بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Ruh-ul-Quran - Al-Muminoon : 1
قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ
قَدْ اَفْلَحَ : فلائی پائی (کامیاب ہوئے) الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن (جمع)
(بےشک فلاح پائی ہے ایمان والوں نے
قَدْاَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ ۔ (المومنون : 1) (بےشک فلاح پائی ہے ایمان والوں نے۔ ) اس سورة کا آغاز اگرچہ ایک سپاٹ انداز میں کیا گیا ہے۔ لیکن جن کی نگاہوں میں وہ زمانہ اور وہ حالات ہیں جب یہ سورة نازل ہوئی ہے تو ان کے لیے سمجھنا مشکل نہیں کہ اس بےتکلف انداز میں درحقیقت کن حقائق کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ حقیقت کا ادراک تو اللہ کے سوا کسی اور کو نہیں ہوسکتا۔ لیکن جو باتیں انسانی فکر بہ ادنیٰ تجسس جان سکتی ہے ان میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں۔ فلاح کی حقیقت 1 یہاں فلاح سے مراد درحقیقت وہ فلاح نہیں جس کا تصور اشرافِ قریش کے دل و دماغ پرچھایا ہوا تھا۔ ان کا خیال یہ تھا کہ فلاح دراصل دنیوی عیش و عشرت، تجارت کی وسعت، دولت کی فراوانی، عہدہ ومنصب اور شہرت وناموری کا میسر آنا ہے۔ خدم وحشم کی فراوانی عام انسانوں پر رعب وہیبت، عرب وبیرونِ عرب قابل ذکر قوتوں سے تعلقات، یہ وہ سرمایہ ہے جس کے حاصل ہوجانے پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہمیں فلاح میسر آگئی ہے۔ اس لیے قریش کے چھوٹے بڑے لوگ درجہ بدرجہ چونکہ اس فلاح کے وسائل پر قابض اور ان سے متمتع ہورہے تھے تو وہ بجاطور پر یہ سمجھتے تھے کہ ہمیں کسی اور فلاح کی ضرورت نہیں۔ فلاح وہی ہے جو اس سے پہلے ہمیں حاصل ہے۔ لیکن اس کے برعکس مسلمان جس زبوں حالی سے گزر رہے تھے اور رفتہ رفتہ جس طرح ان کے مالی حالات قابل رحم ہوتے جارہے تھے اور ان میں بیشتر لوگ نان شبینہ کے محتاج ہو کر رہ گئے تھے اور روز بروز حوائجِ دنیا ان کے لیے ایک مسئلہ بنتی جارہی تھیں۔ قریش کی نگاہوں میں یہ لوگ ہر طرح کی فلاح سے محروم اور نہایت بدنصیب لوگ تھے۔ اس آیت کے حوالے سے اس غلط تصور پر چوٹ لگائی جارہی ہے کہ تم جن چیزوں کو فلاح و کامرانی کی علامت سمجھتے ہو ان کی حقیقت فریبِ نظر سے زیادہ نہیں۔ اقبال نے ٹھیک کہا ؎ یہ مال و دولت دنیا یہ رشتہ و پیوند بتانِ وہم و گماں لا الہ الا اللہ دولت و حشمت، عہدہ ومنصب، اسباب ووسائل، انسان کی ضروریات تو ہیں، نہ یہ حقیقتِ انسان ہیں اور نہ مقاصدِ انسان۔ ان کی کمی بیشی سے صبر وشکر کی صفات تو ضرور پیدا ہوتی ہیں لیکن انسان کی حقیقتِ نفس الامری پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ قومیں جب بھی سرافراز ہوتی ہیں وہ ہمیشہ مقاصد سے وابستگی، کردار کی پختگی، اخلاق کی توانائی اور قلب ونگاہ کی روشنی سے ہوتی ہیں، وسائل واسباب سے نہیں۔ انقلاب کا سیل غریب کے جھونپڑے سے نکلتا ہے، جس میں امیروں کے محلات بہہ جاتے ہیں۔ دنیا کا بنائو ہمیشہ انسان کے بنائو کا مرہونِ منت رہا ہے اور دنیا کا بگاڑ انسان کے بگاڑ کا نتیجہ۔ اقبال نے خوب کہا ؎ تیری روح میں ہے اگر شرر تو خیال فقر و غنا نہ کر کہ جہاں میں نان شعیر پر ہے مدار قوت حیدری 2 دوسری بات جس کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ کے رسول دنیا میں جس دین کی دعوت لے کر آتے ہیں اس کا مرکزی موضوع یا ہدف انسان کی اصلاح ہوتا ہے۔ اگر کوئی دعوت بہتر سے بہتر انسان تیار کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ دعوت صحیح، برحق اور منجانب اللہ ہے۔ لیکن اگر وہ انسان کی تعمیرِ کردار کی بجائے کچھ اور قسم کے احساسات اور اذواق ومیلانات، انسان کے اندر پیدا کردیتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ دعوت ناکام بھی ہے اور کاذب وفاسد بھی۔ نبی کریم ﷺ نے مکہ کی سرزمین پر جن لوگوں کو سب سے پہلے اپنی دعوت اور تبلیغ کا ہدف بنایا ان میں عقیدہ وعمل کی کوئی ایسی خرابی نہیں، جو نہ پائی جاتی ہو۔ اور سیرت واخلاق کا کوئی ایسا فساد نہیں جس کی وہ علامت نہ ہوں۔ لیکن نبی کریم ﷺ کی دعوت کے نتیجے میں جو لوگ ایمان لائے، پیش نظر رکوع میں ان کی صفات کا ایک مرقع پیش کیا گیا ہے اور یہ مرقع ایسا ہے جس کی صحت و صداقت میں دشمن کو بھی کوئی شبہ نہیں ان میں سے ایک ایک شخص ان تمام صفات سے موصوف ہے۔ ان کا وجود اور ان کی صفات اس بات کی دلیل ہیں کہ جس دعوت نے ایسے حیران کن لوگ تیار کیے ہیں جو انسانی پتھروں کے ڈھیر میں چمکنے والے ہیروں سے کم نہیں، وہ دعوت یقینا حق کی دعوت ہے اور جس عظیم شخصیت نے اپنی تربیت کے زور سے ان لوگوں کو تیار کیا ہے، اس کے رسول برحق ہونے میں کیا شبہ ہوسکتا ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ دنیا نے زندگی کے بہت سے معیارات بنارکھے ہیں۔ اور انھیں معیارات کو برحق اور قابل عمل سمجھتے ہوئے اہل دنیا انھیں بروئے کار لانے میں مصروف ہیں۔ اسی کا ایک نمونہ قریش کی فکر اور ان کی زندگی ہے۔ وہ اس سے مختلف کسی پیمانہ فکر اور کسی زاویہ نگاہ کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ لیکن یہ تمام وہ معیارات ہیں جس نے دنیا کو دکھوں سے بھر دیا ہے اور زمین میں جا بجا فساد پھیل گیا ہے۔ انسان ان کے برے نتائج کے زخم سہہ رہا ہے۔ لیکن صحیح اور مفید زاویہ نگاہ اس کے سامنے نہیں۔ زندگی کا کوئی ایسا نمونہ جو لوگوں کو اپیل کرسکے دور دور تک دکھائی نہیں دیتا۔ ایسی تاریکی اور ایسی بےبسی میں اچانک یہ نغمہ سرمدی آسمان سے اترتا ہے اور لوگوں کے سامنے زندگی کی ایسی تصویر رکھ دیتا ہے، جس کا عنوان فلاح و کامرانی ہے۔ پیشِ نظر آیت کریمہ میں جس فلاح کا ذکر کیا گیا ہے اس کے حوالے سے دو باتیں جاننا بہت ضروری ہیں۔ ایک تو یہ بات کہ اس فلاح سے مراد صرف فلاحِ اخروی نہیں۔ اگرچہ ایک مومن کے لیے حقیقی مقصود یہی فلاح ہے اور وہ اسی فلاح کے حصول کے لیے اپنا مال و دولت، اپنا عیش و آرام، حتی کہ اپنی زندگی بھی قربان کردیتا ہے اور اس قربانی کو بھی کامیابی کا زینہ سمجھتا ہے۔ لیکن اللہ کی طرف سے اصحابِ ایمان کو جس فلاح و کامرانی کا مژدہ سنایا گیا ہے، وہ اخروی کامیابی کے ساتھ ساتھ دنیوی کامیابی بھی ہے۔ جس کا ذکر گزشتہ سورة میں کیا گیا ہے۔ وہاں اللہ تعالیٰ نے تین وعدے فرمائے ہیں اور تینوں کا تعلق دنیا سے ہے اور اس آیت کریمہ میں چوتھا وعدہ کیا گیا ہے جس کا تعلق جنت الفردوس سے ہے۔ دنیا میں جو تین وعدے کیے گئے ہیں وہ یہ ہیں۔ 1 استخلاف فی الارض 2 مسلمانوں کے لیے ان کے دین کا تمکن 3 خوف کی بجائے امن چناچہ اللہ تعالیٰ نے دور نبوت اور خلافتِ راشدہ میں تینوں وعدے پورے فرمائے۔ اسی طرح جنت الفردوس کے وعدے کے ایفا میں بھی کوئی شبہ نہیں۔ دوسری بات فلاح کے حوالے سے جس کا جاننا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ اللہ نے اخروی فلاح کا وعدہ ظاہر ہے مستقبل میں یعنی قیامت میں فرمایا ہے۔ لیکن اس کو تعبیر ماضی کے صیغے سے کیا گیا ہے، جس سے یہ بات واضح کرنا مقصود ہے کہ مسلمانوں کو جنت اگرچہ قیامت کو ملے گی لیکن اللہ تعالیٰ کے یہاں چونکہ اس کا فیصلہ ہوچکا ہے اس لیے اس جنت کا ملنا اس طرح قطعی اور یقینی ہے جیسے یہ وعدہ پورا ہوچکا ہو۔ جو بات ہو چکتی ہے وہ ماضی بن جاتی ہے اور جو ہونے والی ہوتی ہے وہ مستقبل ہوتی ہے۔ یہاں ماضی کا صیغہ لانے سے اس کی قطعیت کا اظہار ہے۔
Top