Ruh-ul-Quran - Al-Hajj : 66
وَ هُوَ الَّذِیْۤ اَحْیَاكُمْ١٘ ثُمَّ یُمِیْتُكُمْ ثُمَّ یُحْیِیْكُمْ١ؕ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَكَفُوْرٌ
وَهُوَ : اور وہی الَّذِيْٓ : جس نے اَحْيَاكُمْ : زندہ کیا تمہیں ثُمَّ : پھر يُمِيْتُكُمْ : مارے گا تمہیں ثُمَّ : پھر يُحْيِيْكُمْ : زندہ کرے گا تمہیں اِنَّ الْاِنْسَانَ : بیشک انسان لَكَفُوْرٌ : بڑا ناشکرا
اور وہی ہے جس نے تمہیں زندگی عطا کی پھر وہ تم کو موت دیتا ہے، پھر وہ تمہیں زندہ کرے گا۔ بیشک انسان بڑا ہی ناشکرا ہے۔
وَھُوَالَّذِیْٓ اَحْیَاکُمْ ز ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیْکُمْ ط اِنَّ الْاِنْسَانَ لَکَفُوْرٌ۔ (الحج : 66) (اور وہی ہے جس نے تمہیں زندگی عطا کی پھر وہ تم کو موت دیتا ہے، پھر وہ تمہیں زندہ کرے گا۔ بیشک انسان بڑا ہی ناشکرا ہے۔ ) انسان کے کردار کی بنیادی خرابی اس آیت کریمہ میں دو باتوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ ایک تو یہ بات کہ گزشتہ آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے کچھ احسانات کا ذکر فرمایا ہے اور یہ بھی بتلایا ہے کہ اس کی الطاف و عنایات صرف اس لیے ہیں کہ وہ رؤف ورحیم ہے۔ یہ بات بجائے خود شرم دلانے کے لیے کافی ہے کہ قریش اور دوسرے مشرکین مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ کررہے ہیں وہ تو اس قابل ہے کہ ان پر عذاب کا کوڑا برسے اور ان کی ڈھٹائی کا حال یہ ہے کہ وہ بجائے اپنی حرکتوں پر نادم ہونے کے باربار پیغمبر سے عذاب کا مطالبہ کررہے ہیں۔ لیکن ان تمام باتوں کے باوجود اللہ تعالیٰ رحمت کا سلوک فرماتے ہوئے انھیں مہلت عمل بھی دے رہے ہیں اور نعمتوں سے بھی نواز رہے رہیں کیونکہ یہی ان کی رأفت و رحمت کا تقاضا ہے۔ پیشِ نظر آیت کریمہ میں یہ فرمایا جارہا ہے کہ اللہ کی تم پر بیشمار عنایات ہیں۔ لیکن اس سے بھی بڑی اس کی عنایت یہ ہے کہ اس نے تمہیں زندگی عطا کی۔ اگر زمین پر بیشمار نعمتوں کی حکمرانی ہوتی لیکن ان سے محظوظ ہونے والا کوئی نہ ہوتا تو اس کا کیا فائدہ ہوتا ؟ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنا مزید احسان جتلاتے ہوئے فرمایا کہ اللہ وہ ذات ہے جس نے تمہیں زندگی بخشی تاکہ تم ان نعمتوں سے فائدہ اٹھائو اور اللہ کا شکر بجالائو۔ دوسری بات جس کی طرف توجہ دلائی جارہی ہے وہ یہ ہے کہ تم عذاب میں تاخیر کے باعث اللہ کے رسول کے مقابلے میں اور دلیر ہوتے جارہے ہو اور یہ سمجھ رہے ہو کہ اگر اللہ کا عذاب آنا ہوتا تو آج تک آچکا ہوتا۔ چناچہ ان کی اس کوتاہ فہمی پر توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ جس اللہ نے بیشمار نعمتوں سے محظوظ ہونے کے لیے تمہیں زندگی بخشی ہے اور پھر وہی اللہ طبعی زندگی کے اختتام پر تمہیں موت دیتا ہے وہی ایک دن تمہیں دوبارہ زندہ کرے گا۔ جس طرح تمہیں اس نے پہلی دفعہ زندہ کیا تو اسے کوئی دشواری پیش نہیں آئی اسی طرح جب وہ تمہیں دوبارہ زندہ کرے گا، تاکہ تمہاری زندگی کا حساب لیا جائے تو اس وقت بھی اسے کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی کیونکہ اس کے لیے دوبارہ زندہ کرنا پہلی دفعہ زندہ کرنے سے زیادہ مشکل نہیں۔ اس میں کہنا یہ ہے کہ تم فرض کرو اگر عذاب سے بچ بھی گئے تو قیامت بہرحال آکر رہے گی۔ قیامت میں سب کو اللہ کے سامنے پیش ہونا ہے اور قیامت کا عذاب دنیا کے عذاب سے کہیں شدید ہوگا۔ آیت کے آخر میں فرمایا کہ قریش اور دیگر مشرکین کے رویے اور اللہ کے دین کے مقابلے میں تمرد اور سرکشی کا باعث اصل میں یہ ہے کہ انسان اپنے رب کا بہت ناشکرا ہے۔ یہاں انسان سے مراد قریش ہی ہیں کیونکہ روئے سخن انھیں کی طرف ہے۔ البتہ ! ان کا نام لیے بغیر ایک عام لفظ سے ان کا ذکر اظہارِ نفرت کے لیے کیا۔ یعنی اللہ کی نگاہ میں وہ لوگ اس قابل نہیں ہیں کہ ان کا نام لیا جائے۔ ناشکرا ہونا چونکہ ان کی بنیادی بیماری ہے اس لیے بڑی سے بڑی نعمت سے وہ متمتع ہورہے ہیں لیکن منعم حقیقی کا شکر بجالانے کی انھیں توفیق نہیں ملتی۔
Top