Ruh-ul-Quran - Al-Muminoon : 101
فَاِذَا نُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَلَاۤ اَنْسَابَ بَیْنَهُمْ یَوْمَئِذٍ وَّ لَا یَتَسَآءَلُوْنَ
فَاِذَا : پھر جب نُفِخَ : پھونکا جائے گا فِي الصُّوْرِ : صور میں فَلَآ اَنْسَابَ : تو نہ رشتے بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان يَوْمَئِذٍ : اس دن وَّلَا يَتَسَآءَلُوْنَ : اور نہ وہ ایک دوسرے کو پوچھیں گے
تو جب صور پھونکا جائے گا تو اس دن نہ ان کے درمیان نسب کام آئے گا اور نہ وہ ایک دوسرے کو پوچھیں گے
فَاِذَا نُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَـلَآ اَنْسَابَ بَیْنَھُمْ یَوْمَئِذٍ وَّلَا یَتَسَآئَ لُوْنَ ۔ (المومنون : 101) (تو جب صور پھونکا جائے گا تو اس دن نہ ان کے درمیان نسب کام آئے گا اور نہ وہ ایک دوسرے کو پوچھیں گے۔ ) مضمون کا تسلسل اشرارِ قریش جو تکبر اور تمرد کی چلتی پھرتی تصویر تھے اور جنھیں اللہ تعالیٰ کے دین کی کوئی بات بھی پسند نہ آتی تھی انھیں گزشتہ آیت کریمہ میں ان کے انجام سے آگاہ کرتے ہوئے وہ منظر دکھایا گیا ہے جس میں وہ موت سے سابقہ پڑتے ہی گزریں گے۔ جیسے ہی ان پر نزع طاری ہوتی ہے تو یہ وہ وقت ہے جب اصحابِ ایمان کو ان کا انجام دکھا دیا جاتا ہے اور نہایت خوبصورت فرشتے تہنیتی کلمات سے انھیں خوش آمدید کہنے کے لیے تیار کھڑے ہوتے ہیں اور کافروں کو بھی آنے والے دنوں میں جو کچھ پیش آنے والا ہے اس کی ایک جھلک دکھائی جاتی ہے۔ فرشتے نہایت ڈرائونی صورتوں میں تہدید آمیز کلمات کے ساتھ ان کے استقبال کے لیے کھڑے ہوتے ہیں۔ سکرات الموت سے گزرنے والا کافر جان لیتا ہے کہ میرے ساتھ کیا کچھ پیش آنے والا ہے وہ اسی وقت اللہ تعالیٰ سے التجا کرتا ہے کہ مجھے واپس اسی دنیا میں جانے کی اجازت دی جائے تاکہ میں نیک عمل کرسکوں۔ یہ پہلا منظر ہے جس سے کافر کو سابقہ پیش آتا ہے۔ چناچہ ابھی وہ اسی چیخ و پکار میں ہوتا ہے کہ دوسرا منظر اس کے سامنے ابھرنے لگتا ہے۔ وہ یہ دیکھتا ہے کہ موت کی سرحد سے گزر کر میں ایک دوسری دنیا میں داخل ہوگیا ہوں اب اس دنیا اور آخرت کے درمیان ایک پردہ حائل ہوگیا ہے جس کے نتیجے میں آخرت کا اسے انتظار کرنا ہوگا، وہ اپنے وقت پر آئے گی اور دنیا کی طرف اس پردے کو عبور کرکے وہ جانے پر قادر نہیں۔ اسے بتادیا جائے گا کہ تمہیں اب اسی برزخ میں رہنا ہے اور یہاں تمہارے ساتھ وہی سلوک ہوگا جو اس شخص کے ساتھ ہوتا ہے جسے ایک مدت کے بعد بدترین سزا دی جانے والی ہوتی ہے۔ پھانسی کی سزا پانے والا دوسرے سزا یافتہ قیدیوں سے الگ کوٹھڑی میں رکھا جاتا ہے جو نسبتاً چھوٹی اور تکلیف دہ ہوتی ہے اور اس کا لباس دوسرے قیدیوں سے الگ وہ پہنایا جاتا ہے جسے پھانسی پانے والوں کا لباس کہا جاتا ہے۔ اسی طرح کافروں اور مشرکوں کے ساتھ بھی برزخ میں رہنے والے باقی لوگوں سے مختلف سلوک ہوگا۔ قیامت کے دن کی نفسا نفسی پیشِ نظر آیت کریمہ میں ایک تیسرے منظر سے پردہ اٹھایا جارہا ہے کہ برزخی زندگی کے اختتام پر اور آخرت کے اعلان کے طور پر جب دوسرا صور پھونکا جائے گا تو ہر شخص اپنے مسکن اور مدفن سے اٹھایا جائے گا اور اسے اس جگہ کی طرف ہانکا جائے گا جہاں سب کو حساب کتاب کے لیے پیش ہونا ہے جسے محشر یا میدانِ حشر کہا جاتا ہے۔ یہ قیامت کا دن اور قیامت کا میدان ہوگا اور جس کی ہر کیفیت اپنے اندر نہ جانے کتنی قیامت یں لیے ہوئے ہوگی۔ سب لوگ نفسی نفسی پکاریں گے۔ یہاں چونکہ ذکر صرف کفار کا ہے ان کے بارے میں خاص طور پر ان دو باتوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جن کے بل بوتے پر وہ آنحضرت ﷺ کو دھمکیاں دیتے اور ہر میدان میں اپنی کامیابی کا یقین رکھتے تھے۔ سرزمینِ مکہ اور جزیرہ عرب میں پھیلے ہوئے قبائل فکری وحدت کی وجہ سے ایک متحدہ قوت تھے۔ ہر قبیلے کو جب بھی کوئی ضرورت پیش آتی تو وہ اپنے ہم نسب لوگوں کو اکٹھا کرتا تھا اور اگر یہ کام مختلف قبائل کے مل کر کرنے کا ہوتا تو ہر قبیلہ دوسرے قبیلے کو جن کے درمیان فکری اشتراک ہوتا، مدد کے لیے پکارتا تھا۔ جس طرح جنگ خندق میں عرب بھر کے قابل ذکر قبائل اپنے تئیں مسلمانوں کا استحاصل کرنے کے لیے ایک فکر اور ایک حوالے سے جمع ہوگئے تھے، حالانکہ ان کی آپس میں دشمنیاں بھی تھیں لیکن اسلام اور مسلمان دشمنی ان کے نزدیک وہ جذبہ مشترکہ تھا جس نے ان کو یک مشت بنادیا تھا۔ یہ دو چیزیں چونکہ ان کی قوت کا سامان تھیں اور ان پر انھیں بڑا ناز تھا تو ان دونوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس آیت کریمہ میں فرمایا گیا ہے کہ یہ لوگ قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کھڑے ہوں گے تو ایک دوسرے کو پہچاننے سے بھی انکار کردیں گے۔ باہمی نسبی اشتراک رکھتے ہوئے بھی نسلی نسبتوں کو بھول چکے ہوں گے۔ کوئی کسی کو مدد کے لیے پکارنے کی ہمت نہیں کرے گا بلکہ ان کا حال یہ ہوگا یَوَدُّالْمُجْرِمُ لَوْیَفْتَدِیْ مِنْ عَذَابِ یَوْمَئِذٍبِبَنِیْہِ وَصَاحِبَتِہٖ وَاَخِیْہٖ وَفَصِیْلَتِہِ الَّتِیْ تُؤوِیْہِ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا ثُمَّ یُنْجِیْہِ ” ہر مجرم اس دن یہ چاہے گا کہ اپنی اولاد اور بیوی اور بھائی اور اپنی حمایت کرنے والے قریب ترین کنبے اور دنیا بھر کے سب لوگوں کو فدیئے میں دے دے اور اپنے آپ کو عذاب سے بچا لے “۔ (المعارج، آیات 11 تا 14) اور دوسری جگہ ارشاد فرمایا یُوْمَ یَفِرُّالْمَرْئُ مِنْ اَخِیْہِ وَاُمِّہٖ وَاَبِیْہِ وَصَاحِبَتِہٖ وَبَنِیْہِ لِکُلِّ امْرِیٍٔ مِنْہِمْ یُوْمَئِذٍ شَانٌ یُغْنِیْہِ ” جس روز آدمی اپنے بھائی اور ماں اور باپ اور بیوی اور اولاد سے بھاگے گا اس روز ہر شخص اپنے حال میں ایسا مبتلا ہوگا کہ اسے کسی کا ہوش نہ رہے گا۔ “
Top