Ruh-ul-Quran - Al-Hajj : 34
وَ لِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا لِّیَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلٰى مَا رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِیْمَةِ الْاَنْعَامِ١ؕ فَاِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ فَلَهٗۤ اَسْلِمُوْا١ؕ وَ بَشِّرِ الْمُخْبِتِیْنَۙ
وَ : اور لِكُلِّ اُمَّةٍ : ہر امت کے لیے جَعَلْنَا : ہم نے مقرر کی مَنْسَكًا : قربانی لِّيَذْكُرُوا : تاکہ وہ لیں اسْمَ اللّٰهِ : اللہ کا نام عَلٰي : پر مَا رَزَقَهُمْ : جو ہم نے دئیے انہیں مِّنْ : سے بَهِيْمَةِ : چوپائے الْاَنْعَامِ : مویشی فَاِلٰهُكُمْ : پس تمہارا معبود اِلٰهٌ وَّاحِدٌ : معبودِ یکتا فَلَهٗٓ : پس اس کے اَسْلِمُوْا : فرمانبردار ہوجاؤ وَبَشِّرِ : اور خوشخبری دیں الْمُخْبِتِيْنَ : عاجزی سے گردن جھکانے والے
(اور ہم نے ہر امت کے لیے قربانی مقرر کی ہے تاکہ اللہ نے ان کو جو چوپائے بخشے ہیں ان پر وہ اللہ کا نام لیں۔ پس تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے۔ تو اسی کے آگے سرجھکائو۔ اور اے پیغمبر ! بشارت دے دیجیے عاجزانہ روش اختیار کرنے والوں کو۔
وَلِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَکًا لِّیَذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ عَلٰی مَا رَزَقَھُمْ مِنْ م بَھِیْمَۃِ الْاَنْعَامِط فَاِلٰھُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ فَلَہٗٓ اَسْلِمُوْا ط وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِیْنَ ۔ لا الَّذِیْنَ اِذَاذُکِرَاللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُھُمْ وَالصّٰبِرِیْنَ عَلٰی مَآ اَصَابَھُمْ وَالْمُقِیْمِی الصَّلٰوۃِ لا وَمِمَّارَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ ۔ (الحج : 34، 35) (اور ہم نے ہر امت کے لیے قربانی مقرر کی ہے تاکہ اللہ نے ان کو جو چوپائے بخشے ہیں ان پر وہ اللہ کا نام لیں۔ پس تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے۔ تو اسی کے آگے سرجھکائو۔ اور اے پیغمبر ! بشارت دے دیجیے عاجزانہ روش اختیار کرنے والوں کو۔ جن کا حال یہ ہے کہ جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں اور ان کو جو مصیبت پہنچتی ہے اس پر صبر کرنے والے ہیں۔ اور نماز کا اہتمام رکھنے والے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ ) قربانی کی قدامت اس کی اہمیت کی دلیل ہے قربانی کا ذکر اگرچہ اس سے پہلے بھی ہوچکا ہے لیکن پیش نظر آیت کریمہ میں یہ تأثر دینا مقصود ہے کہ قربانی کا حکم صرف اس آخری امت کو نہیں دیا جارہا بلکہ یہ ایک ایسا حکم ہے جس سے ہر امت گراں بار رہی ہے۔ یعنی اصلاحِ عقائد اور فکری سلامتی کے لیے باقی احکام کے ساتھ ساتھ قربانی بھی نہائت موثر عامل کے طور پر پہلی امتوں کی شریعتوں میں بھی موجود رہی ہے اور اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ تورات میں بھی اور قرآن کریم میں بھی حضرت آدم (علیہ السلام) کے دو بیٹوں کی قربانی کا ذکر کیا گیا ہے۔ جن میں سے ایک کی قربانی قبول کی گئی اور دوسرے کی قبول نہیں کی گئی۔ دوسری بات اس آیت کریمہ میں یہ فرمائی گئی ہے کہ قربانی کا حکم ہر امت کو دیا گیا ہے۔ اس ہدایت کے ساتھ کہ اللہ نے انھیں جو چوپائے بخشے ہیں ان پر اظہارِ شکر کے لیے ـــضروری ہے کہ اللہ ہی کے نام پر انھیں ذبح کیا جائے۔ اگر ان کو ذبح کرتے ہوئے اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا یا اللہ کے سوا کسی اور کے نام سے انھیں منسوب کردیا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ چوپایوں کا پیدا کرنے والا اور انسانوں کو عطا کرنے والا صرف اللہ نہیں بلکہ اور بھی شرکاء اس کے ساتھ شامل ہیں۔ جبکہ ہر وہ شخص جس کے دماغ میں عقل ہے کبھی اس غلط فہمی کا شکار نہیں ہوسکتا کہ مخلوقات کی تخلیق میں اللہ کے ساتھ کوئی اور بھی شریک ہے۔ اس آیت کریمہ میں قربانی کے لیے ” منسک “ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ منسک کا معنی مجاہد نے یہ کیا ہے ” الذبح واراقۃ الدم “ یعنی ” ذبح کرنا اور خون بہانا “۔ جب کوئی شخص ذبح کرتا ہے تو کہا جاتا ہے۔” نَسَکَ یَنْسُکُ نَسکاً “ اور جو جانور ذبح کیا جائے اس کو نسی کہ کہتے ہیں۔ اس کی جمع ” نُسُک “ ہے۔ اس حکم کی عمومیت کو دیکھتے ہوئے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد صرف حج پر دی جانے والی قربانی نہیں بلکہ تمام وہ قربانیاں اس میں شامل ہیں، جو پوری امت میں دی جاتی ہیں۔ اسی لیے نبی کریم ﷺ نے مدینہ طیبہ کے دس سالہ قیام میں ہر سال قربانی دی۔ ازواجِ مطہرات بقدر ہمت قربانی دیتی رہیں۔ صحابہ کرام کو نہ صرف قربانی دینے کا حکم دیا گیا بلکہ اس کے مسائل بھی بیان کیے گئے اور یہ بھی بتایا گیا کہ قربانی نماز کے بعد ہوتی ہے۔ جس نے پہلے قربانی دے دی اس کی قربانی ادا نہیں ہوئی اور چودہ صدیوں میں اس حکم کی تعمیل میں کبھی انقطاع نہیں ہوا۔ یہ حکم امت میں تعامل کے طور پر زندہ رہا۔ تیسری چیز اس آیت کریمہ میں یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ جس طرح تمہارا خالق ایک ہے اور تمہارے جانوروں کا خالق ایک ہے اسی طرح تمہارا الٰہ بھی ایک ہے۔ اس کے سوا نہ کسی کو تحلیل وتحریم کا حق ہے اور نہ اس کی عطا کردہ نعمتوں میں کوئی اور دخیل ہوسکتا ہے۔ جس طرح نماز صرف اسی کی پڑھی جاسکتی ہے اور روزہ صرف اسی کا رکھا جاسکتا ہے اسی طرح قربانی بھی صرف اسی کی دی جاسکتی ہے۔ اس میں بھی کسی دوسرے کو شریک نہیں کیا جاسکتا۔ پس پوری یکسوئی آمادگی اور خوش دلی کے ساتھ اپنے آپ کو اسی کے حوالے کردوکیون کہ ہر عبادت کی اصل روح سب کچھ اللہ کے حوالے کردینا اور قربان کردینا ہے۔ جو شخص اپنا سب کچھ اللہ پر قربان کردیتا ہے اور وہ اللہ کی بندگی کی خاطر ہر چیز سے دستبردار ہوجاتا ہے۔ یہی لوگ ہیں جن کا حقیقی تعلق اللہ کے ساتھ قائم ہوتا ہے چناچہ ایسے ہی لوگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِیْنَ..... ” اور مخبتین کو بشارت دے دو “۔ پست اور نشیبی زمین کو عربی زبان میں ” الخبت “ کہتے ہیں۔ اسی سے ” اخبات “ ہے۔ جس کا معنی ” فروتنی، تذلل اور تواضع کا اظہار “ ہے۔ اسلام کی اصل روح اخبات ہی ہے یعنی اسلام کی تعلیمات کا حاصل یہ ہے کہ ایک مسلم کا دل اپنے رب کے سامنے اس طرح جھک جائے کہ جس میں سوائے عاجزی اور فروتنی کے اور کچھ نہ ہو۔ اس عاجزی اور فروتنی سے جو صفات جنم لیتی ہیں، قرآن کریم نے نہایت فصاحت و بلاغت سے ان کا ذکر فرمادیا ہے۔ ارشاد فرمایا کہ ایسی عاجزی والے وہ لوگ ہیں کہ جب ان کے سامنے اللہ کا نام لیا جاتا ہے اور اس کی کتاب کی آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں۔ تو ان کے دل دہل اٹھتے ہیں۔ یہ تصور ہی ان کے کپکپا دینے کے لیے کافی ہے کہ یہ اس ذات کا کلام اور اس کے احکام ہیں جو ساری کائنات کا خالق ومالک ہے۔ جس کے ایک حکم سے ہر چیز میں زندگی پیدا ہوتی اور اس کے ایک حکم سے موت طاری ہوسکتی ہے۔ وہ چاہے تو سمندر پایاب ہوجائیں اور اس کے ایک اشارے سے سورج بےنور ہوجائے، اور اس کے راستے پر چلنے والے اس اخلاص سے اس کے دین کی سربلندی کے لیے کام کرتے ہیں کہ بڑی سے بڑی رکاوٹ اور بڑے سے بڑا حادثہ ان کے حوصلوں کو شکست نہیں دے سکتا۔ ہر آنے والی مصیبت کا وہ صبر سے سامنا کرتے اور نہائت ہمت سے اسے برداشت کرتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ جس نے سب کچھ عطا کیا ہے اسے یقینا یہ استحقاق حاصل ہے کہ سب کچھ اس کی خوشنودی کے لیے جھونک دیاجائے۔ وہ اسی کی یاد اور اسی سے کیے ہوئے عہد کے ایفا کے لیے ہمیشہ نماز کا اہتمام کرتے ہیں۔ وہ جس طرح صبر سے مصائب کا سامنا کرتے ہیں اسی طرح وہ ہر طرح کے حالات میں اللہ ہی سے مدد کے طلب گار ہوتے ہیں۔ ان کا قیام اور ان کا رکوع و سجود اسی کی ذات کے لیے وقف ہوتا ہے اور زندگی کی نعمتوں میں جو کچھ انھیں ملتا ہے وہ اسے اللہ کی امانت سمجھتے ہیں اور اسی کے راستے میں انھیں خرچ کردینے کو امانت کی ادائیگی سمجھتے ہیں۔ اللہ کے سامنے ایسا عجز جس میں ہر چیز پر اس کی مہر لگ جائے اور اس کے ساتھ ایسا مضبوط تعلق جو نماز کی تصویر بن جائے اور اس کے دین کی سربلندی کے لیے ایسی تگ ودو کہ صبر اس کا ہتھیار بن جائے اور مال و دولت کا ایسا انفاق جو قربانی کا عنوان بن جائے یہی درحقیقت قربانی کی حقیقی روح اور اس کی مشروعیت کا حقیقی مقصد ہے۔
Top