے درمیان ہی ہوگی۔ آنحضرت ﷺ کے زمانے میں بھی اس کا عنوان یہی تھا اور آج جبکہ مسلمان کا خون ارزاں ہوگیا ہے اور ہر جگہ سے دھواں اٹھ رہا ہے تب بھی اس کا عنوان یہی ہے۔ اقبال نے ٹھیک کہا تھا ؎ نہ ستیزہ گاہ جہاں نئی نہ حریفِ پنجہ شکن نئے وہی قوت اسداللّٰہی وہی مرحبی وہی عنتری اللہ تعالیٰ مخالف گروہ کو انجام کی آگاہی دینے کے لیے فرمارہا ہے کہ قیامت کے دن انھیں آگ کا لباس پہنایا جائے گا کیونکہ دنیا میں یہ حق کی مخالفت کے جوش میں نفرت غصہ حسد اور انتقام کی جس آگ میں جلتے رہے ہیں ان کے لیے آگ کا لباس ہی مناسب ہے۔ اسی طرح ان کے سروں پر کھولتا ہوا پانی انڈیلا جائے گا جس سے ان کی کھالیں بھی جلیں گی اور ان کے تمام اندرونی احشاء بھسم ہوجائیں گی اور یہی سزا ان کے لیے سزاوار بھی ہے کیونکہ وہ ہمیشہ اسلام دشمنی کی آگ میں کھولتے رہے ہیں۔ جہنم کے جو داروغے ان کی نگرانی کے لیے مسلط کیے جائیں گے ان کے ہاتھوں میں لوہے کے بڑے بڑے گرز ہوں گے جب یہ جہنم کے عذاب سے گھبر اکر کسی دوسری آفت کی پناہ میں جانا چاہیں گے تو وہ انھیں گرز مار مار کر واپس اسی جگہ لوٹادیں گے۔ اور ان سے کہا جائے گا کہ اب یہاں سے نکلنے کی کوشش کیوں کررہے ہو جہنم کی آگ سے جلنے کا مزہ چکھو۔ یہی وہ عذاب ہے جس سے دنیا میں تمہیں ڈرایا جاتا تھا۔ لیکن تم نے کبھی بات سننے کی بھی زحمت نہ کی بلکہ جس نے تمہیں نہایت خیر خواہی سے اس انجام سے بچانا چاہا تم نے زندگی بھر اسے چین نہیں لینے دیا۔ تو جس عذاب کی خاطر تم نے یہ رویہ اختیار کیا تو اب تم اس سے بھاگنا کیوں چاہتے ہو۔
Top