Ruh-ul-Quran - Al-Hajj : 29
ثُمَّ لْیَقْضُوْا تَفَثَهُمْ وَ لْیُوْفُوْا نُذُوْرَهُمْ وَ لْیَطَّوَّفُوْا بِالْبَیْتِ الْعَتِیْقِ
ثُمَّ : پھر لْيَقْضُوْا : چاہیے کہ دور کریں تَفَثَهُمْ : اپنا میل کچیل وَلْيُوْفُوْا : اور پوری کریں نُذُوْرَهُمْ : اپنی نذریں وَلْيَطَّوَّفُوْا : اور طواف کریں بِالْبَيْتِ الْعَتِيْقِ : قدیم گھر
پھر وہ اپنے میل کچیل دور کریں، اپنی نذریں پوری کریں اور بیت عتیق کا طواف کریں۔
ثُمَّ لْیَقْضُوْا تَفَثَھُمْ وَلْیُوْفُوْا نُذُوْرَھُمْ وَلْیَطَّوَّفُوْا بِالْبَیْتِ الْعَتِیْقِ ۔ (الحج : 29) (پھر وہ اپنے میل کچیل دور کریں، اپنی نذریں پوری کریں اور بیت عتیق کا طواف کریں۔ ) تفث کے معنی ” میل کچیل “ کے ہیں۔ اور قضٰی کا معنی ہے اَزََالَ یعنی ” میل کچیل دور کرنا “۔ حج کے آخری مناسک آٹھ ذوالحج کو منیٰ میں پانچ نمازوں کی ادائیگی اور شب بسری، نو ذوالحج کو عرفات کا وقوف اور پھر مزدلفہ میں رات کا قیام اور دس تاریخ کو قربانی دینے کے بعد حج کے مناسک ادا کرنے والے کو احرام کھولنے کی اجازت مل جاتی ہے۔ گزشتہ دو دنوں کی بھاگ دوڑ اور مناسکِ حج کی ادائیگی کی مصروفیت میں احرام کی چادریں گندی ہوجاتی ہیں، جسم پر میل جم جاتا ہے، بال گرد آلود ہوجاتے ہیں۔ مناسکِ حج کی ادائیگی کے دوران تو ضروری تھا کہ حاجی دیوانہ صفت ہر طرح کے تکلفات سے دور ان تمام جگہوں میں اللہ کی یاد اور حج کے احکام کی ادائیگی میں اس طرح مصروف رہتا کہ اسے بندگی کے سوا کسی اور چیز کا ہوش ہی نہ ہوتا۔ لیکن اب جبکہ حج کے اکثرمناسک ادا ہوگئے اور قربانی بھی دے دی گئی تو اب مناسب ہے کہ وہ نہا دھو کر کپڑے بدلے اور عام معمول کی زندگی اختیار کرے۔ لیکن اس کے طرز عمل سے اب بھی یہ اظہار ہونا چاہیے کہ اس کی دیوانگی بھی اللہ کے لیے ہے اور اس کی فرزانگی بھی اللہ کی خاطر ہے۔ پہلے اس کی خستہ حالی اور پراگندہ بالی اللہ کو پسند تھی اب اس کا صاف ستھرا لباس اور نہایادھویا جسم اللہ کو مطلوب ہے۔ اب معمول کا لباس پہن کر اسے بیت عتیق کے طواف کے لیے نکلنا چاہیے اور اس طواف سے مراد طوافِ زیارت ہے جو حج کے ارکان میں سے ایک رکن ہے۔ افعالِ حج کی جو ترتیب قرآن و حدیث سے معلوم ہوتی ہے، امام ابوحنیفہ اور امام مالک کے نزدیک تو اس کی پابندی واجب ہے اور اس کے خلاف کرنے والے پر ایک دَمِ جنایت لازم آتا ہے۔ البتہ ! امامِ شافعی کے نزدیک سنت ہے۔ البتہ ! ان کے نزدیک بھی اس کے خلاف کرنے سے ثواب میں کمی ہوتی ہے مگر دَم لازم نہیں ہوتا۔ حضرت عبداللہ ابن عباس ( رض) کی حدیث میں ہے۔ من قد ّم شیئا من نسکہ او اخرہ فلیھرق دماً رواہ ابن شیبۃ موقوفاً وھو حکم المرفوع (مظہری) ” جس شخص نے افعالِ حج میں سے کسی کو مقدم یا مؤخر کردیا اس پر لازم ہے کہ ایک دَم دے۔ “ نذر کا مفہوم وَلْیُوْفُوْا نُذُوْرَھُمْ ” اور وہ اپنی نذریں پوری کریں “۔ نذور، نذر کی جمع ہے۔ جس کو اردو میں ” منت “ کہا جاتا ہے۔ اس کی حقیقت یہ ہے کہ جو کام شرع میں کسی شخص پر واجب نہیں تھا وہ اگر زبان سے یہ نذر کرلے اور منت مان لے کہ میں یہ کام کروں گا تو یہ ” نذر “ ہوجاتی ہے اور اگر ایسا کام کرنا شرعاً گناہ نہ ہو تو اس کا پورا کرنا واجب ہوجاتا ہے اور اگر وہ کام گناہ ہو تو پھر اس کا پورا کرنا نہ صرف یہ کہ جائز نہیں بلکہ اس کے خلاف کرنا ضروری ہے۔ البتہ ! اس صورت میں چونکہ نذر ٹوٹ جائے گی تو اس کا کفارہ دینا لازم ہوگا۔ یہ بھی یاد رہے کہ صرف دل میں کسی کام کے کرنے کا ارادہ کرنے سے نذر نہیں ہوتی۔ جب تک زبان سے الفاظ ادا نہ کیے جائیں۔ حضرت عبداللہ ابن عباس نے تو اس نذر سے قربانی ہی مراد لی ہے۔ لیکن جمہور کی رائے یہ ہے کہ اس سے عام نذریں مراد ہیں۔ بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ جب دیکھتے ہیں کہ ایام حج عام ایام کی نسبت زیادہ بابرکت اور زیادہ تقویٰ کے حامل ہیں اور اس میں اعمالِ خیر کے اجروثواب کا تناسب بہت بڑھ جاتا ہے۔ تو وہ احرام سے فارغ ہو کر بعض مزید نیکیوں کے لیے نذر مان لیتے ہیں۔ تو ایسی نذروں کا پورا کیا جانا ضروری ہے۔ وَلْیَطَّوَّفُوْا بِالْبَیْتِ الْعَتِیْقِ.... وہ بیت عتیق کا طواف کریں۔ اس سے طوافِ زیارت مراد ہے۔ یہ چونکہ ارکانِ حج میں سے آخری رکن ہے۔ اس کی ادائیگی کے بعد احرام کی پابندیاں مکمل طور پر ختم ہوجاتی ہیں۔ قربانی کے بعد حاجی احرام کھول دیتا ہے اور وہ ہر جائز کام کرنے کا مجاز ہوجاتا ہے لیکن اپنی بیوی سے مباشرت نہیں کرسکتا۔ اس کی اجازت طوافِ زیارت کے بعد ہوتی ہے۔ اس طواف کے بعد حج مکمل ہوجاتا ہے۔ اب صرف جمرات پر رمی کرنی ہے اور پھر روانگی سے پہلے طوافِ وداع کرنا ہے۔ بیتِ عتیق آیت میں ” بیت عتیق “ کہا گیا ہے۔ اس کا ایک معنی ہے ” قدیم “۔ اس معنی کے حوالے سے اس سے مراد یہ ہے کہ دنیا کی تمام عبادت گاہوں میں یہ سب سے پرانی عبادت گاہ اور پرانا معبد ہے کیونکہ دنیا میں اللہ کا دوسرا گھر بیت المقدس یا مسجد اقصیٰ کے نام سے معروف ہے اور سب اہل علم جانتے ہیں کہ وہ اس گھر کی تعمیر سے صدیوں بعد حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے تعمیر کیا تھا۔ بقول حالی ؎ وہ دنیا میں گھر سب سے پہلا خدا کا خلیل ایک معمار تھا جس بنا کا ازل سے مشیت نے تھا جس کو تاکا کہ ُ ابلے کا یاں سے وہ چشمہ ھدیٰ کا ” عتیق “ کا دوسرا معنی ” آزاد “ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ اللہ کا گھر ایسا ہے جس پر کبھی دشمنانِ خدا غالب نہیں آسکیں گے۔ بیت المقدس بھی اللہ کا گھر ہے، لیکن وہاں کی تاریخ نے بہت سے انقلابات دیکھے ہیں۔ کتنی دفعہ وہ گھر مکمل طور پر تباہ کیا گیا ہے اور ہیکل سلیمانی جسے حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے تعمیر کیا تھا۔ بختِ نصر کی تباہی کے بعد اگرچہ اسے ازسرنو بنایا گیا تھا، لیکن دوسری تباہی کے بعد جو رومیوں کے ہاتھوں ہوئی پھر دوبارہ تعمیر نہ ہوسکا۔ لیکن اللہ کا یہ گھر (اللہ اسے اپنی حفاظت میں رکھے) آج تک کبھی دشمنوں کے ہاتھوں مسمار نہیں ہوا۔ جب کبھی اسے گرایا گیا تو دوبارہ بنانے کے لیے گرایا گیا اور جب ایک دفعہ ابرہہ نے بہت بڑی قوت ساتھ لے کر اسے مٹا دینے کی کوشش کی تو اللہ تعالیٰ نے پرندوں کے ذریعے اسے مٹا دیا۔ اب اگرچہ حالات انتہائی ناگفتہ بہ ہیں لیکن یہ بات طے ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے گھر کی ہمیشہ حفاظت کرے گا۔
Top