Ruh-ul-Quran - Al-Hajj : 8
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یُّجَادِلُ فِی اللّٰهِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّ لَا هُدًى وَّ لَا كِتٰبٍ مُّنِیْرٍۙ
وَ : اور مِنَ النَّاسِ : لوگوں میں سے مَنْ : جو يُّجَادِلُ : جھگڑتا ہے فِي اللّٰهِ : اللہ (کے بارے) میں بِغَيْرِ عِلْمٍ : بغیر کسی علم وَّ : اور لَا هُدًى : بغیر کسی دلیل وَّلَا : اور بغیر کسی كِتٰبٍ : کتاب مُّنِيْرٍ : روشن
اور لوگوں میں ایسے بھی ہیں جو بغیر کسی علم، بغیر کسی ہدایت اور بغیر کسی روشن کتاب کے اللہ کے بارے میں بحث کرتے ہیں۔
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یُّجَادِلُ فِی اللّٰہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّلاَ ھُدًی وَّلاَ کِتٰبٍ مُّنِیْرٍ ۔ ثَانِیَ عِطْفِہٖ لِیُضِلَّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ط لَہٗ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ وَّنُذِیْقُہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ عَذَابَ الْحَرِیْقِ ۔ (الحج : 8، 9) (اور لوگوں میں ایسے بھی ہیں جو بغیر کسی علم، بغیر کسی ہدایت اور بغیر کسی روشن کتاب کے اللہ کے بارے میں بحث کرتے ہیں۔ (تکبر سے) گردن مروڑے ہوئے تاکہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی راہ سے برگشتہ کریں، ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور ہم قیامت کے دن انھیں آگ کا عذاب چکھائیں گے۔ ) مجادلین بےعقل اور امی محض تھے اس آیت کا پہلا حصہ آیت تین میں گزر چکا ہے۔ یہ آیت اسی آیت کی تفصیل معلوم ہوتی ہے۔ بتانا یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ کی دعوت کے مخالفین اور مجادلین ایسے نہیں تھے جو قرآن کریم کے بیان کردہ دلائل کا علم یا عقل سے جواب دے سکتے اور نہ ان کے پاس کسی آسمانی کتاب کی سند موجود تھی۔ وہ امی محض ہونے کی وجہ سے ہر طرح کے علم اور ہر طرح کی کتاب ہدایت سے بےبہرہ تھے اور جہاں تک عقل کا تعلق تھا اسے انھوں نے اپنے جذبات کی نذر کردیا تھا۔ اس لیے ان کی بحث اور جھگڑے کی بنیاد کوئی علمی حوالہ یا عقل کا کوئی مسلمہ اصول نہیں تھا بلکہ ان کی سب سے بڑی دلیل صرف یہ تھی کہ چونکہ ہم نے اپنے آبائواجداد کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک کرتے ہوئے اور قیامت کا انکار کرتے ہوئے دیکھا یا سنا ہے تو ظاہر ہے کہ ہم ان کی مخالفت کا تصور بھی نہیں کرسکتے، وہ ہماری عقیدت کا مرجع ہیں اور ہماری قومی شیرازہ بندی کا سب سے مضبوط بندھن ہیں۔ جو بات ان کے خیالات اور ان کے طرز عمل کے خلاف ہوگی اسے ہم کسی طور برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ قرآن کریم نے سورة لقمان میں خود اس حقیقت کو واشگاف کیا ہے۔ ارشاد فرمایا : وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یُّجَادِلُ فِی اللّٰہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّلاَ ھُدًی وَّلاَ کِتٰبٍ مُّنِیْرٍ ۔ وَاِذَاقِیْلَ لَھُمُ اتَّبِعُوْا مَااَنْزَلَ اللّٰہُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِعُ مَاوَجَدْنَا عَلَیْہِ آبَائَ نَاط (اور لوگوں میں ایسے بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے بارے میں بغیر کسی علم بغیر کسی ہدایت اور بغیر کسی روشن کتاب کے جھگڑا کرتے ہیں۔ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اتاری ہوئی چیز کی پیروی کرو تو کہتے ہیں ہم اسی طریقہ کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔ ) آباء پرستی عصبیت اور تکبر پیدا کرتی ہے یہ واضح دلیل ہے اس بات کی کہ ان کے پاس قرآن کریم کے دلائل کا آباء پرستی کے سوا کوئی جواب نہ تھا اور انسان کی فطرت یہ ہے کہ جب وہ دلیل کا جواب دلیل سے نہیں دے سکتا اور اس کے نظریاتی سرمائے میں آبائواجداد کی محبت اور عقیدت کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا تو پھر وہ اپنے آباء کی عصبیت میں اندھا ہوجاتا ہے۔ وہ دلیل کا مقابلہ ان کی عصبیت سے کرتا ہے۔ اور وہ بات بات پر برہم ہو کر مرنے مارنے پر اتر آتا ہے کیونکہ وہ دیکھتا ہے کہ اگر میں نے ان کی دلیل کو قبول کرلیا تو میرے وہ تمام عقائد جو آبائواجداد سے ورثے میں ملے ہیں غلط ثابت ہوجائیں گے، اور یہ چیز میں گوارہ نہیں کرسکتا۔ چناچہ اس کے رویئے میں برہمی کے ساتھ ساتھ تکبر شامل ہوجاتا ہے۔ وہ یہ کہتا ہے کہ کہاں ہم اور ہمارے آبائواجداد اور کہاں تم بھوکے ننگے لوگ، تم ہمیں سمجھانے نکلے ہو اور ہمارے آبائواجداد کو گمراہ کہتے ہو، ہم اسے کسی طور بھی برداشت نہیں کرسکتے۔ چناچہ قرآن کریم نے اس بات کی بھی تائید کی ہے۔ ارشاد فرمایا : اِنَ الَّذِیْنَ یُجَادِلُوْنَ فِیْ اٰ یَاتِ اللّٰہِ بِغَیْرِ سُلْطَانٍ اَ تَاھُمْ اِنْ فِیْ صُدُوْرِھِمْ اِلاَ کِبْرٌمَّاھُمْ بِبَالِغِیْہِ ۔ (بیشک جو لوگ اللہ کی آیات کے بارے میں بغیر کسی دلیل کے، جو ان کے پاس آئی ہو، کٹھ حجتی کرتے ہیں، ان کے دلوں میں صرف غرور ہے جس میں ان کو کامیابی حاصل ہونے والی نہیں ہے۔ ) چناچہ اسی کیفیت کو پیش نظر آیت کریمہ میں ثَانِیَ عِطْفِہٖ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس کا معنی ہوتا ہے غرور و نخوت سے اپنی گردن کو مروڑنا۔ امامِ قرطبی اس کا مفہوم بیان کرتے ہیں۔ توی عنقہ مرحًا وتضرمًا۔ اشرافِ قریش کے انکار اور تکبر کا مقصد ایک تو یہ ہے کہ وہ آبائواجداد کی عصبیت کو آنحضرت ﷺ کی دعوت کے سامنے ڈھال کے طور پر استعمال کررہے تھے۔ اگر وہ جذبات سے ہٹ کر عقل سے کام لینے کی کوشش کرتے اور آنحضرت ﷺ کی بات کو سننے کی زحمت کرتے تو بہت ممکن تھا کہ وہ ہدایت یاب ہوجاتے۔ لیکن انھوں نے آباء کی عصبیت اور عقیدت کو اتنی مضبوطی سے اپنے سامنے رکھا کہ کوئی نصیحت اور کوئی عقل کی بات ان تک پہنچنے نہیں پاتی تھی اور پھر یہ عصبیت جب کمزوری کا خطرہ محسوس کرتی ہے تو پھر یہ غصے میں بھڑک اٹھتی ہے اور کبروغرور کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ چناچہ اشرافِ قریش بھی ایسی ہی صورتحال سے گزر رہے تھے اور دوسرا مقصد جو ان کے پیش نظر تھا وہ یہ تھا کہ وہ اپنی رائے پر مضبوطی سے قائم رہ کر دوسروں کو یہ تأثر دینے کی کوشش کررہے تھے کہ اگر ہمارا نقطہ نگاہ غلط ہوتا تو ہم ضرور اس میں کمی بیشی کرنے کی کوشش کرتے لیکن ہم جب کسی بات کو بھی قبول کرکے نہیں دے رہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے عقیدے میں بالکل راست اور برسرحق ہیں۔ اس طرح سے وہ بظاہر اپنی استقامت اور مضبوط روی سے لوگوں کو گمراہی پر قائم رکھنے کی کوشش کرتے تھے۔ استکبار کی سزا رسوائی اور عذاب نار ہے آیت کے آخری حصے میں فرمایا گیا ہے کہ مشرکین نے چونکہ قرآن کریم اور آنحضرت ﷺ کی دعوت کے مقابلے میں کبروغرور کا رویہ اختیار کیا ہے اور اپنی جہالت کے مقابلے میں وحی الٰہی کو بھی خاطر میں لانے کے لیے تیار نہیں، تو ان کے اس رویئے کی سزا اس کے سوا کچھ نہیں ہوسکتی کہ ان کو دنیا میں ذلت سے دوچار کردیا جائے۔ چناچہ مکہ جو عرب کا مرکز اعصاب تھا اور جسے طاقت اور قوت کا سرچشمہ اور مرکز سمجھا جاتا تھا اور قریش کو پورے عرب میں عقیدت اور محبت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ جنگ بدر میں ان کی پہلی صف تہ تیغ ہوگئی اور دوسری صف گرفتار ہو کر ذلت کا شکار ہوگئی اور پھر آٹھ ہجری میں ان متکبرین نے ہاتھ باندھ کر آنحضرت ﷺ سے جان کی امان مانگی اور ان کی اکثریت قسمت کی دھنی نکلی کہ اسلام کی آغوش میں آگئی۔ چند سرپھرے تھے جو ملک چھوڑ کر بھاگ نکلے۔ مزید فرمایا کہ یہ چونکہ حق کے مقابلے میں استکبار کا مظاہرہ کیا کرتے تھے اور اسلامی دعوت اور اس کی کامیابیوں کی صورت میں ان کے سینے پر سانپ لوٹتے تھے اور نفرت کا دل میں ایک الائو جلتا رہتا تھا۔ اس لیے قیامت کے دن اس کی سزا یہ دی جائے گی کہ ان کو نار جہنم سے جلایا جائے گا۔ یعنی جس طرح وہ دنیا میں حق کے خلاف غصہ اور نفرت اور حسد سے جلتے رہے اس کی پاداش میں وہ آخرت میں جلنے کا عذاب برداشت کریں گے۔
Top