Ruh-ul-Quran - Al-Hajj : 48
وَ كَاَیِّنْ مِّنْ قَرْیَةٍ اَمْلَیْتُ لَهَا وَ هِیَ ظَالِمَةٌ ثُمَّ اَخَذْتُهَا١ۚ وَ اِلَیَّ الْمَصِیْرُ۠   ۧ
وَ كَاَيِّنْ : اور کتنی ہی مِّنْ قَرْيَةٍ : بستیاں اَمْلَيْتُ : میں نے ڈھیل کی لَهَا : ان کو وَهِىَ : اور وہ ظَالِمَةٌ : ظالم ثُمَّ : پھر اَخَذْتُهَا : میں نے پکڑا انہیں وَاِلَيَّ : اور میری طرف الْمَصِيْر : لوٹ کر آنا
اور کتنی بستیاں تھیں جن کو ان کے ظلم کے باوجود میں نے ڈھیل دی۔ پھر میں نے انھیں پکڑ لیا۔ اور میری ہی طرف سب کو لوٹنا ہے۔
وَکَاَیِّنْ مِّنْ قَرْیَۃٍ اَمْلَیْتُ لَھَا وَھِیَ ظَالِمَۃٌ ثُمَّ اَخَذْتُھَا ج وَاِلَیَّ الْمَصِیْرُ ۔ (الحج : 48) ( اور کتنی بستیاں تھیں جن کو ان کے ظلم کے باوجود میں نے ڈھیل دی۔ پھر میں نے انھیں پکڑ لیا۔ اور میری ہی طرف سب کو لوٹنا ہے۔ ) قریش کو وارننگ اس آیت کریمہ میں خبر تو بعض بستیوں کے بارے میں دی جارہی ہے لیکن روئے سخن قریش کی طرف ہے۔ انھیں سنا کر یہ بات کہی جارہی ہے کہ تم پہلی قوم نہیں ہو اور نہ پہلی بستی ہو جس کی طرف اللہ کا رسول آیا ہے اور وہ ان کے انکار اور تمرد کے باعث انھیں عذاب سے ڈرا رہا ہے اور وہ محض اسے ڈراوا سمجھ رہے ہیں۔ اس سے پہلے کتنی بستیاں اس صورتحال سے دوچارہ ہوچکی ہیں۔ انھوں نے اللہ کے دین کی تکذیب اور اس کے رسول کی دعوت سے انتہا درجہ انکار کے باوجود ایک عرصہ دراز تک انھیں مہلت دی گئی۔ وہ بجائے اس کے کہ اس مہلت سے فائدہ اٹھاتے ان کے انکار اور تمرد اور ایذا رسانی میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور وہ یہ سمجھتے رہے کہ ہم جو کچھ کررہے ہیں اس پر کوئی گرفت نہیں ہوگی۔ لیکن پھر جب یہ مہلت عمل ختم ہوگئی تو اللہ نے انھیں پکڑلیا اور پھر ان پر وہ عذاب آیا جس نے ان کی جڑ کاٹ کر رکھ دی۔ مکہ کے رہنے والو ! اگر تم نے اپنے طرز عمل کو بدلنے کی کوشش نہ کی تو اندیشہ ہے کہ تمہارا انجام بھی وہی ہو جس سے معذب قومیں دوچار ہوچکی ہیں اور اگر اللہ کی کسی مصلحت کے تحت دنیا میں تم پر عذاب نہ آئے تو یہ مت سمجھ لینا کہ تم بچ نکلے ہو تمہیں قیامت کے دن بہرحال میرے پاس آنا ہے کیونکہ میری ہی طرف ہر پیدا ہونے والے کو لوٹنا اور اپنے انجام سے دوچار ہونا ہے۔
Top