Ruh-ul-Quran - Al-Hajj : 46
اَفَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَتَكُوْنَ لَهُمْ قُلُوْبٌ یَّعْقِلُوْنَ بِهَاۤ اَوْ اٰذَانٌ یَّسْمَعُوْنَ بِهَا١ۚ فَاِنَّهَا لَا تَعْمَى الْاَبْصَارُ وَ لٰكِنْ تَعْمَى الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِ
اَفَلَمْ يَسِيْرُوْا : پس کیا وہ چلتے پھرتے نہیں فِي الْاَرْضِ : زمین میں فَتَكُوْنَ : جو ہوجاتے لَهُمْ : ان کے قُلُوْبٌ : دل يَّعْقِلُوْنَ : وہ سمجھنے لگتے بِهَآ : ان سے اَوْ : یا اٰذَانٌ : کان (جمع) يَّسْمَعُوْنَ : سننے لگتے بِهَا : ان سے فَاِنَّهَا : کیونکہ درحقیقت لَا تَعْمَى : اندھی نہیں ہوتیں الْاَبْصَارُ : آنکھیں وَلٰكِنْ : اور لیکن (بلکہ) تَعْمَى : اندھے ہوجاتے ہیں الْقُلُوْبُ : دل (جمع) الَّتِيْ : وہ جو فِي الصُّدُوْرِ : سینوں میں
کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں کہ ( ان کھنڈرات کو دیکھ کر) ان کے دل ایسے ہوجاتے جن سے وہ (حق کو) سمجھتے۔ یا ان کے کان ایسے ہوجاتے کہ وہ ان سے سنتے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ وہ دل اندھے ہوجاتے ہیں جو سینوں میں ہوتے ہیں۔
اَفَلَمْ یَسِیْرُوْافِی الْاَرْضِ فَتَکُوْنَ لَھُمْ قُلُوْبٌ یَّعْقِلُوْنَ بِھَآ اَوْاٰذَانٌ یَّسْمَعُوْنَ بِھَاج فَاِنَّھَا لَا تَعْمَی الْاَبْصَارُ وَلٰکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِ ۔ (الحج : 66) (کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں کہ ( ان کھنڈرات کو دیکھ کر) ان کے دل ایسے ہوجاتے جن سے وہ (حق کو) سمجھتے۔ یا ان کے کان ایسے ہوجاتے کہ وہ ان سے سنتے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ وہ دل اندھے ہوجاتے ہیں جو سینوں میں ہوتے ہیں۔ ) عبرت پذیری سے گریز کا انجام اللہ تعالیٰ نے جن بستیوں اور جن قوموں کو تکذیبِ رسل کے نتیجے میں ہلاک کیا وہ تو یقینا اپنے برے انجام کو پہنچ گئیں اور موت کی خاموشی نے انھیں اپنی آغوش میں لے لیا۔ لیکن وہ اپنی تباہی اور بربادی کے آثار اپنے پیچھے چھوڑ گئیں۔ ان کے محلات کے کھنڈرات، ان کی اجڑی ہوئی بستیاں، ان کے بےکار اور بےآباد کنویں، اپنی داستان سنانے کے لیے آج بھی باقی ہیں۔ اور انھیں اس لیے باقی رکھا گیا ہے کہ یہاں سے گزرنے والے تجارتی قافلے وہ ان بستیوں کی تباہی اور بربادی کو دیکھ کر کبھی سوچنے کی زحمت گوارا کریں اور وہ اسباق ودروس جو ان میں سے ایک ایک پتھر پر کندہ ہیں اور وہ ہزاروں عبرتیں جو ایک ایک کھنڈر کے نیچے دفن ہیں۔ اور وہ بیشمار نصیحتیں جو آج بھی ان کی فضائوں میں بولتی اور تیرتی ہوئی سنائی اور دکھائی دیتی ہیں۔ یہاں سے گزرنے والے شائد کبھی ان کی طرف دھیان دے سکیں اور یہ سوچنے کی زحمت کرسکیں کہ آخر ان قوموں پر یہ تباہی کیوں آئی ؟ یہ لوگ اپنے دنیوی معاملات، اپنے مادی وسائل، اور اپنے نفع وضرر کے پیمانوں میں ہر طرح خود کفیل اور اتارو تھے۔ اپنی ضرورتوں کو سمجھتے اور انفرادی اور اجتماعی سطح پر انھیں بروئے کار لانے میں نہایت فعال ثابت ہوئے تھے۔ اس کے باوجود ان پر اتنی بڑی افتاد پڑی تو اس کا سبب آخر اس کے سوا اور کیا تھا کہ انھوں نے جسمانی اور مادی ضرورتوں کی بجا آوری کے لیے اپنی زندگیاں وقف کر رکھی تھیں۔ لیکن اخلاقی توانائی، ذہنی شائستگی، قلبی اطمینان، اور روحانی بالیدگی کے لیے ان کے پاس کوئی وقت نہ تھا۔ اخلاقیات کی تباہی کے باعث انسانی قدریں رفتہ رفتہ اپنے انجام کو پہنچ رہی تھیں۔ لیکن انھیں کسی بات کا ملال نہ تھا کیونکہ مسلسل مادے کی مصروفیت، شکم پروری، اور اتباعِ ہوا نے ان کے پیٹ کی بھوک، سفلی جذبات، خودغرضی اور ہوس زر میں تو خوباضافہ کیا تھا لیکن انسان کی مقصدی اور معنوی ضرورتوں کو اس قدر پس پشت ڈال دیا تھا کہ وہ کالعدم ہو کر رہ گئیں۔ بصیرت کا نور بجھ گیا۔ دلوں کے گھروندے تاریک ہوگئے۔ قوموں کا اصل حادثہ یہ ہے کہ جب وہ ایسے علم و دانش کو جو صرف معدے کی خدمت انجام دیتا ہے، اپنی زندگی کی روشنی بنالیتی ہیں تو پھر ضمیر اور دلوں کی موت واقع ہوجاتی ہے حالانکہ تباہ شدہ بستیوں میں مخفی عبرتوں کو اس لیے نمایاں کیا جاتا ہے تاکہ دلوں میں روشنی پیدا ہو۔ بصارت کے ساتھ ساتھ بصیرت بھی اپنا کام کرنے لگے۔ لیکن جب ان عبرتوں کی طرف توجہ نہیں کی جاتی بلکہ تباہ شدہ بستیوں میں بھی کلچر تلاش کیا جاتا ہے اور ہزاروں سال پرانی تہذیب کے آثار ڈھونڈنے پر ساری توجہ صرف کی جاتی ہے تو پھر اللہ کے رسولوں کی تعلیم اور اللہ کی نازل کردہ کتابوں کا اعجاز بھی بےاثر ہو کر رہ جاتا ہے۔ یہاں ممکن ہے کسی کے ذہن میں سوال آئے کہ قرآن کریم فہم و بصیرت کو دلوں کی طرف منسوب کر رہا ہے حالانکہ یہ دماغوں کا عمل ہے۔ اس سلسلے میں پہلی گزارش تو یہ ہے کہ قرآن کریم کو یہ اسلوب سائنسی اسلوب نہیں بلکہ ادبی اسلوب ہے۔ قرآن کریم نصیحت کی کتاب ہے سائنس کی نہیں اور جہاں تک ادب اور نصیحت کا تعلق ہے ہر دور میں اس میں معتبر حوالہ دلوں ہی کا رہا ہے دماغوں کا نہیں۔ اقبال اپنی قوم کا مصلح ہے۔ اس نے انسانی اصلاح کے لیے ہمیشہ دلوں کی بیداری پر زور دیا ہے اور دلوں میں نور پیدا کرنے کی بات کی ہے حالانکہ وہ خود جانتا تھا کہ سائنس اس بارے میں کیا کہتی ہے۔ وہ کہتا ہے ؎ دلِ بیدار پیدا کر کہ دل خوابیدہ ہے جب تک نہ تیری ضرب ہے کاری نہ میری ضرب ہے کاری دلِ مردہ دل نہیں ہے اسے زندہ کر دوبارہ یہی ہے امتوں کے مرض کہن کا چارہ مزید کہتا ہے ؎ دل کا نور کر خدا سے طلب آنکھ کا نور دل کا نور نہیں اور دوسری بات یہ ہے کہ اب تو اربا بِ سائنس بھی تسلیم کرنے لگے ہیں کہ دل صرف خون کو پمپ کرنے کی مشین نہیں بلکہ اس کے اندر احساسات کی دنیا بھی آباد ہے۔ یہ خوشی اور غم کو محسوس کرتا ہے، حسن وقبح کا اصل معیار قدرت نے اسی کے اندر رکھا ہے اور یہیں سے دماغ کو روشنی اور آنکھ کو بصیرت ملتی ہے۔
Top