Ruh-ul-Quran - Al-Muminoon : 24
فَقَالَ الْمَلَؤُا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ مَا هٰذَاۤ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ١ۙ یُرِیْدُ اَنْ یَّتَفَضَّلَ عَلَیْكُمْ١ؕ وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَاَنْزَلَ مَلٰٓئِكَةً١ۖۚ مَّا سَمِعْنَا بِهٰذَا فِیْۤ اٰبَآئِنَا الْاَوَّلِیْنَۚ
فَقَالَ : تو وہ بولے الْمَلَؤُا : سردار الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جنہوں نے کفر کیا مِنْ : سے۔ کے قَوْمِهٖ : اس کی قوم مَا ھٰذَآ : یہ نہیں اِلَّا : مگر بَشَرٌ : ایک بشر مِّثْلُكُمْ : تم جیسا يُرِيْدُ : وہ چاہتا ہے اَنْ يَّتَفَضَّلَ : کہ بڑا بن بیٹھے وہ عَلَيْكُمْ : تم پر وَلَوْ : اور اگر شَآءَ اللّٰهُ : اللہ چاہتا لَاَنْزَلَ : تو اتارتا مَلٰٓئِكَةً : فرشتے مَّا سَمِعْنَا : نہیں سنا ہم نے بِھٰذَا : یہ فِيْٓ اٰبَآئِنَا : اپنے باپ داد سے الْاَوَّلِيْنَ : پہلے
تو اس کی قوم کے سرداروں نے، جنھوں نے کفر کیا، کہا کہ یہ تو بس تمہارے ہی جیسا ایک بشر ہے، یہ چاہتا ہے کہ تم پر اپنی بزرگی جتلائے اور اگر اللہ تعالیٰ رسول ہی بھیجنا چاہتا تو وہ فرشتوں کو (رسول بناکر) نازل کرتا۔ اس طرح کی بات ہم نے اپنے پہلے آبائو اجداد میں تو نہیں سنی۔
فَقَالَ الْمَلَؤُا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ قَوْمِہٖ مَاھٰذَآ اِلَّابَشَرٌ مِّثْلُکُمْ لا یُرِیْدُ اَنْ یَّتَفَضَّلَ عَلَیْکُمْ ط وَلَوْ شَآئَ اللّٰہُ لَاَنْزَلَ مَلٰٓئِکَۃً مَّاسَمِعْنَا بِھٰذَا فِیْٓ اٰبَآئِنَا الْاَوَّلِیْنَ ۔ (المومنون : 24) تو اس کی قوم کے سرداروں نے، جنھوں نے کفر کیا، کہا کہ یہ تو بس تمہارے ہی جیسا ایک بشر ہے، یہ چاہتا ہے کہ تم پر اپنی بزرگی جتلائے اور اگر اللہ تعالیٰ رسول ہی بھیجنا چاہتا تو وہ فرشتوں کو (رسول بناکر) نازل کرتا۔ اس طرح کی بات ہم نے اپنے پہلے آبائو اجداد میں تو نہیں سنی۔ ) قومِ نوح کی مخالفت کے خدوخال اس آیت کریمہ میں حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم نے جو رویہ اختیار کیا اور آپ کی دعوت کے جواب میں جو اعتراضات اٹھائے اور مخالفت میں جو لوگ پیش پیش رہے اس کا ایک منظر سامنے لاکر رکھ دیا گیا ہے۔ جس میں بڑی آسانی سے قریش کی مخالفت کے تمام خدوخال اس طرح نمایاں ہوجاتے ہیں کہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ کفر اور شرک کے علم برداروں نے اللہ کے رسولوں کی تکذیب اور مخالفت میں ہمیشہ ایک جیسے اعتراضات کیے۔ ان کا رویہ بھی ایک جیسا رہا اور ایک ہی طبقہ ہے جو ہمیشہ اس مخالفت میں پیش پیش رہا ہے۔ کسی بات میں بھی تو قریش نے ان سے مخالفت نہیں کی۔ اس سے خود بخود یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ قریش کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ہم جو کچھ کہہ رہے اور کر رہے ہیں یہ کن لوگوں کا طریقہ رہا ہے ؟ اور ایسا کرنے والے کس طرح کے انجام سے دوچار ہوئے ہیں۔ سب سے پہلی جو بات نمایاں کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ کے رسول کی مخالفت میں جو لوگ پیش پیش تھے وہ ہمیشہ کی طرح اس قوم کے اہل ثروت اور اصحابِ اقتدار تھے۔ انھوں نے ہر دور کے گمراہ لوگوں کی طرح رسول کی دعوت کو اپنے اقتدار اور اپنے نام نہاد مقام و مرتبہ کے خلاف ایک سازش سمجھا۔ انھوں نے محسوس کیا کہ اگر عوام نے پیغمبر کی دعوت کو قبول کرلیاتو ان کے اندر ایک ایسا شعور پیدا ہوگا جو ہماری خود ساختہ عظمتوں کے لیے تباہ کن ثابت ہوگا۔ ہم نے ایک جیسے انسانوں میں جو اونچ نیچ اور ظالمانہ تفاوت پیدا کررکھا ہے اس کے پرزے اڑجائیں گے۔ یہ کل کو ہمارے برابر بیٹھیں گے بلکہ ہماری عظمتوں کو چیلنج کریں گے۔ ہر بات کو دلیل اور انسانیت کے ترازو میں تولیں گے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ صدیوں سے جو کچھ ہم اپنے لیے حاصل کرسکے ہیں وہ تباہ ہو کر رہ جائے گا۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس نے ہر دور میں مراعات یافتہ طبقے کو نہ صرف حق سے دور رکھا ہے بلکہ انھوں نے آخری دم تک اہل حق کو پنپنے کا موقع نہیں دیا۔ آنحضرت ﷺ سب سے زیادہ ایسے ہی لوگوں کی مخالفت اور مظالم کا شکار تھے اور حضرت نوح (علیہ السلام) کی مخالفت میں بھی یہی لوگ پیش پیش تھے۔ دوسری بات اس آیت کریمہ سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ بگڑی ہوئی قوموں کی گمراہیاں بھی مشترک رہی ہیں۔ چناچہ قرآن کریم نے جتنے رسولانِ گرامی کا ذکر کیا ہے انھوں نے اپنی طرف مبعوث ہونے والے رسولوں کی مخالفت میں جو باتیں کہیں اور جو اعتراضات اٹھائے ان میں یہ ایک اعتراض ہر قوم کی طرف سے سنا گیا۔ چناچہ نوح (علیہ السلام) کی قوم بھی آپ کی مخالفت میں سب سے زیادہ اسی اعتراض کو اچھال رہی تھی اور نبی کریم ﷺ کی مخالفت میں بھی یہی بات باربار کہی گئی کہ نبوت اور رسالت ایک بہت عظیم منصب ہے جس میں ایک شخص براہ راست اللہ تعالیٰ سے ہدایت حاصل کرنے کا دعویٰ کرتا ہے۔ اسے اللہ تعالیٰ کا انتہائی قرب حاصل ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ براہ راست اس سے باتیں کرتا ہے۔ اس پر اپنی وحی اتارتا ہے۔ ایسے عظیم منصب کا حامل ظاہر ہے کوئی بشر تو نہیں ہوسکتا۔ بعض لوگوں نے اس کا مطلب یہ سمجھا ہے کہ وہ جب یہ دیکھتے تھے کہ ان کے بڑے بڑے سردار سیرت و کردار کے کیسے بڑے بڑے عیوب اپنے اندر رکھتے ہیں اور کون سی خرابی ایسی ہے جو انسان میں نہیں پائی جاتی ؟ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر دور کے ابوجہل اور ابو لہب درحقیقت انسانیت کا اعلیٰ نمونہ ہیں، تو کیا ایسے لوگ کبھی نبوت کے منصب پر فائز ہوسکتے ہیں ؟ جبکہ وہ منصب سراسر اعلیٰ کردار اور انسانیت کے مرتبہ علیا کی تعلیم دیتا ہے، لیکن یہ تصور اور خیال صحیح معلوم نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ تاریخ اس پر شاہد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کبھی کسی ابوجہل یا ابو لہب کو نبوت عطا نہیں کی۔ ہر قوم کی طرف جو بھی رسول آیا قوم اس کی معترف رہی کہ یہ شخص اپنے سیرت و کردار کے اعتبار سے پوری قوم میں بےعیب شخصیت کا مالک ہے۔ کبھی کسی قوم نے کسی بھی رسول پر اخلاقی کمزوری کا الزام نہیں لگایا۔ انھیں ہمیشہ نبوت کے دعویدار پر اس کی غربت اور ناداری کے حوالے سے اعتراض رہا اور وہ اس بات کو ہمیشہ اچھالتے رہے کہ جب قوم میں بڑے بڑے سردار موجود ہیں تو تم جو اپنے تئیں نہ کسی بڑے قبیلے کا انتساب رکھتے ہو، نہ تمہارے پاس طاقتور لوگوں کا کوئی جتھا ہے۔ نہ تم دولت و ثروت کا کوئی تفوق رکھتے ہو۔ تو آخر تمہیں نبوت کیوں دی گئی ؟ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ انسانوں میں اگر کسی انسان کو نبی کے طور پر قبول کرسکتے تھے تو اس کے لیے ضروری تھا کہ وہ دولت و ثروت، عہدہ ومنصب اور اثر ورسوخ کے اعتبار سے غیر معمولی حیثیت کا حامل ہوتا۔ البتہ ! بعض آیات کریمہ سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ جنسِ بشر کو جنسِ ملائکہ سے فروتر سمجھتے تھے۔ اگرچہ وہ جنات کو بھی بہت سے حوالوں سے اہمیت دیتے تھے لیکن انھوں نے یہ کبھی نہیں کہا تھا کہ کسی جن کو نبوت عطا کی جانی چاہیے تھی۔ البتہ ! فرشتوں کے تقدس ان کی معصومیت اور نورانی مخلوق ہونے کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں ان کی ایک عظمت بیٹھی ہوئی تھی۔ اس لیے وہ یہ یقین رکھتے تھے کہ وہ ہر لحاظ سے انسانوں سے افضل مخلوق ہیں اس لیے نبوت اگر دی جاسکتی تھی تو فرشتوں کو دی جانی چاہیے تھی۔ یہ لوگ دراصل ایک غلط فہمی کا شکار تھے۔ ان کے اندر اس بات کا یقین پیدا نہیں ہو رہا تھا کہ اللہ نے جنسِ بشر کو اشرف المخلوقات بنایا ہے۔ یہ وہ مخلوق ہے جسے مسجودِ ملائکہ ہونے کی حیثیت حاصل ہے۔ اللہ نے اس کے اندرنفخِ روح کو اپنی طرف منسوب کر کے اسے خاص اہمیت عطا کی ہے۔ وہ علّم آدم الاسمائ کے تمغہ امتیاز کی حقیقت سے ناآشنا تھے اور دوسری یہ بات کہ نہ جانے یہ حقیقت ان کی نگاہوں سے کیوں اوجھل ہوجاتی تھی کہ اللہ کا نبی انسانوں کی ہدایت اور ان کی تعلیم و تربیت کے لیے بھیجا جاتا ہے ؟ نبی کی زندگی لوگوں کے لیے ایک نمونہ ہوتی ہے۔ وہ اپنی زندگیوں کے چراغوں کو اس کی زندگی کے چراغ سے روشن کرتے ہیں۔ وہ انھیں جس بات کی تعلیم دیتا ہے خود اس پر نہ صرف عمل کرکے دکھاتا ہے بلکہ ان کے سامنے عمل کا اعلیٰ ترین نمونہ پیش کرتا ہے۔ اقدارِ انسانیت، مکارمِ اخلاق، بےنفسی و بےغرضی اور اللہ کی عبادت اور اس کی محبت کی وہ اعلیٰ مثالیں قائم کرتا اور چھوڑ کرجاتا ہے جو ہمیشہ انسانوں کے لیے منارہ نور ثابت ہوتی ہیں۔ اس حوالے سے جو شخص بھی غور کرے گا اس کے لیے یہ بات سمجھنا مشکل نہیں ہوگا کہ یہ مثالیں اسی صورت میں قابل اتباع اور قابل تقلید ثابت ہوسکتی ہیں جبکہ اللہ کے رسول اور اس پر ایمان لانے والوں کی جنس ایک ہو۔ احساسات میں اشتراک پایا جاتاہو۔ انفعالات یکساں ہوں۔ جسمانی عوراض دونوں کو لاحق ہوتے ہوں۔ جسمانی ضرورتیں دونوں کو پریشان کرتی ہوں۔ لیکن انسان کی نارسائیِ فکر اور بےبصیرتی اور عقیدت و محبت میں غلو ایسے عوارض ہیں جس سے انسان بہت کم چھٹکارا حاصل کرپاتا ہے۔ ہم آج بھی دیکھتے ہیں کہ جن بزرگوں سے لوگوں کو عقیدت ہوجاتی ہے ان کی زندگی کے بعد ان کے بارے میں عجیب و غریب تصورات پیدا ہوجاتے ہیں اور ایسی چیزوں کو بہت خوبی سمجھا جاتا ہے۔ مثلاً اس طرح کی باتیں کہ فلاں بزرگ تو اس حدتک خدا رسیدہ تھے کہ بارہ سال تک انھوں نے کچھ نہیں کھایا اور کسی کے بارے میں یہ شہرت کہ وہ کسی کنویں میں کئی سال تک الٹے لٹکے رہے اور کسی کے بارے میں اس طرح کی بےسروپا باتیں کہ انھوں نے کئی سال صرف مٹی کھانے پر اکتفا کیا۔ یہ تصورات ان لوگوں کے ہیں جن کے پاس اللہ کی کتاب اور رسول اللہ ﷺ کی سنت کا چراغ موجود ہے۔ اس کے باوجود حال یہ ہے ؎ اللہ کے کچھ بندے معبود ہی بن بیٹھے لوگوں میں نظر آئی جو خوئے جبیں سائی تیسری بات یہ کہی گئی ہے کہ اللہ کے رسول کی مخالفت میں قوموں نے جو حربے استعمال کیے ہیں ان میں یہ بھی ایک حربہ ہمیشہ استعمال ہوتا رہا کہ ان کی نیتوں پر ہمیشہ شبہ کیا جاتارہا کہ یہ لوگ بظاہر تو درویش اور مسکین دکھائی دیتے ہیں اور ہر وقت آخرت کی باتیں کرتے ہیں لیکن حقیقت میں اقتدار کے بھوکے ہیں۔ اس پر صاحب تفہیم القرآن نے ایک نوٹ لکھا ہے اسے مفید سمجھتے ہوئے ہم یہاں نقل کیے دیتے ہیں۔ یہ بھی مخالفین حق کا قدیم ترین حربہ ہے کہ جو شخص بھی اصلاح کے لیے کوشش کرنے اٹھے اس پر فوراً یہ الزام چسپاں کردیتے ہیں کہ کچھ نہیں۔ بس اقتدار کا بھوکا ہے۔ یہی الزام فرعون نے حضر موسیٰ اور ہارون پر لگایا تھا کہ تم اس لیے اٹھے ہو کہ تمہیں ملک میں بڑائی حاصل ہوجائے۔ تکون لکما الکبریاء علی الارض (یونس آیت 78) یہی الزام حضرت عیسیٰ پر لگایا گیا کہ یہ شخص یہودیوں کا بادشاہ بننا چاہتا ہے اور اسی کا شبہ نبی ﷺ کے متعلق سردارانِ قریش کو تھا۔ چناچہ کئی مرتبہ انھوں نے آپ سے یہ سودا کرنے کی کوشش کی کہ اگر اقتدار کے طالب ہو تو ” اپوزیشن “ چھوڑ کر ” حزبِ اقتدار “ میں شامل ہوجاؤ، تمہیں ہم بادشاہ بنائے لیتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ جو لوگ ساری عمر دنیا اور اس کے مادی فائدوں اور اس کی شان و شوکت ہی کے لیے اپنی جان کھپاتے رہتے ہیں ان کے لیے یہ تصور کرنا بہت مشکل بلکہ ناممکن ہوتا ہے کہ اسی دنیا میں کوئی انسان نیک نیتی اور بےغرضی کے ساتھ فلاحِ انسانیت کی خاطر اپنی جان کھپاسکتا ہے۔ وہ خود چونکہ اپنا اثرواقتدار جمانے کے لیے دلفریب نعرے اور اصلاح کے جھوٹے دعوے شب وروز استعمال کرتے رہتے ہیں۔ اس لیے یہ مکاری و فریب کاری ان کی نگاہ میں بالکل ایک فطری چیز ہوتی ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اصلاح کا نام مکروفریب کے سوا کسی صداقت اور خلوص کے ساتھ کبھی لیا ہی نہیں جاسکتا۔ یہ نام جو بھی لیتا ہے ضرور وہ ان کا اپنا ہم جنس ہی ہوگا اور لطف یہ ہے کہ مصلحین کے خلاف ” اقتدار کی بھوک “ کا یہ الزام ہمیشہ برسراقتدار لوگ اور ان کے خوشامدی حاشیہ نشین ہی استعمال کرتے رہے ہیں۔ گویا خود انھیں اور ان کے آقایانِ نامدار کو جو اقتدارحاصل ہے وہ تو ان کا پیدائشی حق ہے۔ اس کے حاصل کرنے اور اس پر قابض رہنے میں وہ کسی الزام کے مستحق نہیں ہیں۔ البتہ ! نہایت قابل ملامت ہے وہ جس کے لیے یہ ” غذا “ پیدائشی حق نہ تھی اور اب یہ لوگ اس کے اندر اس چیز کی ” بھوک “ محسوس کررہے ہیں۔ اسی طرح یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ جو شخص بھی رائج الوقت نظام زندگی کی خرابیوں کو دور کرنے کے لیے اٹھے گا اور اس کے مقابلے میں اصلاحی نظریہ ونظام پیش کرے گا۔ اس کے لیے بہرحال یہ بات ناگزیر ہوگی کہ اصلاح کی راہ میں جو طاقتیں بھی سدِّراہ ہوں انھیں ہٹانے کی کوشش کرے اور ان طاقتوں کو برسر اقتدار لائے جو اصلاحی نظریہ ونظام کو عملاً نافذ کرسکیں۔ نیز ایسے شخص کی دعوت جب بھی کامیاب ہوگی اس کا قدرتی نتیجہ یہی ہوگا کہ وہ لوگوں کا مقتدا و پیشوا بن جائے گا اور نئے نظام میں اقتدار کی باگیں یا تو اس کے اپنے ہی ہاتھوں میں ہوں گی یا اس کے حامیوں اور پیروں کے ہاتھ ان پر قابض ہوں گے۔ آخر انبیاء اور مصلحین عالم میں سے کون ہے جس کی کوششوں کا مقصد اپنی دعوت کو عملاً نافذ کرنا نہ تھا۔ اور کون ہے جس کی دعوت کی کامیابی نے فی الواقع اس کو پیشوا نہیں بنادیا ؟ پھر کیا یہ امر واقعی کسی پر یہ الزام چسپاں کردینے کے لیے کافی ہے کہ وہ دراصل اقتدار کا بھوکا تھا اور اس کی اصل غرض وہی پیشوائی تھی جو اس نے حاصل کرلی ؟ ظاہر ہے کہ بدطینت دشمنانِ حق کے سوا اس سوال کا جواب کوئی بھی اثبات میں نہ دے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ اقتدار کے بجائے خود مطلوب ہونے اور کسی مقصد خیر کے لیے مطلوب ہونے میں زمین و آسمان کا فرق ہے، اتنا ہی بڑا فرق جتنا ڈاکو کے خنجر اور ڈاکٹر کے نشتر میں ہے۔ اگر کوئی شخص ـصرف اس بناپرڈاکو اور ڈاکٹر کو ایک کردے کہ دونوں بالارادہ جسم چیرتے ہیں اور نتیجہ میں مال دونوں کے ہاتھ آتا ہے، تو یہ صرف اس کے اپنے ہی دماغ یا دل کا قصور ہے۔ ورنہ دونوں کی نیت دونوں کے طریق کار اور دونوں کے مجموعی کردار میں اتنا فرق ہوتا ہے کہ کوئی صاحب عقل آدمی ڈاکو کو ڈاکو اور ڈاکٹر کو ڈاکٹر سمجھنے میں غلطی نہیں کرسکتا۔ چوتھی بات اس آیت کریمہ میں یہ فرمائی گئی ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم نے بشریت اور نبوت میں تضاد واضح کرنے اور دعویٰ نبوت کرنے والے کی ذات کو مشتبہ قرار دینے کے بعد یہ عقلی دلیل دی کہ ہمیں زندگی میں راہنمائی کے لیے کسی نبی کی حاجت نہیں۔ ہم اپنے معاملات میں رہنمائی کے حوالے سے خو دکفیل ہیں۔ ہمارا کوئی معاملہ بھی الجھا ہوا نہیں۔ اگر بالفرض یہ تسلیم کرلیا جائے کہ اللہ تعالیٰ ہماری رہنمائی کے لیے ضرور کسی نبی کو بھیجنے والا ہے تو یقینی بات ہے کہ وہ کسی بشر کو بھیجنے کی بجائے فرشتوں میں سے کسی کو اس عظیم کام کے لیے بھیجتا کیونکہ بشر تو سرے سے اس کا اہل ہی نہیں تو جب اس نے کسی فرشتے کو نہیں بھیجا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ شخص اس دعویٰ نبوت میں جھوٹا ہے۔ پانچویں بات اس آیت کریمہ میں یہ فرمائی گئی ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم نے یہ کہا کہ اس شخص کے دعویٰ نبوت کو اس لیے تسلیم نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ہم نے اپنے باپ دادا سے اور انھوں نے اپنے آبائواجداد سے کبھی یہ نہیں سنا کہ کوئی بشر بھی نبی ہوسکتا ہے۔ ہمیں دین اپنے اسلاف سے ملا ہے، ہمارے آبائواجداد اس دین کے وارث تھے، اس لیے جس بات کو وہ غلط قراردیتے ہیں یا جو بات انھوں نے کبھی اپنے بڑوں سے نہیں سنی وہ ایک ایسی نئی بات ہے جس کی حیثیت بدعت سے زیادہ نہیں۔ سورة قصص میں اسی حقیقت کو دہراتے ہوئے فرمایا گیا ہے۔ مَاھٰذَآ اِلَّا سِحْرٌ مُّفْتَرًی وَّمَا سَمِعْنَا بِھٰذَا فِیْٓ اٰبَآئِنَا الْاَوَّلِیْنَ ۔ ” یہ محض ایک جادو ہے جس کو جھوٹ موٹ اللہ کی طرف نسبت دی گئی ہے اور اس طرح کی باتیں ہم نے اگلوں میں تو کبھی سنی نہیں “۔ یہ پانچ باتیں جو حضرت نوح (علیہ السلام) کی مخالفت میں آپ کی نبوت کو رد کرتے ہوئے ان کی قوم کے سربرآوردہ لوگوں نے کہیں۔ یہی باتیں آنحضرت ﷺ کی مخالفت میں قریش بھی کہہ رہے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ قوم جو نوح (علیہ السلام) کی مخالفت کی پاداش میں عذاب کا شکار ہوئی اور دنیا میں آج تک سامانِ عبرت بنی ہوئی ہے اس کے یہ نمایاں اوصاف ہیں جنھیں قرآن کریم نے ایک ترتیب سے بیان کردیا ہے اور عجیب بات یہ ہے کہ قریش انھیں باتوں کو اپنے لیے سرمایہ افتخار سمجھتے ہیں جبکہ یہی باتیں ان کی تباہی کا باعث بننے والی ہیں۔
Top