Ruh-ul-Quran - Al-Hajj : 39
اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا١ؕ وَ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى نَصْرِهِمْ لَقَدِیْرُۙ
اُذِنَ : اذن دیا گیا لِلَّذِيْنَ : ان لوگوں کو يُقٰتَلُوْنَ : جن سے لڑتے ہیں بِاَنَّهُمْ : کیونکہ وہ ظُلِمُوْا : ان پر ظلم کیا گیا وَاِنَّ : اور بیشک اللّٰهَ : اللہ عَلٰي نَصْرِهِمْ : ان کی مدد پر لَقَدِيْرُ : ضرور قدرت رکھتا ہے
(اجازت دے دی گئی ان لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جارہی ہے۔ اس سبب سے کہ ان پر ظلم ہوا اور اللہ یقینا ان کی مدد پر قادر ہے۔
اُذِنَ لِلَّـذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّھُمْ ظُلِمُوْا ط وَاِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصْرِھِمْ لَقَدِیْرُنِ ۔ لا الَّذِ یْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ بِغَیْرِحَقٍّ اِلَّآ اَنْ یَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ط وَلَوْ لَادَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لَّھُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ وَّصَلَوٰتٌ وَّمَسٰجِدُ یُذْکَرُفِیْھَااسْمُ اللّٰہِ کَثِیْرًاط وَلَیَنْصُرَنَّ اللّٰہُ مَنْ یَّنْصُرُہٗ ط اِنَّ اللّٰہَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌ۔ (الحج : 39، 40) (اجازت دے دی گئی ان لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جارہی ہے۔ اس سبب سے کہ ان پر ظلم ہوا اور اللہ یقینا ان کی مدد پر قادر ہے۔ جو لوگ اپنے گھروں سے ناحق نکال دیئے گئے صرف اس جرم میں کہ وہ کہتے تھے کہ ہمارا رب اللہ ہے۔ اور اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتارہتا تو تمام خانقاہیں، گرجے، کنیسے اور مسجدیں جن میں اللہ کا کثرت سے نام لیا جاتا ہے سب مسمار کردیئے جاتے۔ اور بیشک اللہ ان لوگوں کی مدد فرمائے گا جو اس کی مدد کریں گے۔ بیشک اللہ قوی اور غالب ہے۔ ) مسلمانوں کو جہاد کی اجازت نبیِ کریم ﷺ نے کوہ صفا پر کھڑے ہو کر جب اپنی قوم کو اللہ کی توحید کی دعوت دی اور انھیں یاد دلایا کہ تمہیں اللہ نے اس زمین پر ایک خاص مقصد کے لیے پیدا فرمایا ہے اور تمہاری اس زمین پر ایک خاص حیثیت ہے اور اس حیثیت کے مطابق تم ذمہ داریاں ادا کرنے کے پابند ٹھہرائے گئے ہو۔ ایک دن ایسا آنے والا ہے جب تمہاری مقصدی اور منصبی ذمہ داریوں کے حوالے سے تم سے جواب طلب کیا جائے گا۔ زندگی جیسی قیمتی نعمت سے فائدہ اٹھانے کے حوالے سے ایک ایک لمحے کا حساب ہوگا اور تمہیں جو ضابطہ حیات عطا کیا گیا ہے اس کے ایک ایک حکم پر عمل کے حوالے سے نامہ عمل دیکھا جائے گا۔ اہل مکہ نے جیسے ہی آنحضرت ﷺ کی اس طرح کی باتیں سنیں اور ان کی دعوت کا جائزہ لیا تو چند سعید لوگوں کے سوا باقی لوگوں نے بجائے اسے قبول کرنے کے اپنے لیے اسے دشمنی کا پیغام سمجھا۔ جب انھیں بتایا گیا کہ تم اپنے آپ کو حضرت ابراہیم کی اولاد اور ملت ابراہیم کا وارث سمجھتے ہو جبکہ اس کی بنیاد توحید تھی اور اللہ کا یہ گھر اسی توحید کا مرکز بنایا گیا تھا اور یہیں سے ایک امت مسلمہ کے اٹھائے جانے اور آخری رسول کے مبعوث کیے جانے کی دعائیں کی گئی تھیں۔ لیکن تم نے اس پوری تاریخ کو بدل کر شرک کی بنا ڈالی ہے۔ توحید کے مرکز کو تیرتھ یاترا میں تبدیل کردیا ہے۔ جہاں صرف اللہ کی عبادت ہوتی تھی وہاں تم نے بت پرستی کو رواج دیا ہے۔ تم نے نہ صرف ابراہیم کے نام کو بٹہ لگایا بلکہ ملت ابراہیم کے پرخچے اڑا دیئے۔ تو وہ بجائے اس کے کہ اپنے جرائم کو سمجھتے اور اپنی غلطیوں کا ادراک کرتے انھوں نے اسے اپنے اور اپنے آبائو اجداد پر ایک الزام سمجھا اور وہ آنحضرت ﷺ اور مسلمانوں کی دشمنی پر تل گئے اور رفتہ رفتہ ان کی یہ دشمنی شرافت کی تمام حدود سے نکل گئی۔ قرابت داری کو بھول گئے، قبائل کے آداب کو بھی نظر انداز کردیا اور اس حدتک مسلمانوں پر مشق ستم کی کہ ظلم اور بربریت کا کوئی ایسا زخم نہیں جو مسلمانوں کو نہ لگایا گیا ہو۔ دہکتے انگاروں پر اسلام کے جانثاروں کو لٹایا گیا، تپتی ہوئی چٹانوں پر ننگے جسموں کو گھسیٹا گیا، آگ کی دھونی دی گئی، تلواروں اور تیغوں کے زخم لگائے گئے۔ ابو جہل جیسے بدقماش انسان نے ایک مومنہ کے اندامِ نہانی میں نیزہ مار کر اسے قتل کردیا۔ آنحضرت ﷺ کے قتل کے منصوبے باندھے جانے لگے۔ مسلمانوں نے روز روز کی اس اذیت رسانی سے نجات حاصل کرنے اور آزادی سے اللہ کا نام لینے کے لیے مکہ سے ہجرت کی تو مکہ کے ظالموں نے مدینہ منورہ میں بھی ان کا پیچھا نہ چھوڑا۔ چراگاہوں پر شب خون مارے جانے لگے، جو جانور ہاتھ آتے انھیں لے اڑتے اور اکاد کا محافظوں کو قتل کرکے بھاگ جاتے۔ مسلمان مسلسل مکہ معظمہ میں تیرہ سالوں تک ان قیامتوں کا سامنا کرتے رہے۔ بڑی سے بڑی مصیبت پر صبر کی تصویر بنے اللہ کی رضا کو دیکھتے رہے۔ اب جبکہ ہجرت کے بعد اللہ نے مسلمانوں کو ایک مرکز عطا فرمایا اور مسلمانوں کی ایک تنظیمی ہیئت وجود میں آئی تو مسلمانوں میں بیت اللہ سے محرومی کا ایک شدید احساس پیدا ہونے لگا اور قریش کے مظالم کے خلاف ردعمل نے ایک اضطراب کی شکل اختیار کرلی اور دلوں میں یہ بات مچلنے لگی کہ کاش ! اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں قتال کی اجازت ہوتی تو ہم اللہ تعالیٰ کے گھر کو واگزار کراتے اور ظالموں سے ظلم کا انتقام لیتے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے ان احساسات کی قدر فرمائی اور مسلمانوں کی شیرازہ بندی، امیر کی اطاعت اور مرکز اسلام جیسی بنیادی ضرورتوں کے پورا ہوجانے کے بعد قتال کی اجازت دے دی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پیش نظر آیت کریمہ میں صرف اجازت دی گئی ہے تاکہ مسلمان اس کے لیے تیاری کی فکر کریں اور اس بات کا اطمینان رکھیں کہ اجازت مل جانے کے بعد عملی طور پر قتال کا حکم اب بہت دور نہیں۔ بعض اہل علم کی تحقیق کے مطابق یہ آیت کریمہ ذی الحج ایک ہجری میں نازل ہوئی اور قتال کا حکم جنگ بدر سے کچھ پہلے رجب یا شعبان دوہجری میں نازل ہوگیا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح پہلے صرف اجازت دی گئی تاکہ طبیعتوں کا اضطراب ختم ہو اور ولولوں کی دنیا آباد ہونے لگے اسی طرح جب قتال کا حکم آیا تو پہلے صرف دفاعی جنگ کی اجازت دی گئی اور ارشاد فرمایا : وَقَا تِلُوا فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُو نَکُم ” تم اللہ کے راستے میں ان لوگوں سے لڑوجو تم سے لڑتے ہیں “۔ پھر حکم آیا : کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِتَالُ وَھُوَ کَرْہٌ لَّکُمْ ” تم پر قتال فرض کردیا گیا ہے حالانکہ وہ تمہارے لیے ناپسندیدہ ہے “ اور فتح مکہ کے بعد حکم نازل ہوا وَاقْتُلُوھُمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوھُم ” اور انھیں قتل کرو جہاں بھی انھیں پائو “۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ملی نقطہ نگاہ سے جیسے جیسے ضرورت پیدا ہوتی گئی ویسے ویسے جنگ کے حکم میں بھی وسعت آتی گئی ہے اور اب جبکہ تکمیلِ دین ہوچکی اور جہاد و قتال کے تمام احکام سامنے آگئے تو اب یہ بحثیں بےکار ہیں کہ جنگ دفاعی ہونی چاہیے یا اقدامی ؟ اسلام نے کیا ایک کی اجازت دی ہے یا دونوں کی ؟ جو شخص بھی کھلے دل و دماغ سے قرآن کریم کو پڑھے گا اسے صاف نظر آئے گا کہ حالات کے مطابق اللہ تعالیٰ نے کفر کی طاقت توڑنے اور کبھی ظالم کا ہاتھ روکنے کے لیے ہر طرح کی جنگ کی اجازت دی ہے۔ اجازت کا سبب یہ بات بھی واضح کردی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت کیوں دی ہے۔ مسلمان اپنی جان اور ایمان بچا کر اور سب کچھ اس کے راستے میں قربان کرکے اپنے وطن اور اپنے گھروں سے نکلے تھے۔ لیکن ان ظالموں نے مدینہ میں بھی ان کو آرام سے بیٹھنے نہ دیا۔ باربار حملے کرتے، چراگاہیں لوٹتے، اکاد کا لوگوں کو قتل کرتے، اور ساتھ ہی ساتھ مدینہ کے سربرآوردہ لوگوں کو اکساتے کہ یہ مسلمان ہمارے بھگوڑے ہیں انھیں مدینہ سے نکال دو ورنہ ہم تمہارے خلاف بھی طاقت استعمال کریں گے۔ عبداللہ بن ابی کو نہایت تہدیدآمیز خط لکھا گیا۔ کعب بن اشرف کے ساتھ سازش کا تانا بانابنا گیا۔ چناچہ انہی باتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ ان لوگوں کو اجازت دے دی گئی ہے جن سے کفار مکہ لڑائی کرنا چاہتے ہیں اور آرام سے بیٹھنے نہیں دیتے اور جنھیں برسوں تک ـظلم کا نشانہ بنایا گیا۔ مسلمان اگرچہ نبی کریم ﷺ کی قیادت میں نہایت تیزی سے ایک امت کی شکل اختیار کرتے جارہے تھے۔ انھیں نہایت بےدار مغز اور صالح قیادت میسر تھی۔ مدینہ کی بستی ان کے لیے ایک مرکز کی شکل اختیار کرچکی تھی۔ مسلمانوں کا ایک ایک فرد اپنے اندر حیات افروز اولوالعزمیوں سے مامور دنیا آباد کرچکا تھا۔ ان میں سے ہر شخص اپنے تئیں ایک انجمن تھا۔ وہ نفع و ضرر کے پرانے پیمانوں سے رشتہ توڑ چکے تھے۔ آنحضرت ﷺ کا کامل اتباع اور اللہ پر بھروسہ اور اعتماد ان کی زندگی کا عنوان بن چکا تھا۔ ان تمام باتوں کے باوجود وہ بہرحال جنگ کی تباہ کاریوں کا سامنا کرنے کی بظاہر ہمت نہیں رکھتے تھے۔ مدینہ ایک قصبہ سے زیادہ وسعت نہیں رکھتا تھا۔ اس کے وسائل نہایت محدود تھے۔ مسلمانوں کی افرادی قوت کسی بڑے طوفان کا سامنا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی تھی۔ ان کے معاشی ذرائع اس قابل نہ تھے کہ وہ کسی جنگ کا بوجھ اٹھا سکتے۔ قریش مکہ شائد ان کی ظاہری حالت کو دیکھ کر دلیر ہوئے جارہے تھے۔ پروردگار نے اس پوری صورتحال کو ایک جملے کے ساتھ الٹ ڈالا کہ قریش اور دشمنوں کی نگاہ میں صرف مسلمانوں کی ظاہری حالت ہے اور وہ انھیں کے حالات کو دیکھتے ہوئے اپنی دشمنی اور ایذا رسانی کو وسعت دیتے جارہے ہیں۔ لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ مسلمان تو خدائی فوجدار ہیں۔ وہ بتوں سے تعلق توڑ چکے، قبیلوں سے منہ موڑ چکے، اور بڑی سے بڑی قوت کو پائوں کی ٹھوکر سے اچھال چکے، اور ایک نئی زندگی کے پیامبر بن کر اٹھے ہیں۔ اس لیے ان کی پشت پر دنیا کی بیشک کوئی قوت نہیں لیکن وہ جس کے نام اور جس کے پیغام کے لیے سب کچھ قربان کرچکے ہیں وہ ان کی پشت پر ہے اور اس نے یہ ذمہ داری لے لی ہے کہ ہم مسلمانوں کی مدافعت کریں گے۔ اس میں مسلمانوں کو حد درجہ اطمینان دلایا گیا ہے کہ تمہیں دشمن کی قوت سے اثر قبول کرنے کی ضرورت نہیں اللہ کی قوت تمہارے ساتھ ہے اور دشمن کو وارننگ دی گئی ہے کہ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ تمہاری لڑائی مسلمانوں سے نہیں بلکہ مسلمانوں کے خدا سے ہے اور ان کا خدا ان کی مدد کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ تم ساری دنیا کو بھی اپنے ساتھ شامل کرلو تو اللہ کی قدرت کا مقابلہ نہیں کرسکتے ہو۔ آیت کے آغاز میں فرمایا گیا ہے کہ جن لوگوں کو جنگ کی اجازت دی جارہی ہے یہ وہ لوگ ہیں جن پر اب تک ظلم کیا گیا ہے اور وہ اس ظلم کے ہاتھوں تنگ آکر اپنی جان اور ایمان بچانے کے لیے اپنے گھروں کو چھوڑ کر نکلے ہیں۔ اب دوسری آیت میں مسلمانوں پر کیے جانے والے مظالم کی وضاحت فرمائی گئی ہے۔ انسان کی فطرت یہ ہے کہ وہ بڑے سے بڑا ظلم برداشت کرلیتا ہے لیکن وہ حتی الامکان اپنا گھر چھوڑنا پسند نہیں کرتا۔ گھر انسان کی عزت کی علامت اور اس کی حفاظت کا حصار ہے۔ اس کے چھن جانے کے بعد آدمی کی کوئی پناہ گاہ نہیں رہتی۔ کوئی اس کا حوالہ نہیں رہتا۔ کسی کے گھر چھوڑدینے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے لیے زندہ رہنا ناممکن بنادیا گیا ہے۔ چناچہ صحابہ کرام کا اپنے گھروں اور وطن کو چھوڑنا ایسے ہی تمام مصائب کا نتیجہ تھا اور ایسے ہی بےپناہ مظالم تھے جس نے مسلمانوں کو ہجرت پر مجبور کیا تھا۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ ان سے وطن چھڑا لیا گیا، گھر چھین لیا گیا، لیکن ان کا کوئی قصور نہیں بتایا گیا کیونکہ وہ اپنے معاملات اور سیرت و کردار میں ان لوگوں سے ہزار ہا درجہ بہتر تھے، ان کا قصور اگر کوئی تھا تو صرف یہ کہ انھوں نے شرک کی تمام آلودگیوں سے منہ پھیر کر اور شرک کے ہر آستانے سے سر اٹھا کر صرف اللہ کو اپنا رب قرار دیا تھا۔ خونے نہ کردہ ایم وک سے را نہ کشتہ ایم جرمم ہمیں کہ عاشق روئے تو گشتہ ایم قریش خوب جانتے تھے کہ ربنا اللہ کہنے کا مطلب کیا ہے۔ اللہ کی ربوبیت کا یقین اللہ کے سوا ہر پرستش اور ہر اطاعت سے انسان کو آزا دکر دیتا ہے۔ اللہ کی ربوبیت کے فیضان میں چونکہ کوئی تخصیص نہیں اس کے سورج کی روشنی جس طرح محلات میں پہنچتی ہے اسی طرح غریب کے جھونپڑے کو بھی منور کرتی ہے، تو اس کی ربوبیت کا یقین رکھنے والا انسانوں میں ہر طرح کی تقسیم اور ہر طرح کے تفاوت سے بغاوت کردیتا ہے۔ اس لیے قریش خوب سمجھتے تھے کہ یہ بظاہر درویش صفت لوگ اپنے اندر کیسے طوفانوں کی طاقت رکھتے ہیں اور کس قدر بےپناہ تبدیلیوں کا پیغام بن کر اٹھے ہیں۔ جہاد کی حکمت وَلَوْ لَادَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَآیتِ کریمہ کے اس حصے میں اللہ تعالیٰ نے جہاد کی نہایت زریں حکمت بیان کی ہے اور اسی میں مسلمانوں کو قتال کی جو اجازت دی گئی ہے اس کی وجہ بھی ذکر کی گئی ہے۔ انسانی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ حق و باطل اور خیر وشر کی آویزش ہمیشہ انسانوں میں جاری رہی ہے۔ پہلے انسان حضرت آدم کو اللہ نے خیر کا نمائندہ بنا کر بھیجا تھا اور ان کے ساتھ ہی ابلیس خیر کی قوتوں کو ناکام کرنے اور شر کی تخم ریزی کے لیے زمین پر اترا تھا۔ ہر دور میں نبی آتے رہے اور خیر کی قوت کی نمائندگی اور اس کے احیاء کے لیے کوششیں کرتے رہے اور ابلیس نے ہمیشہ اپنے منفی کردار کے ذریعے نبوت کی کوششوں کو ناکام کرنے کے لیے ہر طرح کے حربوں سے کام لیا۔ برائی کے بڑے بڑے گروہ وجود میں آئے اور بعض دفعہ تخت وتاج کی قوتیں اس کے لیے استعمال ہوتی رہیں۔ جنھوں نے اپنی حکومت اور وسائل سے کام لے کر برائی کی قوتوں کو سرافراز کیا اور نیکی کے لیے جینا مشکل کردیا۔ خیر وشر کے اس امتیاز کو دیکھتے ہوئے بعض کمزور طبیعتوں نے رہبانیت اور ترک دنیا کا راستہ اختیار کیا اور اس طرح سے خیر کی قوتوں کو مزید کمزور کردیا۔ چناچہ اللہ کی زمین کو فساد سے بچانے اور انسانیت کو تباہی سے محفوظ کرنے کے لیے اللہ نے مختلف ادوار میں اپنے پیغمبروں کے ذریعے جہاد و قتال کا حکم دیاتا کہ ایسی شیطانی قوتوں کو جو بڑے بڑے دھڑوں کی صورت میں منظم ہوچکی ہیں اور بعض جگہ تخت پر متمکن ہو کر اپنے وسائل کو برائی کے پھیلانے اور نیکی کو ختم کرنے میں بروئے کار لارہی ہیں، سرنگوں کرنے کی کوشش کی جائے۔ چناچہ تاریخ کے مختلف ادوار میں ہم حق و باطل کی اس کشمکش کو حرب وضرب کی قوت میں ڈھلتا ہوا دیکھتے ہیں۔ اس میں اگر ایک طرف ہمیں فرعون اور نمرود اور ہامان اور شداد برائی کے نمائندوں کے طور پر نظر آتے ہیں تو دوسری طرف حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نبرد آزما دکھائی دیتے ہیں۔ حضرت طالوت حضرت دائود اور حضرت سلیمان کو خیر کے نمائندوں کی صورت میں خیر اور نیکی کو سربلند کرتے اور بدی کی قوتوں کو سرنگوں کرتا ہوا دیکھتے ہیں۔ یہی حق و باطل کی آویزش ہے جو مختلف ناموں سے ہمیشہ جاری رہی اور اسی نے مدینہ منورہ میں جہاد و قتال کی نئی تاریخ رقم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لیکن اپنی حقیقت میں یہ کوئی نئی بات نہیں بقول اقبال ؎ نہ ستیزہ گاہ جہاں نئی نہ حریفِ پنجہ شکن نئے وہی قوت اسداللّٰہی وہی مرحبی وہی عنتری یہی جہاد و قتال کی وہ قوت ہے جس نے ہمیشہ خیر اور نیکی کے مراکز اور عبادت گاہوں کا تحفظ کیا ہے۔ اس لیے یہاں فرمایا گیا کہ اگر اللہ تعالیٰ اس طرح نیک لوگوں کے ذریعے برائی کی قوتوں کی سرکوبی نہ کرتا تو دنیا میں کوئی خانقاہ، کوئی عبادت گاہ اور کوئی مسجد باقی نہ رہتی۔ عبادت گاہوں کے لیے جو الفاظ قرآن کریم نے استعمال کیے ہیں ان کی وضاحت بہت ضروری ہے۔ الفاظ کی وضاحت صَوَامِعٌ: صَوْمِعَۃٌ کی جمع ہے۔ صَوْمِعَۃٌ اس جگہ کو کہتے ہیں جو بلند پہاڑوں میں گھری ہوئی آبادی سے دور کسی خاموش گوشے میں واقع ہو، جہاں راہب اور سنیاسی اور تارک الدنیا فقیر رہتے ہیں اور عبادت کے لیے خلوت اور گوشہ نشینی کی زندگی گزارتے ہیں۔ اسی مناسبت سے اس کا ترجمہ ” خانقاہ “ کردیا جاتا ہے اور یہ موزوں بھی معلوم ہوتا ہے۔ بِیَعٌ: بِیَعَۃٌکی جمع ہے۔ یہ یہود و نصاریٰ دونوں کی عبادت گاہوں کے لیے آتا ہے۔ لیکن آگے یہودیوں کی عبادت گاہ کے لیے الگ لفظ آرہا ہے۔ اس لیے قرینہ دلالت کررہا ہے کہ یہاں اس سے مراد صرف نصاریٰ کی عبادت گاہ ہے۔ جسے ” گرجا “ کہا جاتا ہے۔ نصاریٰ میں چونکہ رہبانیت کے نظام کی وجہ سے خانقاہوں اور گرجوں دونوں کو یکساں اہمیت حاصل رہی ہے شاید اس لیے سب سے پہلے ان دونوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ صَلَوَات : صَلَا ۃ کی جمع ہے۔ یہ لفظ یہود کے کنیسوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یہودیوں کے یہاں اس کا نام ” صلوتا “ تھا۔ جو آرامی زبان کا لفظ ہے۔ بعید نہیں کہ انگریزی لفظ ” Salute “ اور ” Salutation “ اسی سے نکل کر لاطینی میں اور پھر انگریزی میں پہنچا ہو۔ یہ حقیقت ہے کہ حق و باطل کی یہ کشمکش جو عبادت گاہوں اور گلی کوچوں سے نکل کر بارہا رزم وبزم کے میدان گرم کرتی رہی ہے اور تاریخ اس کی مکمل شہادت دیتی ہے۔ البتہ ! جس دور میں کسی بھی واجب الاحترام پیغمبر کی دعوت کے نتیجے میں کوئی قابل ذکر امت وجود میں نہ آسکی تو وہاں تو بات دعوت سے آگے نہ بڑھ سکی۔ لیکن جب بھی دعوت نے ایک نئی امت پیدا کی ہے تو پھر کفر کے ساتھ پنجہ آزمائی ضرور ہوئی۔ اس لیے اقبال نے کہا ؎ ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز چراغِ مصطفوی سے شرار بولہبی لیکن عیسائیت نے چونکہ پٹڑی سے اترنے کے بعد رہبانیت کو اپنی منزل بنالیا تو بجائے اس کے کہ عیسائی قوم کے دانشور اپنی اس کمزوری کو سمجھتے اور قوموں کے مزاج کی صحیح تشخیص کرتے ان کے نام نہاد مستشرقین نے یہ کہنا شروع کردیا کہ حضرت محمد ﷺ کی زندگی مکہ میں تو ایک پیغمبر کی زندگی تھی لیکن مدینہ میں آکر ایک حکمران کی زندگی بن گئی۔ وہ درویشی اور مسکینی کو پیغمبر کی زندگی سمجھتے ہیں۔ لیکن جب خیر، طاقت کی صورت اختیار کرتی ہے تو وہاں انھیں حکمرانی نظر آتی ہے۔ اقبال نے اس کی توجیہ کرتے ہوئے ٹھیک کہا ؎ کلیسا کی بنیاد رہبانیت تھی سماتی کہاں اس فقیری میں میری سیاست نے مذہب سے پیچھا چھڑایا چلی کچھ نہ پیر کلیسا کی پیری ہوئی دین ودنیا میں جس دم جدائی ہوس کی امیری ہوس کی وزیری یہ اعجاز ہے ایک صحرا نشیں کا فقیری ہے آئینہ دار نذیری آیت کے آخر میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اللہ مسلمانوں کی مدد کرے گا کیونکہ اس کا قانون یہ ہے کہ جو اللہ کی مدد کرتا ہے اللہ اس کی مدد کرتا ہے۔ یعنی جو اس کے دین کی سربلندی کے لیے ہر طرح کی قربانی دیتا ہے۔ ضرورت پڑے تو میدانِ جنگ میں خون دیتا اور سرکٹواتا ہے اللہ اس کی مدد کرتا ہے۔ اب چونکہ مسلمان اللہ کے دین کی سربلندی اور اللہ کے گھر کی عظمت کو بحال کرنے کے لیے سردھڑ کی بازی لگا رہے ہیں۔ تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ ان کی مدد نہ کرے اور لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ مسلمان بیشک کمزور صحیح لیکن اللہ قوت والا ہے، غالب ہے۔ اس کی تائید ونصرت کے بعد مسلمان بھی اس دھرتی کی غالب قوت بن جائیں گے۔
Top