Urwatul-Wusqaa - Al-Ankaboot : 2
الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ
الَّذِيْنَ : اور جو هُمْ : وہ فِيْ صَلَاتِهِمْ : اپنی نمازوں میں خٰشِعُوْنَ : خشوع (عاجزی) کرنے والے
ایمان لانے والے) وہ ہیں جو اپنی نماز میں خشوع اختیار کرتے ہیں
الَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ صَلَا تِھِمْ خَاشِعُوْنَ ۔ (المومنون : 2) (ایمان لانے والے) وہ ہیں جو اپنی نماز میں خشوع اختیار کرتے ہیں۔ اہلِ ایمان کی پہلی صفت خشوع کا معنی ہے ” عاجزی، تذلل، نیاز مندی، کسی کے سامنے جھک جانا، دب جانا “۔ آدمی جب کسی عظیم ذات یا پرہیبت شخصیت کے سامنے پیش ہوتا ہے تو اس کی عظمت اور اس کی ہیبت سے مرعوب ہوجاتا ہے اور اگر وہ عظمت اور ہیبت حقیقی اور واقعی ہے تو پھر یہ مرعوبیت انکساری، عاجزی اور تذلل صرف اس حدتک محدود نہیں رہتا کہ اس کے سامنے گردن جھک جائے، جسم خم ہوجائے، کندھے سکڑ جائیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ دل و دماغ بھی سرافگندہ ہوجاتا ہے۔ نماز میں خشوع اسی کیفیت کا نام ہے۔ حضرت حسن ( رض) کو لوگوں نے دیکھا کہ جب آپ نماز کے لیے وضو کرتے ہیں تو رنگت اڑ جاتی اور چہرے پر ایک ہیبت طاری ہوجاتی ہے۔ لوگوں نے پوچھا : وضو کرتے ہوئے آپ کی یہ کیفیت کیوں ہوتی ہے ؟ فرمانے لگے کہ جب میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ یہ وضو دراصل اللہ کی بارگاہ میں حاضری کی تیاری ہے جیسے جیسے وہ حاضری کا وقت قریب آتا جاتا ہے تو مجھ پر ایک ہیبت طاری ہوتی جاتی ہے۔ یوں تو آدمی ہر وقت اللہ کے سامنے ہے لیکن نماز میں چونکہ بطور خاص آدمی خود اللہ کے حضور میں پیش ہوتا ہے اس لیے خشوع کا تقاضا یہی ہے کہ اس پر یہ کیفیت طاری ہو اور اگر یہ کیفیت طاری نہیں ہوتی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس شخص کی نماز خشوع سے خالی ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا کہ نماز پڑھ رہا ہے اور ساتھ ساتھ ڈاڑھی کے بالوں سے کھیلتا جاتا ہے۔ اس پر آپ نے فرمایا : لوخشع قلبہ خشعت جوارحہ ” اگر اس کے دل میں خشوع ہوتا تو اس کے جسم پر بھی خشوع طاری ہوتا “۔ اس کی عملی صورت وہی ہے جس کا ذکر صاحب تفسیر مظہری نے کیا ہے۔ ارشاد فرماتے ہیں : الخشوع فی الصلوۃ ھوجمع الھمۃ لھا والاعراض عما سواہ والتد بر فی ما یجری علی لسانہ من القراء ۃ والذکر (مظہری) ” نماز میں خشوع کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنی ساری توجہ نماز میں مرکوز کردے۔ اللہ تعالیٰ کے سوا ہر چیز سے منہ پھیر لے اور وہ اپنی زبان سے جو تلاوت اور ذکر کرتا ہے ان کے معنی پر غور و تدبر کرے “۔ اگر ایسی کیفیت نما زپڑھنے والے پر طاری ہوجاتی ہے تو خود بخود اس کے اندر وہ تمام احتیاطیں پیدا ہوجاتی ہیں جو ہمیں شریعت نے سکھائی ہیں۔ لیکن انسان چونکہ کمزور واقع ہوا ہے اس لیے شریعت نے نماز کے کچھ ایسے آداب مقرر کردیئے ہیں جو خشوع پیدا کرنے میں معاون بھی ثابت ہوتے ہیں اور انھیں سے اندازہ بھی ہوتا رہتا ہے کہ خشوع کی کیفیت کیا ہے۔ شریعت کا حکم یہ ہے کہ آدمی دائیں بائیں نہ مڑے اور نہ سر اٹھا کر اوپر کو دیکھے۔ حنفیہ اور شافعیہ کے نزدیک نگاہ سجدہ گاہ سے متجاوز نہیں ہونی چاہیے۔ نماز میں کھیلنا اور مختلف سمتوں میں جھکنا بھی ممنوع ہے۔ کپڑوں کو بار بار سمیٹنا یا ان کو جھاڑنا یا ان سے شغل کرنا بھی ممنوع ہے۔ اس بات سے بھی باخبر کیا گیا ہے کہ آدمی اپنے جسم کو آگے پیچھے حرکت نہ دے۔ اپنی انگلیاں نہ چٹخائے۔ اپنے کپڑوں کو نہ سمیٹتا رہے۔ سجدہ میں جائے تو اپنے سجدہ کی جگہ کو ہاتھوں سے صاف نہ کرتا رہے۔ تعدیلِ ارکان کی پابندی کرے۔ نماز میں اگر کوئی چیز اذیت دے رہی ہو تو اسے ایک ہاتھ سے دفع کیا جاسکتا ہے مگر باربار ہاتھوں کو حرکت دینا یا دونوں ہاتھوں کو استعمال کرنا ممنوع ہے۔
Top