Ruh-ul-Quran - Al-Hajj : 77
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ارْكَعُوْا وَ اسْجُدُوْا وَ اعْبُدُوْا رَبَّكُمْ وَ افْعَلُوا الْخَیْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ۩  ۞
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : وہ لوگ جو ایمان لائے ارْكَعُوْا : تم رکوع کرو وَاسْجُدُوْا : اور سجدہ کرو وَاعْبُدُوْا : اور عبادت کرو رَبَّكُمْ : اپنا رب وَافْعَلُوا : اور کرو الْخَيْرَ : اچھے کام لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تُفْلِحُوْنَ : فلاح (دوجہان میں کامیابی) پاؤ
اے لوگوجو ایمان لائے ہو ! رکوع کرو اور سجدہ کرو اور اپنے رب کی بندگی کرو اور بھلائی کے کام کروتا کہ تم فلاح پائو۔
یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوا ارْکَعُوْاوَاسْجُدُوْاوَاعْبُدُوْارَبَّکُمْ وَافْعَلُوا الْخَیْرَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ۔ (الحج : 77) (اے لوگوجو ایمان لائے ہو ! رکوع کرو اور سجدہ کرو اور اپنے رب کی بندگی کرو اور بھلائی کے کام کروتا کہ تم فلاح پائو۔ ) امتِ مسلمہ کا منصب پیشِ نظر آیات خاتمہ سورة کی آیات ہیں۔ اس سے پہلے مشرکینِ مکہ کی بداعمالیوں اور حدود پامالیوں کے حوالے سے یہ بات واضح کی گئی ہے کہ اللہ نے اپنا گھر ان کی تولیت میں دیا تھا کیونکہ یہ اپنے عظیم باپ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی ذمہ داریوں کے وارث تھے لیکن انھوں نے اس کا حق ادا کرنا تو دور کی بات ہے اللہ کے گھر کی عظیم حیثیت کو تہہ وبالا کرکے رکھ دیا ہے۔ اسے اللہ نے توحید کا مرکز بنایا تھا حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل (علیہما السلام) نے وہاں سے ایک امت مسلمہ کے اٹھائے جانے کی دعائیں کی تھیں۔ لیکن انھوں نے تین سو ساٹھ بتوں کا اسے مرکز بنادیا۔ توحید کا وہ مرکز شرک کی آماجگاہ بن گیا۔ اگرچہ انھوں نے حجاج کی خدمت کی اور اللہ کے گھر کے احترام کو باقی رکھنے کے لیے مقدور بھر کوششیں کیں۔ لیکن اس کی اصل حیثیت اور اس گھر کی تعمیر کے مقاصد کو بالکل تباہ و برباد کردیا اسی کو پروردگار نے ان کی خیانت اور کفرانِ نعمت قرار دیا ہے۔ اور یہ فرمایا کہ ان کی ان حرکتوں کی وجہ سے اب ہم انھیں بیت اللہ کی تولیت کے عظیم منصب سے معزول کر رہے ہیں اور اب یہ ذمہ داری اس نوزائیدہ امت کو سونپی جارہی ہے جو اس گھر کی عظمت کو سمجھتی اور اس کی تعمیر کے مقاصد کو پہچانتی ہے۔ مطلوبہ صفات کی تیاری کی ہدایت پیشِ نظر آیت کریمہ میں مسلمانوں سے براہ راست خطاب فرماکر انھیں اس عظیم ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے اپنے اندر جن صفات کا پیدا کرنا ضروری ہے ان کی طرف توجہ دلائی جارہی ہے۔ سب سے پہلی بات یہ فرمائی ہے کہ رکوع کرو اور سجدہ کرو۔ سجدہ کرو چونکہ امر کا صیغہ ہے اس لیے اس سے امام شافعی اور بعض دوسرے جلیل القدر علماء نے یہ سمجھا کہ یہ آیت سجدہ ہے اور اس آیت کے پڑھنے والے کے لیے سجدہ ادا کرنا ضروری ہے۔ اور اس سے انھوں نے ایک تو ” اسجدوا “ کے لفظ سے استدلال کیا اور دوسری بات انھوں نے یہ کہی کہ حضرت عقبہ بن عامر کی روایت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ انھوں نے آنحضرت ﷺ سے پوچھا کہ کیا اس سورة کو اللہ نے دوسجدوں سے فضیلت عطا فرمائی ہے۔ تو آپ نے فرمایا : ہاں۔ تو اس کا مطلب واضح ہے کہ یہ آیت سجدے کی آیت ہے۔ اور تیسری دلیل ان کی یہ ہے کہ ابن ماجہ کی روایت میں حضرت عمرو بن عاص کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ان کو سورة حج میں دو سجدے سکھائے تھے۔ اس کے جواب میں احناف کی رائے یہ ہے کہ یہ آیت آیت سجدہ نہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ اس آیت میں صرف سجدے کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ رکوع کا بھی حکم دیا گیا ہے۔ اور جہاں یہ دونوں حکم اکٹھے آتے ہیں اس کا مطلب نماز ہوتا ہے کیونکہ دونوں کا وقوع نماز ہی میں ہوسکتا ہے۔ اور جہاں تک احادیث کا تعلق ہے احناف کے نزدیک ان میں سے کسی حدیث کی سند پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتی اور جہاں تک اقوالِ صحابہ کا تعلق ہے انھوں نے حضرت عبداللہ ابن عباس کا یہ قول نقل کیا ہے کہ وہ یہ کہتے ہیں کہ سورة حج میں دوسجدے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ پہلا سجدہ لازمی ہے اور دوسرا سجدہ تعلیمی ہے۔ نماز کا حکم اس امت کو اس مقصد پر فائز کرتے ہوئے پہلا حکم یہ دیا گیا ہے کہ تم رکوع و سجود کرو یعنی نما زپڑھو۔ اور ہم اس پہلے بھی آیت نمبر 41 میں پڑھ چکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان مسلمانوں کی جنھیں وہ اقتدار دینا چاہتا ہے پہلی صفت یہ بیان کرتا ہے کہ وہ نماز قائم کرتے ہیں۔ نماز درحقیقت صرف ایک عبادت نہیں بلکہ اس عبادت میں وہ تمام حقائق جمع کردیئے گئے ہیں جس کے نتیجے میں اسلامی زندگی وجود میں آتی ہے۔ دنیا کی امامت وسیادت کا منصب اپنے اندر بڑی نزاکت رکھتا ہے جہاں یہ ذمہ داری ہے وہاں خلافت کی صورت میں اقتدار کا راستہ بھی ہے اور اقتدار ایک ایسی نازک ذمہ داری اور ایک ایسی کٹھن آزمائش ہے کہ جس شخص کی سیرت و کردار میں معمولی سی بھی خرابی موجود ہو وہ کبھی بھی اقتدار کی ذمہ داریوں کو باحسن طریق ادا نہیں کرسکتا اور پھر اسلامی اقتدار کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ وہ درحقیقت اللہ کی زمین پر اللہ کی حکومت کو قائم کرنا ہے۔ نیکیوں کو فروغ دینا اور برائیوں کو ختم کرنا ہے۔ ایسی ذمہ داری صرف وہ شخص یا وہ قوم ادا کرسکتی ہے جو اپنے آپ کو اللہ کی چاکر سمجھتی ہو۔ اس کی فکر اور اس کی قوت عمل پر اللہ کی حاکمیت کی چھاپ لگی ہو اور نماز اس راستے پر چلنے کی وہ روشنی مہیا کرتی ہے جس کے بعد ذمہ داری کا سفر آسان ہوجاتا ہے۔ آدمی جب ہاتھ اٹھا کر نیت باندھتا ہے تو وہ ساری دنیا سے ہاتھ اٹھا لیتا ہے اور نیت باندھ کر جب وہ اللہ کی حمد وثنا کرتا ہے تو اللہ سے عہد وفا باندھتا ہے اور عہد کرتا ہے کہ میرا قیام میرا رکوع اور میرا سجود صرف تیرے لیے اور تیرے دین کی سربلندی کے لیے ہوگا۔ اقتدار آدمی میں خواہشات کو ابھارتا، دل و دماغ میں رعونت اور تکبر کا خناس پیدا کرتا اور اپنے مفادات کو ترجیح دینے کا راستہ دکھاتا ہے اور نماز ان تمام چیزوں سے صرف اللہ کے لیے دستبرداری کا پیغام دیتی ہے۔ ایک طرف تو وہ دنیا کی ہر طاقت سے سر اٹھانے کی تعلیم دیتی اور ہر آستانے کو پائوں کی ٹھوکروں پر اچھالنے کی ترغیب دیتی ہے اور دوسری طرف اللہ کے لیے عجز ونیاز پیدا کرتی اور سب کچھ اس کے راستے میں قربان کرنے کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔ اللہ کی اطاعت اس کے بعد فرمایا : وَاعْبُدُوْا رَبَّکُم۔ یہاں عبادت اطاعت کے معنی میں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہیں جس طرح نماز اللہ کے لیے ہی پڑھنی ہے، اسی کے لیے سرجھکانا ہے اور زندگی کے ہر معاملے میں اسی کا طاعت کرنی ہے۔ اللہ سے تمہارے تعلق کا مفہوم یہ ہرگز نہیں کہ وہ مسجد کی فضا تک محدود ہو کر رہ جائے۔ بلکہ تم اپنے رب کی عبادت کے ساتھ ساتھ اطاعت کے بھی پابند ٹھہرائے گئے ہو۔ جس طرح تمہارا قیام رکوع اور سجود صرف اسی کے لیے ہے اسی طرح تمہاری زندگی کا ہر شعبہ اسی کے علم کی روشنی میں منور ہونا چاہیے۔ آئین اور قانون تمہارے لیے وہی قابل قبول ہے جسے قرآن کریم نے پیش کیا ہے۔ تمہاری معاشرت، معیشت، سیاست اور حکومت کی ترجیحات وہی ہیں جو اللہ کے دین نے تمہارے لیے مقرر کردی ہیں۔ خلقِ خدا کی خدمت وَافْعَلُوا الْخَیْرَ :’، ’ اور بھلائی کے کام کرو “۔ اس حکم نے پہلے دونوں احکام کے ساتھ مل کر زندگی کے تمام دوائر کو مکمل کردیا۔ جس طرح عبادت اللہ کی اور اطاعت بھی اسی کی، اسی طرح خدمت تمام نوع انسانی کی۔ بھلائی کے کام اپنے اندر بہت وسعت رکھتے ہیں اور ان کا تعلق صرف مسلمانوں سے نہیں بلکہ پوری نوع انسانی سے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو چونکہ امامت وسیادت دینے کا فیصلہ کرلیا ہے تو جس طرح ان کی توجہ اور خدمت کے مستحق مسلمان ہیں اسی طرح وہ لوگ بھی ہیں جو اگرچہ دائرہ اسلام میں داخل نہیں لیکن مسلمانوں کی مملکت میں رہنے کے باعث ہر طرح کی بھلائی کے مستحق ہیں بلکہ اسلام تو ان لوگوں کے ساتھ بھی بھلائی کا حکم دیتا ہے جو مملکتِ اسلامیہ کے باسی نہ ہوں۔ ان کا تعلق کسی بھی ملک سے ہو ان تک اللہ کے دین کی دعوت پہنچانا اور اگر وہ کسی ابتلا میں مبتلا ہوں تو ان کی مدد کرنا اس حکم میں شامل ہے۔ مکہ معظمہ میں جب قحط پھیلا، باوجود اس کے کہ اہل مکہ مسلمانوں کے ساتھ برسرپیکا ر تھے۔ لیکن جب انھوں نے آنحضرت ﷺ سے بھوک سے مرتے ہوئے لوگوں کی مدد کی درخواست کی تو آنحضرت ﷺ نے امکانی حدتک ان کی مدد فرمائی اور انھیں بھوک کی اذیت سے بچایا۔ آخر میں فرمایا کہ اگر تم ان تمام ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی کوشش کرو تو اس بات کی امید ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں دنیوی اورا خروی فوزوفلاح سے نوازے۔
Top