Ruh-ul-Quran - Al-Muminoon : 17
وَ لَقَدْ خَلَقْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعَ طَرَآئِقَ١ۖۗ وَ مَا كُنَّا عَنِ الْخَلْقِ غٰفِلِیْنَ
وَ : اور لَقَدْ خَلَقْنَا : تحقیق ہم نے بنائے فَوْقَكُمْ : تمہارے اوپر سَبْعَ : ساتھ طَرَآئِقَ : راستے وَمَا كُنَّا : اور ہم نہیں عَنِ : سے الْخَلْقِ : خلق (پیدائش) غٰفِلِيْنَ : غافل
اور ہم نے تمہارے اوپر سات تہہ بہ تہہ آسمان بنائے اور ہم اپنی مخلوق کی مصلحتوں سے بیخبر نہ تھے
وَلَقَدْ خَلَقْنَا فَوْقَکُمْ سَبْعَ طَرَآئِقَ صلے ق وَمَا کُنَّا عَنِ الْخَلْقِ غٰفِلِیْنَ ۔ (المومنون : 17) (اور ہم نے تمہارے اوپر سات تہہ بہ تہہ آسمان بنائے اور ہم اپنی مخلوق کی مصلحتوں سے بیخبر نہ تھے۔ ) انسان کے آغاز اور اس کے انجام کا ذکر کرنے کے بعد اب یہاں سے اللہ تعالیٰ اپنے اس نظام ربوبیت کا ذکر فرمارہا ہے جس سے انسان کی بقا وابستہ ہے۔ اس میں انسانوں پر کیے جانے والے احسانات کا ذکر بھی ہے اور اس کی قدرت کا اظہار بھی۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت کو دیکھتے ہوئے یہ بات محض حماقت معلوم ہوتی ہے کہ جو پروردگار مٹی کے ست اور پانی کی ایک بوند سے انسان جیسی مخلوق پیدا کرسکتا ہے جس کے کمالات نے زمین کی وسعتوں کو نہ صرف جکڑ رکھا ہے بلکہ ورطہ حیرت میں ڈال رکھا ہے۔ اس کے بارے میں یہ سمجھنا کہ وہ انسانوں اور دوسری مخلوقات کو فنا کردینے کے بعد ازسر نو زندہ نہیں کرسکتا۔ اسی طرح ربوبیت کی صورت میں اپنے بیشمار احسانات میں سے چند احسانات کا ذکر فرماکر انسانوں کے لیے یہ لمحہ فکریہ پیدا کرنا چاہتا ہے کہ جس پروردگار نے انسان کی جسمانی زندگی کی بقا کے لیے اس قدر احسانات کیے ہیں کیا وہ اس کی معنوی اور روحانی زندگی کو اجر وثواب اور مکافاتِ عمل کے بغیر چھوڑ دے گا ؟ اور اگر ایسا ہوا تو یہ انسانی زندگی پر بہت بڑا ظلم ہوگا جبکہ اللہ جیسی محسن ذات اپنی مخلوق پر کبھی ظلم نہیں کرسکتی۔ طَرَآئِق کا مفہوم اس نے اپنی قدرت کے ظہور اور اپنے احسانات کے سلسلے میں سب سے پہلے سَبْعَ طَرَآئِق کا ذکر فرمایا ہے۔ اس کا ایک معنی تو یہ ہے کہ طرائق، طریقۃٌ کی جمع ہے۔” اَسِرَّۃٌ“ یعنی دھاریوں کے معنی میں آتا ہے۔ اس معنی میں یہ لفظ ظاہر ہے صفت کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ یہاں بھی صفت کے معنی میں استعمال ہوا ہے اور اس کا موصوف محذوف ہے۔ یعنی دھاریوں والے سات آسمان۔ مراد اس سے آسمان کی رنگا رنگی اور بو قلمونی ہے۔ دوسرا معنی یہ ہے کہطَرَآئِق، طَرَقَ سے ہے۔ عرب جب کسی چیز کو دوسری چیز کے اوپر رکھتے ہیں تو کہتے ہیں طارقتُ الشئی ای جعلت بعضہ علی بعض اور اگر ایک کپڑے کو دوسرے کپڑے کے اوپر پہنیں تو کہتے ہیں طارق بین ثوبین ای لبس احد ھما علی الاخر خلیل اور فراء نے اس کا یہی معنی کیا ہے۔ اس صورت میں اس کا یہ معنی ہوگا تہہ بہ تہہ سات آسمان۔ اس طرح سے یہ دونوں معنی یکساں ہیں۔ تیسرا معنی یہ ہے کہ طرائق، طریق کی جمع ہے جس کا معنی ہیں ” راستے “۔ تو اس صورت میں اس کا مطلب ہوگا ” سات سیاروں کی گردش کے راستے “۔ جن کے اوپر وہ مصروفِ حرکت رہتے ہیں۔ چوتھا معنی یہ ہے کہ اس سے مراد طبقات ہیں۔ سبع سموات طباقاً ۔ تو یہ وہی معنی ہے جو پہلے گزر چکا ہے یعنی سات تہہ بہ تہہ آسمان۔ ان آسمانوں کی حقیقت کیا ہے ؟ یہ تو اللہ بہتر جانتا ہے۔ سائنس دانوں کی تحقیق ابھی تک آسمانوں تک نہیں پہنچ سکی۔ لیکن ہر مذہب نے اپنے ماننے والوں کو اس کی خبر دی ہے اور قرآن کریم نے ہمیں اس کے وجود اور اس کی وسعتوں کا یقین دلایا ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ بات بھی کہ زمین پر بسنے والی مخلوقات کے لیے آسمانوں کا وجود بہت سے فوائد کا ذریعہ ہے۔ اس لحاظ سے وہ ہمارے لیے بہت بڑا اللہ کا احسان ہے اور مزید یہ بات بھی کہ وہ اللہ کی قدرت کا ایسا ظہور ہے جس کو سمجھنے سے بھی عقلیں عاجز ہیں۔ وہ بغیر ستونوں کے کھڑا ہے جس میں کہیں کوئی دراڑ نہیں۔ جس کی وسعتوں کو ناپا نہیں جاسکتا۔ انسانوں کو قیامت کے بپا ہونے میں تأمل ہے جبکہ آسمانوں کی تخلیق انسانوں کی تخلیق سے کہیں بڑھ کر اللہ کی قدرت کا ظہور ہے۔ اسی لیے قرآن کریم نے فرمایا : لخلق السموات والارض اکبر من خلق الناس ” آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا انسانوں کے پیدا کرنے سے بڑا کام ہے “۔ آیت کے دوسرے جملے کا مفہوم آیت کے دوسرے جملے میں ارشاد فرمایا کہ ہم اس تخلیق سے غافل نہیں تھے۔ اس کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ ہم نے سات آسمان پیدا فرمائے اور ان کی تخلیق کسی اناڑی کے ہاتھوں سے نہیں ہوئی بلکہ ہم نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق نہایت علم و حکمت سے انھیں پیدا فرمایا۔ اس میں بیشمار سیارے محو پرواز ہیں۔ ان میں نظم و ترتیب اس انداز کی ہے کہ آج تک اس میں کمی بیشی نہیں ہوسکی۔ اس کے نظام میں مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ ہر غور وفکر کرنے والے کو اس کار عظیم میں ایک مقصدیت نظر آتی ہے جو بنانے والے کی حکمت پر دلالت کرتی ہے۔ دوسرا مفہوم اس کا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جس طرح ہماری ہر مخلوق ہماری قدرت کا ظہور ہے اسی طرح ہم اپنی مخلوقات کے لیے بےپایاں ربوبیت کا فیضان بھی رکھتے ہیں۔ ہم نے جہاں جہاں جس مخلوق کو بھی پیدا کیا ہے ہم اس کی ضروریات سے کماحقہٗ آگاہ ہیں۔ ہم نے اپنی ہر مخلوق کو اس کی زندگی کے موافق ماحول مہیا کیا ہے اور اس ماحول کے مطابق اسے مخصوص صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ منطقہ باردہ کا ریچھ منطقہ حارہ میں نہیں پایا جاتا اور منطقہ حارہ کا کوئی جانور منطقہ باردہ میں نہیں پایا جاتا۔ مچھلیاں پانی میں پیدا کی گئی ہیں تو انھیں تیرنا سکھایا اور پرندے فضا میں پیدا کیے گئے ہیں تو انھیں اڑنے کے لیے پر دیئے گئے ہیں اور ہر ایک کی روزی کا اس کے دائرہ کار میں انتظام کیا گیا ہے۔ اسرائیلی روایات میں کہا گیا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو جب نبوت سے نوازا گیا اور پھر فرعون کو ہدایت دینے کے لیے اس کے پاس جانے کا حکم دیا گیا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کی کہ مجھے حکم کی تعمیل میں بالکل کوئی تأمل نہیں، البتہ ! اتنی اجازت چاہتا ہوں کہ میں پیچھے دو پہاڑوں کے درمیان اپنی بیوی بچوں کو چھوڑ آیا ہوں، میں انھیں سردی سے بچانے کے لیے آگ ڈھونڈتا ہوا یہاں پہنچا تھا کہ یہاں مجھ پر احسانات کی بارش کردی گئی۔ اب یہ مزید احسان کیا جائے کہ میں انھیں کسی محفوظ ٹھکانے پر پہنچا کر پھر فرعون کے پاس جانے کی کوشش کروں۔ تو پروردگار نے فرمایا کہ موسیٰ ! تم کیا سمجھتے ہو کہ ہمیں تمہارے بیوی بچوں کی فکر نہیں ؟ ہم تو اپنی ہر مخلوق کے بارے میں آگاہی بھی رکھتے ہیں اور فکر بھی رکھتے ہیں۔ پھر حکم دیا جس چٹان پر کھڑے ہو اس پر اپنا عصا مارو۔ چٹان پھٹی اس کے نیچے ایک اور چٹان نظر آئی کہا : اس پر بھی عصا مارو۔ تو نیچے ایک بڑا پتھر نظر آیا۔ حکم ہوا اس پر بھی عصا مارو۔ وہ پتھر پھٹا تو اس میں ایک جانور نظر آیاجو گھاس کی سبز پتی منہ میں لیے کھارہا تھا۔ پروردگار نے فرمایا : اس جانور کو تین چٹانوں کے نیچے ہمارے سوا کون جان سکتا ہے ؟ تو اسے روزی کون پہنچا سکتا ہے ؟ ہم اگر اس جانور کو روزی دیتے ہیں تو کیا تمہارے بیوی بچوں کو روزی نہ دیں گے ؟ اور ان کے بچائو کا سامان نہیں کریں گے ؟ اس آیت کریمہ میں بھی یہ فرمایا گیا ہے کہ ہم اپنی مخلوق کی ضروریات سے اور وہ جہاں کہیں بھی ہیں ان کی جگہ سے غافل نہیں۔ ہم ہر ایک کو جانتے ہیں اور ہر ایک کی ضروریات بہم پہنچاتے ہیں۔
Top