Ruh-ul-Quran - Al-Hajj : 3
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یُّجَادِلُ فِی اللّٰهِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّ یَتَّبِعُ كُلَّ شَیْطٰنٍ مَّرِیْدٍۙ
وَ : اور مِنَ النَّاسِ : کچھ لوگ جو مَنْ : جو يُّجَادِلُ : جھگڑا کرتے ہیں فِي اللّٰهِ : اللہ (کے بارے) میں بِغَيْرِ عِلْمٍ : بےجانے بوجھے وَّيَتَّبِعُ : اور پیروی کرتے ہیں كُلَّ شَيْطٰنٍ : ہر شیطان مَّرِيْدٍ : سرکش
اور لوگوں میں سے ایسے لوگ بھی ہیں جو بغیر کسی علم کے اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہیں اور ہر سرکش شیطان کی پیروی کرتے ہیں۔
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یُّجَادِلُ فِی اللّٰہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّیَتَّبِعُ کُلَّ شَیْطٰنٍ مَّرِیْدٍ ۔ کُتِبَ عَلَیْہِ اَنَّـہٗ مَنْ تَوَلاَّہُ فَاَنَّـہٗ یُضِلُّـہٗ وَیَھْدِیْہِ اِلٰی عَذَابِ السَّعِیْرِ ۔ (الحج : 3، 4) (اور لوگوں میں سے ایسے لوگ بھی ہیں جو بغیر کسی علم کے اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہیں اور ہر سرکش شیطان کی پیروی کرتے ہیں۔ جس کے مقدر میں لکھا جا چکا ہے کہ جو اس کے دوست بنائے گا تو وہ اسے گمراہ کرکے رہے گا اور اس کی رہنمائی وہ عذاب دوزخ کی طرف کرے گا۔ ) آنحضرت ﷺ کی دعوت کے جواب میں بغیر علم کے حجت بازی نبی کریم ﷺ جب اللہ تعالیٰ کے دین کی طرف لوگوں کو بلاتے اور انکار کرنے والوں اور مخالفت کرنے والوں کو خبردار کرتے کہ تم نے اگر اپنی زندگی کو اللہ تعالیٰ کی ہدایات کے تابع نہ کیا اور مسلسل خواہشِ نفس کی پیروی میں لگے رہے تو پھر سوچ لو کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے سامنے کیا جواب دے سکو گے کیونکہ تم ہزار انکار کرو لیکن تمہارے انکار سے حقیقت نہیں بدل سکتی، تم بہرصورت اللہ تعالیٰ کی مخلوق اور اس کے بندے ہو، تمہارا ایک آقا ہے جسے تم خدا کہتے ہو۔ اسے یہ حق پہنچتا ہے کہ تم سے اپنے احکام کی اطاعت کروائے اور یہ بات بھی اسے زیب دیتی ہے کہ وہ ایک دن ایسا لائے جس میں تمہاری زندگی بھر کے اعمال کا تم سے مواخذہ کرے، تو آنحضرت ﷺ کی اس فہمائش اور انذاز کے جواب میں عام لوگوں کا رویہ تو یہ ہوتا کہ وہ بات سنتے اور اپنی راہ لیتے، اور کبھی ایسا ہوتا کہ انھیں اپنے کام و دہن کی لذت اور پیٹ کا جہنم بھرنے کی فکر میں اس کا بھی ہوش نہ رہتا کہ وہ آنحضرت ﷺ کی دعوت کو اطمینان سے سننے کی زحمت کرتے۔ البتہ ان میں کچھ ایسے سر پھرے بھی تھے جو اس دعوت کے اثرات کو روکنے کے لیے آنحضرت ﷺ سے بغیر کسی علم اور دلیل کے بحث کرتے۔ اس آیت کریمہ میں فرمایا گیا ہے کہ ان کی بحث اللہ تعالیٰ کے بارے میں ہوتی تھی۔ اس سے مقصود یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو تو وہ لوگ مانتے تھے البتہ اس کی صفات کے بارے میں انھوں نے مشرکانہ تصورات اختیار کر رکھے تھے، وہ اس کی صفت قدرت کا غلط تصور رکھتے تھے اور یا اس میں دوسری قوتوں کو شریک سمجھتے تھے اور شاید اس غلط تصور کا نتیجہ تھا کہ وہ قیامت کے ممکن الوقوع ہونے کے بارے میں شک و شبہ کا شکار تھے۔ نضر بن حارث ایسے ہی جھگڑالو لوگوں کا سرغنہ تھا، وہ ہمیشہ اس طرح کی بحثوں میں پیش پیش رہتا۔ مردوں کی بوسیدہ ہڈیاں ہاتھوں میں لے کر وہ لوگوں کے سامنے کھڑا ہوجاتا اور کہتا کہ محمد ﷺ یہ کہتے ہیں کہ جب قیامت کا دن آئے گا تو ان بوسیدہ ہڈیوں کو زندہ کرکے اٹھایا جائے گا۔ تم خود سوچو کیا کبھی ایسی ازکاررفتہ اور بوسیدہ ہڈیاں بھی دوبارہ زندہ ہوسکتی ہیں۔ اس طرح سے وہ وقتی طور پر لوگوں میں آنحضرت ﷺ کی دعوت کے اثرات کو کمزور کرنے کی کوشش کرتا تھا اور کم عقل اور غیرسنجیدہ لوگ اس کی باتوں پر داد دیتے تھے، لیکن ان باتوں کے پیچھے کوئی علم تھا نہ دلیل، عقل و فطرت کی ہدایت تھی نہ کسی آسمانی کتاب کی کوئی سند۔ شیطان کی پیروی اس بحث میں انھیں اگر کسی کی رہنمائی میسر تھی تو وہ اس راندہ درگاہ اور دھتکارے ہوئے سرکش شیطان کی تھی جس نے اسی مقصد کے لیے اللہ تعالیٰ سے دو باتوں کی مہلت طلب کی تھی۔ ایک تو یہ کہ اسے قیامت تک کے لیے زندگی عطا کردے اور دوسری یہ بات کہ مجھے اس کا موقع دے کہ میں اولادِ آدم کو گمراہ کرسکوں۔ چناچہ وہ اپنی مہلت کے مطابق پہلے دن سے آج تک اپنے کام میں مصروف ہے اور اس کے لیے اس نے جنوں اور انسانوں میں سے مفید مطلب لوگ تیار کر رکھے ہیں جو اس کے سکھائے ہوئے طریقوں کے مطابق اولادِآدم کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کو مہلت دیتے ہوئے یہ فیصلہ کردیا تھا کہ اس کے گمراہ کرنے سے وہ لوگ گمراہ ہوں گے جنھوں نے اس سے دوستی اور محبت کا رشتہ استوار کر رکھا ہوگا۔ وہ بیشک اس کی ذات سے پیار نہ کرتے ہوں لیکن اگر وہ اس کے مقاصد، اس کے طریق کار اور اس کے طرز عمل کو پسند کرتے ہیں تو یہ چیز اس کی دوستی کے لیے کافی ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے قدرت نے یہ فیصلہ کردیا ہے کہ وہی اس کے گمراہ کرنے سے گمراہ ہوں گے اور اس کی پیروی کریں گے۔ رہے وہ لوگ جو شیطان سے نفرت کرتے اور اس پر لعنت بھیجتے ہیں اور حتی الامکان کوشش کرتے ہیں کہ وہ قرآن و سنت سے اپنا رشتہ استوار رکھیں اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے توفیق مانگتے ہیں کہ وہ شیطان کے وسوسوں سے انھیں محفوظ رکھے۔ تو شیطان اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود انھیں کبھی گمراہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوتا کیونکہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَکَ عَلَیْہِمْ سُلْطَانٌ ” بیشک میرے بندے، تیرا ان پر غلبہ نہیں ہوسکے گا۔ “
Top