Ruh-ul-Quran - Al-Hajj : 5
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنْ كُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ فَاِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِنْ مُّضْغَةٍ مُّخَلَّقَةٍ وَّ غَیْرِ مُخَلَّقَةٍ لِّنُبَیِّنَ لَكُمْ١ؕ وَ نُقِرُّ فِی الْاَرْحَامِ مَا نَشَآءُ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ نُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوْۤا اَشُدَّكُمْ١ۚ وَ مِنْكُمْ مَّنْ یُّتَوَفّٰى وَ مِنْكُمْ مَّنْ یُّرَدُّ اِلٰۤى اَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَیْلَا یَعْلَمَ مِنْۢ بَعْدِ عِلْمٍ شَیْئًا١ؕ وَ تَرَى الْاَرْضَ هَامِدَةً فَاِذَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَیْهَا الْمَآءَ اهْتَزَّتْ وَ رَبَتْ وَ اَنْۢبَتَتْ مِنْ كُلِّ زَوْجٍۭ بَهِیْجٍ
يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ : اے لوگو ! اِنْ كُنْتُمْ : اگر تم ہو فِيْ رَيْبٍ : شک میں مِّنَ : سے الْبَعْثِ : جی اٹھنا فَاِنَّا : تو بیشک ہم خَلَقْنٰكُمْ : ہم نے پیدا کیا تمہیں مِّنْ تُرَابٍ : مٹی سے ثُمَّ : پھر مِنْ نُّطْفَةٍ : نطفہ سے ثُمَّ : پھر مِنْ عَلَقَةٍ : جمے ہوئے خون سے ثُمَّ : پھر مِنْ مُّضْغَةٍ : گوشت کی بوٹی سے مُّخَلَّقَةٍ : صورت بنی ہوئی وَّ : اور غَيْرِ مُخَلَّقَةٍ : بغیر صورت بنی لِّنُبَيِّنَ : تاکہ ہم ظاہر کردیں لَكُمْ : تمہارے لیے وَنُقِرُّ : اور ہم ٹھہراتے ہیں فِي الْاَرْحَامِ : رحموں میں مَا نَشَآءُ : جو ہم چاہیں اِلٰٓى : تک اَجَلٍ مُّسَمًّى : ایک مدت مقررہ ثُمَّ : پھر نُخْرِجُكُمْ : ہم نکالتے ہیں تمہیں طِفْلًا : بچہ ثُمَّ : پھر لِتَبْلُغُوْٓا : تاکہ تم پہنچو اَشُدَّكُمْ : اپنی جوانی وَمِنْكُمْ : اور تم میں سے مَّنْ : کوئی يُّتَوَفّٰى : فوت ہوجاتا ہے وَمِنْكُمْ : اور تم میں سے مَّنْ : کوئی يُّرَدُّ : پہنچتا ہے اِلٰٓى : تک اَرْذَلِ الْعُمُرِ : نکمی عمر لِكَيْلَا يَعْلَمَ : تاکہ وہ نہ جانے مِنْۢ بَعْدِ : بعد عِلْمٍ : علم (جاننا) شَيْئًا : کچھ وَتَرَى : اور تو دیکھتا ہے الْاَرْضَ : زمین هَامِدَةً : خشک پڑی ہوئی فَاِذَآ : پھر جب اَنْزَلْنَا : ہم نے اتارا عَلَيْهَا : اس پر الْمَآءَ : پانی اهْتَزَّتْ : وہ تروتازہ ہوگئی وَرَبَتْ : اور ابھر آئی وَاَنْۢبَتَتْ : اور اگا لائی مِنْ : سے كُلِّ زَوْجٍ : ہر جوڑا بَهِيْجٍ : رونق دار
اے لوگو ! اگر تم دوبارہ جی اٹھنے کے باب میں شبہ میں ہو تو (ذرا اس امر میں غور کرو) کہ ہم نے ہی تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر منی کے قطرے سے، پھر خون کے لوتھڑے سے، پھر گوشت کے ٹکڑے سے کوئی کامل ہوتا ہے اور کوئی ناقص، (ایسا ہم نے اس لیے کیا) تاکہ تم پر اپنی قدرت و حکمت اچھی طرح واضح کردیں اور ہم رحموں میں ٹھہرا دیتے ہیں جو چاہتے ہیں ایک مدت معین کے لیے، پھر تم کو ایک بچے کی صورت میں نکال لاتے ہیں، پھر ایک وقت دیتے ہیں تاکہ تم اپنے شباب کو پہنچ جائو اور تم میں سے کچھ پہلے ہی مرجاتے ہیں اور بعض بڑھاپے کی آخری حد کو پہنچتے ہیں تاکہ وہ کچھ نہ جانیں ہر چیز کو جاننے کے بعد اور تم زمین کو بالکل خشک دیکھتے ہو، تو جب ہم اس پر پانی برسا دیتے ہیں تو وہ یکایک پھبک اٹھتی اور اپچتی ہے اور طرح طرح کی خوشنما چیزیں اگاتی ہے۔
یٰٓاَیُّھَاالنَّاسُ اِنْ کُنْـتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ فَاِنَّا خَلَقْنٰـکُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَۃٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَۃٍ ثُمَّ مِنْ مُّضْغَۃٍ مُّخَلَّـقَۃٍ وَّغَیْرِ مُخَلَّـقَۃٍ لِّنُبَیِّنَ لَـکُمْ ط وَنُقِرُّ فِی الْاَرْحَامِ مَانَشَآئُ اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی ثُمَّ نُخْرِجُکُمْ طِفْلاً ثُمَّ لِتَبْلُغُوْٓا اَشُدَّکُمْ ج وَمِنْکُمْ مَّنْ یُّتَوَفّٰی وَمِنْکُمْ مَّنْ یُّرَدُّ اِلٰٓی اَرْذَلِ الْعُمُرِ لِکَیْلاَ یَعْلَمَ مِنْ م بَعْدِ عِلْمٍ شَیْــًٔا ط وَتَرَی الْاَرْضَ ھَامِدَۃً فَاِذَٓا اَنْزَلْنَا عَلَیْھَا الْمَآئَ اھْتَزَّتْ وَرَبَتْ وَاَنْبَتَتْ مِنْ کُلِّ زَوْجٍ م بَھِیْجٍ ۔ (الحج : 5) (اے لوگو ! اگر تم دوبارہ جی اٹھنے کے باب میں شبہ میں ہو تو (ذرا اس امر میں غور کرو) کہ ہم نے ہی تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر منی کے قطرے سے، پھر خون کے لوتھڑے سے، پھر گوشت کے ٹکڑے سے کوئی کامل ہوتا ہے اور کوئی ناقص، (ایسا ہم نے اس لیے کیا) تاکہ تم پر اپنی قدرت و حکمت اچھی طرح واضح کردیں اور ہم رحموں میں ٹھہرا دیتے ہیں جو چاہتے ہیں ایک مدت معین کے لیے، پھر تم کو ایک بچے کی صورت میں نکال لاتے ہیں، پھر ایک وقت دیتے ہیں تاکہ تم اپنے شباب کو پہنچ جاؤ اور تم میں سے کچھ پہلے ہی مرجاتے ہیں اور بعض بڑھاپے کی آخری حد کو پہنچتے ہیں تاکہ وہ کچھ نہ جانیں ہر چیز کو جاننے کے بعد، اور تم زمین کو بالکل خشک دیکھتے ہو، تو جب ہم اس پر پانی برسا دیتے ہیں تو وہ یکایک پھبک اٹھتی اور اپچتی ہے اور طرح طرح کی خوشنما چیزیں اگاتی ہے۔ ) قیامت پر انسان کی اپنی ذات سے استشہاد ہم اس سے پہلے عرض کرچکے ہیں کہ قیامت کے بارے میں مشرکینِ عرب کی روش صریح انکار کی نہ تھی۔ البتہ وہ اس کے وقوع کے بارے میں اشتباہات کا شکار تھے۔ ان کی عقل اس بات کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ تھی کہ اربوں کھربوں مخلوق اور ساری کائنات یک لخت تباہ کی جاسکتی ہے اور پھر اچانک ایک صور پھونکنے سے تمام مخلوقات زندہ بھی کی جاسکتی ہیں۔ اس لیے وہ بار بار قیامت کے حوالے سے اپنے شک و شبہ کا اظہار کرتے۔ قرآن کریم نے اپنی بات کو ٹھیک اسی جگہ سے شروع کیا ہے جہاں پانی مر رہا تھا کہ اے لوگو ! تمہیں اگر اس بات میں شبہ ہے کہ قیامت آئے گی یا نہیں، اور تمہارے خیال میں یہ بات عقل سے بہت بعید ہے کہ کبھی سب کچھ تباہ ہوجائے اور پھر سب کچھ زندہ ہوجائے اور پھر ایک ایسی عدالت قائم ہو جس میں انسانوں کے زندگی بھر کیے ہوئے اعمال حساب کے لیے پیش کیے جائیں۔ تو ہم تمہیں سمجھانے کے لیے خود تمہاری اپنی ذات کی طرف تمہیں توجہ دلانا چاہتے ہیں۔ یوں تو اللہ تعالیٰ کی بےپناہ قدرت اور قیامت کے وقوع پر بیشمار دلائل موجود ہیں لیکن ہم سب کو چھوڑ کر تمہاری اپنی ذات کو دلیل کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں۔ تم اپنے بارے میں غور کرو کہ تم پر عدم طاری تھا یعنی تم کچھ نہیں تھے، ہم نے تمہیں وجود بخشا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی مخلوق کو عدم سے وجود میں لے آنا اللہ تعالیٰ کی تخلیقی قدرت سے کچھ بھی بعید نہیں اور اس پر بھی طرہ یہ کہ جن مادوں سے یا جس چیز سے انسانوں کی تخلیق کی گئی ان میں سے کوئی چیز بھی اپنی ذات میں زندہ نہیں۔ یہ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ ایک زندہ مخلوق کو بےجان چیزوں سے پیدا کیا جائے۔ اس لیے فرمایا کہ ہم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا۔ اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ آدم جو ابوالبشر ہیں ان کی تخلیق مٹی سے ہوئی اور یا اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو نطفے سے پیدا کیا گیا اور یہ مادہ منویہ جن غذائوں سے بنتا ہے وہ سب زمین سے اگتی ہیں اور یا اس کا مطلب یہ ہے کہ نوع انسانی کا آغاز حضرت آدم (علیہ السلام) سے کیا گیا ہے جو براہ راست مٹی سے بنائے گئے تھے۔ اور پھر آگے نسل انسانی کا سلسلہ نطفے سے چلا جیسا کہ سورة سجدہ میں فرمایا گیا وَبَدَأ خَلْقَ الْاِنْسَانِ مِنْ طِیْنٍ ۔ ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَـہٗ مِنْ سُلاَ لَۃٍ مِنْ مَّائٍ مَّہِیْن (آیت 7۔ 8) ” انسان کی تخلیق مٹی سے شروع کی پھر اس کی نسل ایک ست سے چلائی جو حقیر پانی کی شکل میں نکلتا ہے۔ “ نطفہ سے انسان کی تخلیق بجائے خود حیرت انگیز ہے مزید غور کیجیے کہ میاں بیوی کے اتصال سے مرد کا نطفہ عورت کے رحم میں منتقل ہوتا ہے۔ اس میں عجیب بات یہ ہے کہ ایک مرد سے ایک وقت میں جتنا نطفہ خارج ہوتا ہے اس کے اندر کئی کروڑ تخم پائے جاتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک بیضہ انثیٰ سے مل کر انسان بن جانے کی صلاحیت رکھتا ہے مگر مرد و عورت دونوں اس بات کی نہ خبر رکھتے ہیں اور نہ اختیار رکھتے ہیں کہ ان میں سے کون سا تخم بیضہ انثیٰ سے ملنے کا موقع پا سکے گا۔ یہ اس حکیم و قدیر ذات کا فیصلہ ہے جو اس بات کی قدرت رکھتا ہے کہ ان سب کو چھانٹ کر کسی ایک کو کسی خاص وقت میں بیضہ انثیٰ سے ملنے کا موقع دیتا ہے اور اس طرح سے استقرارِ حمل کا مرحلہ طے ہوتا ہے۔ پھر استقرار کے وقت مرد کے تخم اور عورت کے بیضی خلیے کے ملنے سے جو چیز ابتداً بنتی ہے وہ اتنی چھوٹی ہوتی ہے کہ خوردبین کے بغیر دیکھی نہیں جاسکتی تو پھر یہ چھوٹی سی چیز اللہ تعالیٰ کے حکم سے آہستہ آہستہ خون کی پھٹکی میں تبدیل ہوتی ہے۔ عَلَقَۃٌ خون کی پھٹکی کو بھی کہتے ہیں اور چھوٹے جاندار کیڑے کو بھی۔ یہ کیڑا جب خون اور جنین کی صورت اختیار کرتا ہے اور اس کے اندر زندگی کی نمود پیدا ہوجاتی ہے۔ پھر یہ خون کا لوتھڑامُضْغَۃُ کی شکل اختیار کرتا ہے۔ یہ مُضْغَۃُ شروع شروع میں نامکمل شکل میں ہوتا ہے، پھر آہستہ آہستہ شکل بننے لگتی ہے اور نین نقش اپنا اظہار کرنے لگتے ہیں۔ لِنُبَـیِّنَ لَـکُمْ … تاکہ تم پر اپنی قدرت و حکمت اچھی طرح واضح کردیں یعنی اللہ تعالیٰ کی قدرت اس بات کی محتاج نہ تھی کہ وہ انسانی تخلیق کے لیے ایک پر اسس تجویز کرتی۔ پہلے مادہ منویہ وجود میں آتا، پھر استقرارِ حمل کی نوبت آتی، پھر اس پانی کی بوند کو خون کی پھٹکی میں تبدیل کیا جاتا، پھر وہ ایک گوشت کا لوتھڑا بنتا اور اس میں بچے کے نین نقش اور شکل کا ڈیزائن تیار کیا جاتا۔ یہ صرف یہ بتانے کے لیے ہے کہ جو پروردگار شکم مادر میں ایک بےجان مادے کو اتنی تبدیلیوں سے گزار کر نہ صرف انسان کو وجود دینے پر قادر ہے بلکہ اسے ایک ایسی مخلوق کی صورت میں منصہ شہود پر لاتا ہے کہ ساری دنیا کی ہمہ ہمی اور رونق اسی کے دم قدم سے ہے۔ اس نے زمین کے سینے کو تخلیقات سے بھر دیا ہے اور فضائوں میں اس کی ایجادات اڑتی پھرتی ہیں۔ جو پروردگار یہ سب کچھ کرنے پر قادر ہے کیا وہ انسان کو دوبارہ پیدا کرنے پر قادر نہیں۔ سورة مومنون میں بعینہٖ یہی مضمون اس طرح بیان ہوا ہے کہ آخر میں وہ بات بھی کہہ دی گئی ہے جس پر انسان کی خلقت کے یہ تمام مراحل شہادت دے رہے ہیں۔ ارشاد فرمایا : وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰـلَۃٍ مِّنْ طِیْنٍ ۔ ثُمَّ جَعَلْنٰہُ نُطْفَۃً فِیْ قَرَارٍمَّکِیْنٍ ۔ ثُمَّ خَلَقْنَاالنُّطْفَۃَ عَلَقَۃً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً فَخَلْقَنَا الْمُضْغَۃَ عِظٰمًا فَکَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْمًا ق ثُمَّ اَنْشَاْنٰہُ خَلْقًا اٰخَرَ ط فَتَبَارَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَ ۔ ثُمَّ اِنَّـکُمْ بَعْدَ ذٰلِکَ لَمَیِّتُوْنَ ۔ ثُمَّ اِنَّکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ تُبْعَثُوْنَ ۔ (المومنین۔ 23: 12۔ 16) اور ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصہ سے پیدا کیا، پھر ہم نے پانی کی ایک بوند کی شکل میں اس کو ایک قرار کی جگہ میں رکھا، پھر ہم نے پانی کی بوند کو جنین کی شکل دی، پھر جنین کو ایک لوتھڑا بنایا، پس لوتھڑے کے اندر ہڈیاں پیدا کیں، پھر ہڈیوں کو گوشت کا جامہ پہنایا، پھر اس کو ایک بالکل ہی مختلف مخلوق کی شکل میں متشکل کردیا۔ پس بڑا ہی بابرکت ہے اللہ بہترین پیدا کرنے والا ! پھر اس کے بعد تم لازماً مرو گے، پھر تم قیامت کے دن اٹھائے جاؤ گے۔ سلسلہ کلام کی طرف رجوع وَنُقِرُّ فِی الْاَرْحَامِ مَانَشَآئُ اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی ثُمَّ نُخْرِجُکُمْ طِفْلاً ” اور ہم رحموں میں ٹھہرا دیتے ہیں جو چاہتے ہیں ایک مدت متعین کے لیے، پھر ہم تم کو ایک بچہ کی شکل میں برآمد کرتے ہیں۔ “ ابھی سلسلہ کلام ناتمام تھا کہ اچانک مخاطبوں کو جھنجھوڑنے کے لیے لِنُبَـیِّنَ لَـکُمْ لایا گیا۔ اب پھر اسی سلسلہ کلام کو لیا جارہا ہے۔ ارشاد فرمایا جارہا ہے کہ مادہ منویہ کے شکم مادر میں استقرار پکڑنے کے بعد اور پھر عَلَقَۃًاور مُضْغَۃَ کی تبدیلیوں سے ہمکنار ہونے کے بعد ہم ایک معین مدت تک اسے ماں کے پیٹ میں ٹھہراتے ہیں اور پھر کم و بیش 9 ماہ کے بعد اس بچے کو جس کا آغاز ایک گندے پانی سے ہوا تھا نہایت خوبصورت شکل میں ماں کی آغوش میں لاتے ہیں۔ اس خوبصورت اور من موہنے بچے کو دیکھ کر کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا کہ اس کی تخلیق گندے پانی کے ایک قطرے سے ہوئی ہے۔ مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ بچہ جب شکم مادر سے باہر آتا ہے تو وہ نہایت بےبسی کی تصویر ہوتا ہے۔ بیشتر مخلوقات کے بچے پیدائش کے چند گھنٹوں بعد اپنی ماں کے ساتھ چلنے پھرنے اور کھانے پینے لگتے ہیں لیکن انسان کا بچہ کئی مہینوں تک اپنے ماں باپ کو پہنچانتا تک نہیں۔ ماں اگر اسے اٹھا کر اپنے سینے سے نہ لگائے اور دودھ اس کے منہ میں نہ نچوڑے تو وہ کبھی نہیں جان سکتا کہ میری خوراک کہاں ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی دستگیری کا کیا کہنا کہ یہ بچہ جو ہر طرح کی پہچان سے عاری ہے جس کے حواس خمسہ نے ابھی کام کرنا شروع نہیں کیا، جو شعور کی منزل سے ابھی بہت دور ہے لیکن نہ جانے اسے ماں کے پستان سے دودھ پینا کون سکھاتا ہے ؟ اور بھوک لگنے پر اسے رونے کی تعلیم کس نے دی ہے ؟ اور اپنی خوبصورت مسکراہٹوں کے ساتھ اس نے دوسروں کا دل موہنا کس سے سیکھا ہے ؟ بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو ماں کے دودھ یا پتلے دودھ کے سوا کوئی غذا نہیں کھا سکتا۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ آہستہ آہستہ ماں کے دودھ میں مائیت کم ہوتی جاتی ہے اور دھنیت بڑھتی جاتی ہے، حواس اپنا کام شروع کردیتے ہیں، معدہ ثقیل چیز کھانے اور ہضم کرنے کے قابل ہوتا جارہا ہے۔ بچہ اب چیزوں کو پہچاننے لگا ہے۔ جب تک معدہ کمزور تھا تو ماں کے دودھ میں پانی غالب تھا۔ اب معدہ مضبوط ہوگیا ہے تو ماں کا دودھ بھی گاڑھا ہوتا جارہا ہے۔ مختصریہ کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے سوا وہ کون ہے جس نے شکم مادر میں بچے کی حفاظت کی ؟ پھر وہ دنیا میں آیا تو اس کی درجہ بدرجہ اور عہد بعہد تبدیلیوں کے مطابق کس نے غذا مہیا کی ؟ اور سب سے حیرانی کی بات یہ ہے کہ بچہ ابھی دنیا میں آ نہیں پاتا کہ مامتا کی با ہیں پہلے اس کے لیے پھیل چکی ہوتی ہیں اور باپ کے کندھے اسے اٹھانے کے لیے بیتاب ہوتے ہیں۔ دل میں یہ محبت کے چراغ کون جلاتا ہے ؟ اور اسی محبت کے سائے میں بچہ بچپن اور لڑکپن کی منزلیں طے کرتا ہوا جوانی اور رشد کی عمر کو پہنچ کر اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کے قابل ہوجاتا ہے۔ جوانی کی عمر جسمانی طاقت و صلاحیت، ارادوں کی پختگی، دماغ کی رعنائی اور ولولوں اور امنگوں کی عمر ہوتی ہے جس میں جسم کی شریانوں میں خون کی بجائے پارہ دوڑتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ اپنی طاقت اور صلاحیت سے فریب خوردہ ہو کر بعض دفعہ انسان اپنے بارے میں عجیب و غریب غلط فہمیوں کا شکار ہونے لگتا ہے، لیکن قدرت اپنا کام مسلسل کرتی رہتی ہے۔ اسی نے اس کو جوانی کی رعنائیاں دی تھیں اب وہی آہستہ آہستہ اس کے جسم کی توانائیوں اور دل و دماغ کی رعنائیوں کو زوال آشنا بنا کر یہ سوچنے کا موقع مہیا کرتی ہے کہ اپنے اس خدا کو کبھی نہ بھولنا جس نے تمہیں جوانی کے مراحل تک پہنچایا۔ اپنے بارے میں کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہونا۔ وہی ذات تمہارا سہارا ہے اب آہستہ آہستہ تم بڑھاپے کی طرف بڑھ رہے ہو اور وہ دن دور نہیں جب وہ تمہیں ارزل العمر تک پہنچا دے گا۔ اب تمہیں بالکل مختلف صورتحال سے دوچار ہونا پڑے گا۔ وہ ذات جس کی عنایات سے تم نہ جانے کیا سے کیا ہوگئے، اب وہی ذات تمہیں زوال کے راستے پر لے جارہی ہے اور تم بڑھاپے میں اس حال کو پہنچ جاتے ہو کہ سب کچھ جاننے کے بعد کچھ نہ جاننے کی تصویر بن جاتے ہو۔ جن شریانوں میں کبھی پارہ دوڑتا تھا اب وہاں خون کی گردش بھی رک رک کے چلتی ہے، جس سینے میں حوصلوں کی فصل تیار ہوتی تھی اب وہاں کمزوری اور بعض دفعہ مایوسی ڈیرہ جما کے بیٹھ جاتی ہے اور یہ سب کچھ اس لیے ہوا ہے تاکہ ان تبدیلیوں کے آئینہ میں ہر شخصدیکھ سکے کہ جو ذات اتنی بڑی تبدیلیاں پیدا کرسکتی ہے اس کے لیے قیامت برپا کرنا اور دوبارہ زندہ کرنا کوئی قابل تعجب بات نہیں۔ بارش سے قیامت پر دلیل اسی آیت کریمہ میں دوسری مثال یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ اولاً تو تم اپنی ذات میں غور کرو تو قدمقدم پر قیامت کو دیکھ سکتے ہو لیکن اگر باہر بھی دیکھنا چاہو تو کون سی نگاہ ایسی ہے جس نے برسات کا موسم نہیں دیکھا۔ بعض دفعہ طویل عرصے تک بارش برسنے کا نام نہیں لیتی اور عرب میں تو خاص طور پر خشک سالی قحط سالی کی صورت اختیار کر جاتی تھی۔ میلوں تک گھاس کی پتی دکھائی نہیں دیتی تھی۔ جوہڑوں کا پانی خشک ہونے کے باعث خانہ بدوشوں کے قافلے رواں دواں نظر آتے تھے۔ ہر طرف ویرانی چھائی ہوئی دکھائی دیتی تھی کہ اچانک اللہ تعالیٰ کی رحمت جوش میں آئی، بادل جھوم کے آئے، بارش برسی۔ وہ زمین جس میں باد سموم چلتی اور ہر طرف دھول اڑتی دکھائی دیتی تھی وہاں دیکھتے ہی دیکھتے جل تھل ایک ہوجاتا ہے اور مردہ زمین میں زندگی کے آثار پھوٹنے لگتے ہیں۔ رات کو مینڈکوں کی آوازیں زندگی کا اعلان کرتی ہیں اور چند ہی دنوں میں زمین مخملی لباس پہن لیتی ہے۔ جدھر دیکھو زندگی انگڑائیاں لیتی نظر آتی ہے۔ رگِ سنگ میں بھی لہو کی گردش دکھائی دینے لگتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو ذات مردہ زمین کو زندگی سے بہرہ ور کرسکتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے ہر طرف زندگی کے آثار دکھائی دینے لگتے ہیں اس کے لیے انسانوں کو دوبارہ زندہ کرنے اور قیامت برپا کرنے میں کیا چیز حائل ہوسکتی ہے ؟
Top