Ruh-ul-Quran - Al-Hajj : 25
اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ الَّذِیْ جَعَلْنٰهُ لِلنَّاسِ سَوَآءَ اِ۟لْعَاكِفُ فِیْهِ وَ الْبَادِ١ؕ وَ مَنْ یُّرِدْ فِیْهِ بِاِلْحَادٍۭ بِظُلْمٍ نُّذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ۠   ۧ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا وَيَصُدُّوْنَ : اور وہ روکتے ہیں عَنْ : سے سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کا راستہ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ : اور مسجد حرام (بیت اللہ) الَّذِيْ : وہ جسے جَعَلْنٰهُ : ہم نے مقرر کیا لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے سَوَآءَ : برابر ۨ الْعَاكِفُ : رہنے والا فِيْهِ : اس میں وَالْبَادِ : اور پردیسی وَمَنْ : اور جو يُّرِدْ : ارادہ کرے فِيْهِ : اس میں بِاِلْحَادٍ : گمراہی کا بِظُلْمٍ : ظلم سے نُّذِقْهُ : ہم اسے چکھائیں گے مِنْ : سے عَذَابٍ : عذاب اَلِيْمٍ : دردناک
بیشک وہ لوگ جنھوں نے کفر اختیار کیا وہ لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکتے ہیں اور اس مسجد حرام سے روکتے ہیں جسے ہم نے (بلا امتیاز) سب لوگوں کے لیے یکساں بنایا ہے۔ خواہ وہ اس کے شہری ہوں یا آفاقی۔ (تو انھوں نے بہت زیادتی کی ہے) اور جو اس میں کسی بےدینی کسی شرک کے ارتکاب کا ارادہ کرے تو ہم اسے درد ناک عذاب چکھائیں گے۔
اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَیَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالْمَسْجِدِالْحَرَامِ الَّذِیْ جَعَلْنٰہُ لِلنَّاسِ سَوَآئَ نِ الْعَاکِفُ فِیْہِ وَالْبَادِ ط وَمَنْ یُّرِدْفِیْہِ بِاِلْحَادٍ م بِظُلْمٍ نُّذِقْہُ مِنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ ۔ (الحج : 25) (بےشک وہ لوگ جنھوں نے کفر اختیار کیا وہ لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکتے ہیں اور اس مسجد حرام سے روکتے ہیں جسے ہم نے (بلا امتیاز) سب لوگوں کے لیے یکساں بنایا ہے۔ خواہ وہ اس کے شہری ہوں یا آفاقی۔ (تو انھوں نے بہت زیادتی کی ہے) اور جو اس میں کسی بےدینی کسی شرک کے ارتکاب کا ارادہ کرے تو ہم اسے درد ناک عذاب چکھائیں گے۔ ) آیت کے ترجمے کی آسانی کے لیے صرف ایک بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے وہ یہ کہ ان الذین سے والباد تک مبتدا ہے اور اس کی خبر محذوف ہے۔ جو فقد ظلموا ظلما کثیرا یا اس کے ہم معنی ہوسکتی ہے۔ ” عاکف “ ،” مقیم “ کے معنی میں ہے۔ مراد ہے ” مکہ کا رہنے والا “۔ اور باد کا معنی ” پردیسی یا صحرا سے آنے والا “ ہے۔ مراد اس سے ” آفاقی “ ہے۔ حرم کے باشندوں کے لیے عاکف کا لفظ استعمال ہوتا ہے اور باہر سے آنے والوں کو الباد کہا جاتا ہے۔ روئے سخن قریش کی طرف اور ان کے جرائم گزشتہ آیات میں حق و باطل کی کشمکش کے سلسلے میں ہم نے قریش مکہ اور مسلمانوں کے درمیان آویزش کا ذکر پڑھا ہے۔ جس میں قریش نے ظلم کے ہر ہتھیار کو مسلمانوں کی تباہی کا ذریعہ بنا رکھا تھا اور مسلمان سرتاپا صبر اور استقامت کی تصویر بنے اس تشویش ناک صورتحال کا سامنا کررہے تھے۔ پیش نظر آیت کریمہ میں قریش مکہ کا ایک اور ظلم یا اس کی ایک اور صورت بیان کی جارہی ہے کہ قریش صرف ظلم سے مسلمانوں کی دعوت کو ختم کرنے یا مسلمانوں کو تباہ کرنے ہی کے درپے نہیں تھے بلکہ انھوں نے ظلم کا ایک اور رنگ یہ اختیار کیا تھا کہ وہ مسجد حرام جسے اللہ نے سب کے لیے یکساں حقوق کے ساتھ بنایا ہے اور جس میں کسی کو کسی پر کوئی فوقیت نہیں اور جس میں آنے والا ہر شخص ہر طرح کے حقوق میں قریش کے برابر رکھا گیا ہے۔ قریش کو یہ حق تو ضرور ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے گھر کی تولیت کا فرض انجام دیں کیونکہ وہ اپنے آپ کو حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے وارث کی حیثیت سے بیت اللہ کا متولی سمجھتے ہیں۔ متولی ہونے کی حیثیت سے ان کا یہ فرض ہے کہ آنے والوں کے لیے بیت اللہ میں عبادات کی تمام ممکن صورتوں کو مہیا رکھیں۔ اللہ کے گھر کو ہر طرح کی آلودگی سے محفوظ رکھیں۔ جو طواف کرنا چاہے طواف کا راستہ اس کے لیے کھلا ہو، جو عمرہ ادا کرنا چاہے عمرے کے افعال کی ادائیگی کے لیے اس کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو اور جو حج کرنا چاہے اس کے لیے تمام امکانات ہر وقت موجود رہیں۔ لیکن انھیں اس بات کا حق نہیں دیا گیا کہ وہ بیت اللہ پر اجارہ داری قائم کرلیں بیت اللہ اور حرم کو اپنی ملکیت بنالیں جسے چاہیں اسے یہاں آنے دیں۔ لیکن قریش نے مسلمانوں پر اذیت رسانیوں کے ساتھ ساتھ ایک یہ طریقہ بھی اختیار کیا ہے کہ وہ انھیں صرف اللہ کے راستے یعنی دین قبول کرنے سے ہی نہیں روکتے بلکہ وہ اللہ کے گھر اور حرم کی حدود میں آنے سے بھی مسلمانوں کو روکتے ہیں۔ بعض اہل علم نے اس سے یہ بات سمجھی ہے کہ یہ آیات ہجرت کے بعد نازل ہوئی ہوں گی کیونکہ ہجرت کے بعد مسلمانوں پر بیت اللہ کے راستے بند کیے۔ روایات میں آتا ہے کہ حضرت سعد بن معاذ ( رض) جب آنحضرت ﷺ اور مسلمانوں کے ہجرت کرجانے کے بعد عمرے کے ارادے سے مکہ معظمہ گئے اور پرانے دوستانہ تعلقات کے پیش نظر امیہ بن خلف کے مہمان ٹھہرے وہ صبح انھیں ساتھ لے کر بیت اللہ کا طواف کرانے کے لیے لایا۔ سامنے ابو جہل آتا ہوا دکھائی دیا۔ اس نے قریب آکر امیہ سے پوچھا تمہارے ساتھ کون ہے ؟ امیہ نے کہا تم نہیں جانتے یہ سعد ہے تو ابو جہل نے غضبناک ہو کر کہا کہ تم ہمارے بھگوڑوں کو پناہ دیتے ہو اور پھر یہاں عمرے کے ارادے سے آتے ہو۔ واللہ اگر تم امیہ کے ساتھ نہ ہوتے تو یہاں سے بچ کر نہیں جاسکتے تھے۔ حضرت سعد نے جواب میں فرمایا کہ اگر تم نے مکہ میں ہمارا داخلہ بند کیا تو ہم تم پر وہ چیز بند کردیں گے جو تم پر اس سے زیادہ سخت ہے۔ یعنی ملک شام کی تجارت۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں پر مسجد حرام میں داخلے کی پابندی ہجرت کے بعد لگائی گئی ہے۔ تو یہ دلیل ہے اس بات کی کہ یہ آیات ہجرت کے بعد نازل ہوئی ہیں۔ لیکن بعض مفسرین کا خیال یہ ہے کہ مسلمانوں پر بیت اللہ میں داخلے کی پابندی مکہ ہی میں لگادی گئی تھی۔ یہ صحیح ہے کہ آنحضرت ﷺ بیت اللہ کے صحن میں بالعموم نماز ادا کرتے تھے اور اسی نماز کے دوران سجدے کی حالت میں آپ پر اوجھ ڈالی گئی اور آپ کے گلے میں کپڑا ڈال کر گلا گھوٹنے کی کوشش کی گئی۔ اسی طرح دیگر صحابہ کرام بھی صحن حرم میں نماز ادا کرتے تھے۔ البتہ ! خانہ کعبہ میں آنحضرت ﷺ اور مسلمانوں پر داخل ہونے کی ممانعت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جب عثمان بن طلحہ کلید بردارِکعبہ سے آپ نے خانہ کعبہ کے اندر جانے کے لیے چابی طلب کی تو اس نے سختی سے انکار کردیا لیکن آیت کریمہ میں خانہ کعبہ کے اندر جانے پر پابندی کا ذکر نہیں بلکہ مسجد حرام کے اندر جانے کی پابندی کا ذکر کیا گیا ہے جبکہ مسلمانوں پر مسجد حرام کے اندر جانے کی پابندی نہیں تھی اگرچہ وہ ظالم مسلمانوں کو مسجد حرام سے پکڑ کر اذیتوں کا نشانہ بناتے تھے۔ قرآن کریم نے اس آیت کریمہ میں قریش کے اس رویے پر تنقید کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم نے حرم کے رہنے والے اور باہر سے آنے والوں کے لیے یکساں طور پر اللہ کے گھر اور مسجد حرام کو عبادت کا مرکز بنایا ہے۔ سب کو یہاں طواف اعتکاف اور نماز کی اجازت ہے۔ لیکن قریش نے جو طرز عمل اختیار کیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ حرم الہٰی کے ٹھیکہ دار اور اجارہ دار بن بیٹھے ہیں۔ حالانکہ متولی ہونے کی حیثیت سے ان کا کام بیت اللہ کی خدمت بجا لانا ہے کسی طرح کا ظلم اور اجارہ داری قائم کرنے کا انھیں کوئی حق نہیں۔ اسی سے اہل علم نے یہ بات سمجھی ہے کہ مسجد حرام پر کسی خاندان یا کسی مخصوص حکومت کی اجارہ داری قائم نہیں ہوسکتی۔ اس میں عرب وعجم اور شرق وغرب کے مسلمانوں کے حقوق یکساں ہیں۔ اسی طرح مسلمانوں پر یکساں طور پر یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اللہ کے گھر کی حفاظت کا انتظام کریں۔ اگر خدانخواستہ اس گھر کے لیے کوئی خطرہ لاحق ہوتا ہے تو تمام عالم اسلام کو وہاں اپنی فوجیں بھیجنے کا حق حاصل ہے۔ حرم کی حکومت دوسرے علاقے کے مسلمانوں کو یہ کہہ کر نہیں روک سکتی کہ یہ ہمارا داخلی مسئلہ ہے۔ حرم اور مسجد حرام کی انھیں خصوصیات کے باعث فقہاء میں یہ بحث چل نکلی ہے کہ حرم ِ مکہ اور اس کی زمین پر بنے ہوئے مکانات کسی کی ملکیت ہوسکتے ہیں یا نہیں اور کیا کوئی اپنا مکان بیچ سکتا ہے یا نہیں۔ اپنے مکان کا کرایہ حاجیوں سے وصول کرسکتا ہے یا نہیں۔ جو اہل علم حرم کی سرزمین پر بنے ہوئے مکانات کو وقف قرار دیتے ہیں ظاہر ہے وہ ایسی کسی اجازت دینے کے قائل نہیں۔ اس پر مولانا مودودی نے ایک تفصیلی نوٹ لکھا ہے ہم افادہ عام کے لیے اسے نقل کیے دیتے ہیں۔ یہاں فقہی نقطہ نظر سے دو سوال پیدا ہوتے ہیں جن کے بارے میں فقہائے اسلام کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے ہیں۔ مسجدِ حرام سے کیا مراد ہے ؟ اول یہ کہ مسجدِحرام سے مراد کیا ہے ؟ آیا صرف مسجد یا پورا حرم مکہ ؟ دوم یہ کہ اس میں عاکف (رہنے والے) اور باد (باہر سے آنے والے) کے حقوق برابر ہونے کا کیا مطلب ہے ؟ ایک گروہ کہتا ہے کہ اس سے مراد صرف مسجد ہے نہ کہ پوراحرم، جیسا کہ قرآن کے ظاہر الفاظ سے مترشح ہوتا ہے۔ اور اس میں حقوق کے مساوی ہونے سے مراد عبادت کے حق میں مساوات ہے جیسا کہ نبی ﷺ کے اس ارشاد سے معلوم ہوتا ہے کہ یابنی عبد مناف من ولی منکم من امورالناس شیئا فلا یمنعن احدا طاف بھذا البیت اوصلی ایۃ ساعۃ شاء من لیل اونھار۔” اے اولاد عبدمناف ! تم میں سے جو کوئی لوگوں کے معاملات پر کسی اقتدار کا مالک ہو اسے چاہیے کہ کسی شخص کو رات اور دن کے کسی وقت میں بھی خانہ کعبہ کا طواف کرنے یا نماز پڑھنے سے منع نہ کرے “۔ اس رائے کے حامی کہتے ہیں کہ مسجد حرام سے پورا حرم مراد لینا اور پھر وہاں جملہ حیثیات سے مقامی باشندوں اور باہر سے آنے والوں کے حقوق برابر قرار دینا غلط ہے کیونکہ مکہ کے مکانات اور زمینوں پر لوگوں کے حقوق ملکیت و وراثت اور حقوق بیع واجارہ اسلام سے پہلے قائم تھے اور اسلام کے بعد بھی قائم رہے حتی کہ حضرت عمر ( رض) کے زمانے میں صفوان بن امیہ کا مکان مکہ میں جیل کی تعمیر کے لیے چار ہزار درہم میں خریدا گیا۔ لہٰذا یہ مساوات صرف عبادت ہی کے معاملہ میں ہے نہ کہ کسی اور چیز میں۔ یہ امام شافعی اور ان کے ہم خیال اصحاب کا قول ہے۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ مسجد حرام سے مراد پورا حرم مکہ ہے۔ اس کی پہلی دلیل یہ ہے کہ خود اس آیت میں جس چیز پر مشرکین مکہ کو ملامت کی گئی ہے وہ مسلمانوں کے حج میں مانع ہونا ہے اور ان کے اس فعل کو یہ کہہ کہ رد کیا ہے کہ وہاں سب کے حقوق برابر ہیں۔ اب یہ ظاہر ہے کہ حج صرف مسجد ہی میں نہیں ہوتا بلکہ صفا اور مروہ سے لے کر منیٰ ، مزدلفہ، عرفات، سب مناسک حج کے مقامات ہیں۔ پھر قرآن میں ایک جگہ نہیں متعدد مقامات پر مسجد حرام بول کر پورا حرم مراد لیا گیا ہے۔ مثلا ً فرمایا : والمسجد الحرام واخراج اھلہ منہ اکبر عنداللہ ” مسجد حرام سے روکنا اور اس کے باشندوں کو وہاں سے نکالنا اللہ کے نزدیک ماہ حرام میں جنگ کرنے سے بڑا گناہ ہے “ البقرۃ آیت 217۔ ظاہر ہے کہ یہاں مسجد سے نماز پڑھنے والوں کو نکالنانھیں بلکہ مکہ سے مسلمان باشندوں کو نکالنا مراد ہے۔ دوسری جگہ فرمایا : ذلک لمن لم یکن اھلہ حاضری المسجد الحرام ” یہ رعایت اس کے لیے ہے جس کے گھر والے مسجد حرام کے رہنے والے نہ ہوں۔ البقرۃ آیت 196۔ یہاں بھی مسجد حرام سے مراد پورا حرم مکہ ہے نہ کہ محض مسجد۔ لہذا مسجد حرام میں مساوات کو صرف مسجد میں مساوات تک محدود نہیں قرار دیاجاسکتا بلکہ یہ حرم مکہ میں مساوات ہے۔ پھر یہ گروہ کہتا ہے کہ یہ مساوات صرف عبادت اور تعظیم و حرمت ہی میں نہیں ہے بلکہ حرم مکہ میں تمام حقوق کے اعتبار سے ہے۔ یہ سرزمین اللہ کی طرف سے وقف عام ہے لہٰذا اس پر اور اس کی عبادت پر کسی کے حقوق ملکیت نہیں ہیں۔ ہر شخص ہر جگہ ٹھہر سکتا ہے کوئی کسی کو نہیں روک سکتا اور نہ کسی بیٹھے ہوئے کو اٹھا سکتا ہے۔ اس کے ثبوت میں یہ لوگ بکثرت احادیث اور آثار پیش کرتے ہیں۔ مثلاً عبداللہ بن عمر ( رض) کی روایت کہ نبی ﷺ نے فرمایا : مکہ مناح لانباع رباعھا ولا تؤا جر بیو تھا، ” مکہ مسافروں کے اترنے کی جگہ ہے نہ اس میں زمینیں بیچی جائیں اور نہ اس کے مکان کرائے پر چڑھائے جائیں “۔ ابراہیم نخفی کی مرسل روایت کہ حضور ﷺ نے فرمایا : مکہ حرمھا اللہ لا یحل بیع رباعھا ولا اجارۃ بیو تھا۔ ” مکہ کو اللہ نے حرم قرار دیا ہے۔ اس کی زمین کو بیچنا اور اس کے مکانوں کا کرایہ وصول کرنا حلال نہیں ہے۔ “ (واضح رہے کہ ابراہیم نخفی کی مرسلات حدیث مربوع کے حکم میں ہیں کیونکہ ان کا یہ قاعدہ مشہور و معروف ہے کہ جب وہ مرسل روایت کرتے ہیں تو دراصل عبداللہ بن مسعود کے واسطے سے روایت کرتے ہیں) مجاہد نے بھی تقریباً انہی الفاظ میں ایک روایت نقل کی ہے۔ علقمہ بن نضلہ کی روایت کہ ” رسول اللہ ﷺ در ابوبکر و عمر اور عثمان ( رض) کے زمانے میں مکہ کی زمینیں سوائب (افتادہ زمینیں یاشاملات) سمجھی جاتی تھیں۔ جس کو ضرورت ہوتی وہ رہتا تھا اور جب ضرورت نہ رہتی دوسرے کو ٹھہرا دیتا تھا۔ “ عبداللہ بن عمر ( رض) کی روایت کہ حضرت عمر ( رض) نے حکم دے دیا تھا کہ حج کے زمانے میں مکہ کا کوئی شخص اپنا دروازہ بند نہ کرے بلکہ مجاہد کی روایت تو یہ ہے کہ حضرت عمر ( رض) نے اہل مکہ کو اپنے مکانات کے صحن کھلے چھوڑدینے کا حکم دے رکھا تھا اور وہ ان پر دروازے لگانے سے منع کرتے تھے تاکہ آنے والا جہاں چاہے ٹھہرے۔ یہی روایت عطا کی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ صرف سہیل بن عمرو کو فاروقِ اعظم نے صحن کے دروازے لگانے کی اجازت دی تھی کیونکہ ان کو تجارتی کاروبار کے سلسلے میں اپنے اونٹ وہاں بند کرنے ہوتے تھے۔ عبداللہ بن عمر ( رض) کا قول کہ جو شخص مکہ کے مکانات کا کرایہ وصول کرتا ہے وہ اپنا پیٹ آگ سے بھرتا ہے۔ عبداللہ بن عباس ( رض) کا قول کہ اللہ نے پورے حرم کو مسجد بنادیا ہے جہاں سب کے حقوق برابر ہیں۔ مکہ والوں کو باہر والوں سے کرایہ وصول کرنے کا حق نہیں ہے۔ عمر بن عبدالعزیز کا فرمان امیر مکہ کے نام کہ مکہ کے مکانات پر کرایہ نہ لیا جائے کیونکہ یہ حرام ہے۔ ان روایات کی بنا پر بکثرت تابعین اس طرف گئے ہیں اور فقہا میں سے امام مالک، امام ابو حنیفہ، سفیان ثوری، امام احمد بن حنبل اور اسحاق بن راھویہ کی بھی یہی رائے ہے کہ اراضی مکہ کی بیع اور کم از کم موسم حج میں مکہ کے مکانوں کا کرایہ جائز نہیں۔ البتہ ! بیشتر فقہاء نے مکہ کے مکانات پر لوگوں کی ملکیت تسلیم کی ہے اور ان کی بحیثیت عمارت، نہ کہ بحیثیت زمین بیع کو بھی جائز قرار دیا ہے۔ یہی مسلک کتاب اللہ وسنت رسول اللہ اور سنت خلفاء راشدین سے قریب تر معلوم ہوتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تمام دنیا کے مسلمانوں پر حج اس لیے فرض نہیں کیا ہے کہ یہ اہل مکہ کے لیے آمدنی کا ذریعہ بنے اور جو مسلمان احساسِ فرض سے مجبور ہو کر وہاں جائیں، انھیں وہاں کے مالکانِ زمین اور مالکانِ مکانات خوب کرائے وصول کر کرکے لوٹیں۔ وہ ایک وقف عام ہے تمام اہل ایمان کیلیے۔ اس کی زمین کسی کی ملک نہیں ہے۔ ہر زائر کو حق ہے کہ جہاں جگہ پائے ٹھہر جائے۔ (تفہیم القرآن) اللہ کے گھر کی عظمت وَمَنْ یُّرِدْفِیْہِ بِاِلْحَادٍ م بِظُلْمٍ نُّذِقْہُ مِنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍاس میں پروردگار نے اپنے گھر کی عظمت کو بیان فرمایا ہے۔ یہ گھر اتنا عظیم ہے کہ اس گھر میں کسی طرح کی کج روی اور کسی طرح کے ظلم کی کوئی گنجائش نہیں۔ شریعت نے جن امور کو گناہ قرار دیا ہے۔ ان کا ارتکاب ہر جگہ گناہ ہے۔ لیکن اگر وہی گناہ کے کام حرم کی حدود میں یا مسجد حرام میں کیے جائیں تو ایک جرم دو جرموں کی صورت اختیار کرجاتا ہے ایک گناہ کا ارتکاب اور دوسرا مسجدِحرام کی حرمت کو پامال کرنا۔ یہ دونوں جرم مل کر اس گناہ کے کرنے والے کو عذاب الیم کا مستحق قرار دے دیتے ہیں۔ اس گھر کی عظمت کا عالم یہ ہے کہ وہاں کے قدرتی درختوں کا کاٹا نہیں جاسکتا وہاں کی خود رو گھاس اکھاڑی نہیں جاسکتی وہاں کے پرندوں اور دوسرے جانوروں کا شکار نہیں کیا جاسکتا اور نہ شکار کی غرض سے انھیں باہر بھگایا جاسکتا ہے۔ صرف موذی جانور مارے جاسکتے ہیں۔ وہاں کی کوئی گری پڑی چیز بھی اٹھانا ممنوع ہے۔ اس سے بڑھ کر عظمت اور کیا ہوگی کہ کوئی شخص احرام باندھے بغیر حرم کی حدود میں داخل نہیں ہوسکتا۔ بجز ان لوگوں کے جو بار بار اپنی ڈیوٹی انجام دینے کے لیے آنے پر مجبور ہیں۔ اللہ کے گھر کی عظمت کے سامنے اللہ نے اپنے بندوں کو اس طرح بےبس بنایا ہے کہ اگر کسی کے باپ کا قاتل بھی حدود حرم میں پناہ لے لے تو اس کے گریبان پر ہاتھ نہیں ڈالا جاسکتا جب تک وہ خود حدود حرم سے باہر نہ نکلے اسے سزا نہیں دی جاسکتی۔ مسلمانوں کو پابند کردیا گیا ہے کہ وہ کبھی بھی حرم میں جنگ نہیں کرسکتے۔ ابتدائے آفرینش سے اللہ نے اسے اپنی حرمت سے حرام ٹھہرایا ہے۔ کوئی شخص جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کے لیے یہ حلال نہیں کہ یہاں خون بہائے۔ آنحضرت ﷺ کے لیے ایک ساعت کی حدتک اس گھر کو حلال کیا گیا تھا۔ پھر اس کی حرمت بحال کردی گئی جو قیامت تک قائم رہے گی۔ ایک صورت یہ ہے کہ یہاں ظلم الحاد سے بدل واقع ہوا ہے اور قرآن کریم نے مختلف مواقع پر ظلم کو شرک کے معنی میں استعمال کیا ہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس آیت میں الحاد سے مراد شرک ہے اور اس کے گناہ عظیم ہونے بلکہ بغاوت قرار دیئے جانے میں کوئی شبہ نہیں۔ جو شخص یا جو قوم اللہ کے گھر میں شرک کی اجازت دے گی یا اس کو فروغ دے گی جس طرح قریش نے اللہ کے گھر کو توحید کا مرکز بنانے کی بجائے بت پرستی کا مرکز بنادیا تھا اور تین سو ساٹھ بت لاکر صحن کعبہ میں نصب کردئیے گئے تھے۔ یہ ایک ایسا الحاد اور کج روی تھی جس پر اللہ تعالیٰ نے عذاب الیم کی خبر دی ہے۔ اس میں ایک طرح سے قریش کو وارننگ دی گئی ہے کہ تم اپنے کرتوتوں کے باعث اب زیادہ دیر تک برداشت نہیں کیے جاؤ گے اور دوسری طرف مسلمانوں کی غیرت کو انگیخت کیا گیا ہے کہ قریش مکہ نے چونکہ اللہ کے گھر کی عظمت کو پامال کردیا ہے اور ان مقاصد کو تباہ کرکے رکھ دیا گیا ہے جن کے لیے بیت اللہ کو بنایا گیا تھا اب یہ تمہاری ذمہ داری ہے کہ تم بیت اللہ کی اصل حیثیت اور عظمت کو بحال کرو۔
Top