Ruh-ul-Quran - Al-Muminoon : 26
قَالَ رَبِّ انْصُرْنِیْ بِمَا كَذَّبُوْنِ
قَالَ : اس نے کہا رَبِّ : اے میرے رب انْصُرْنِيْ : میری مدد فرما بِمَا : اس پر كَذَّبُوْنِ : انہوں نے مجھے جھٹلایا
حضرت نوح نے دعا کی کہ اے میرے رب ! تو اس چیز سے میری مدد فرما جس میں انھوں نے مجھے جھٹلادیا ہے
قَالَ رَبِّ انْصُرْنِیْ بِمَا کَذَّبُوْنِ ۔ (المومنون : 26) حضرت نوح نے دعا کی کہ اے میرے رب ! تو اس چیز سے میری مدد فرما جس میں انھوں نے مجھے جھٹلادیا ہے۔ ) حضرت نوح (علیہ السلام) کی نزول عذاب کے لیے دعا حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم نے آپ کی نبوت و رسالت کو تسلیم کرنے کی بجائے جب آپ کے قتل کے منصوبے بنانے شروع کر دئیے اور یہ فیصلہ کرلیا کہ اس نبی اور اس کی دعوت کو ہر ممکن طریقے سے مٹا دیا جائے۔ تو تب حضرت نوح (علیہ السلام) نے اللہ سے دعا کی کہ الہٰی ! میرے پاس نہ افرادی قوت ہے اور نہ اقتدار کی ہیبت۔ تیری تائید ونصرت کے سوا میرا کوئی سہارا نہیں۔ میں نے شب وروز اپنی قوم کو سمجھایا اور تبلیغ و دعوت کے ذریعے سے ان پر اتمامِ حجت کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ لیکن انھوں نے اپنی طاقت کے بل بوتے پر مجھے اور مجھ پر ایمان لانے والوں کو اس حدتک اذیتیں پہنچائی ہیں کہ ہمارا جینا مشکل کردیا ہے۔ رَبِّ اِ نِّی مَغْلُوْبٌ فَا نْتَصِرْ ” اے میرے رب ! میں دبا لیا گیا ہوں، پس تو ان سے میرا بدلہ لے اور میری مدد فرما “۔ (القمر : 10) اور سورة نوح میں فرمایا : وَقَالَ نُوْحٌ رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ دَیَّارًا۔ اِنَّکَ اِنْ تَذَرْھُمْ یُضِلُّوْا عِبَادَکَ وَلَا یَلِدُ وْٓا اِلَّا فَاجِرًا کَفَّارًا۔ (نوح : 26، 27) ” اور حضرت نوح (علیہ السلام) نے کہا اے میرے پروردگار ! اس زمین پر کافروں میں سے ایک بسنے والا بھی نہ چھوڑ۔ اگر تو نے انھیں رہنے دیا تو یہ تیرے بندوں کو گمراہ کردیں گے اور ان کی نسل سے بدکار منکرینِ حق ہی پیدا ہوں گے “۔ ان دعائوں سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اس عذاب کو نازل کرنے کی درخواست کی ہے جس سے ہر رسول نے اپنی قوم کو ڈرایا ہے اور جو اتمامِ حجت ہوجانے کے بعد قوموں پر نازل ہوتا ہے اور پھر اس کے بعد کسی کو زندہ رہنے کا موقع نہیں دیا جاتا بلکہ ایسی مکمل تباہی ہوتی ہے کہ صدیوں تک وہ قوم آنے والے لوگوں کے لیے سامانِ عبرت بن جاتی ہے۔ قریش کو ان مثالوں سے یہ بتلانا مقصود ہے کہ تم اگر محمد رسول اللہ ﷺ کی دعوت پر ایمان نہیں لائو گے تو تمہارا انجام بھی اس سے مختلف نہیں ہوگا۔ اللہ کی سنت یہ ہے کہ جب ایسا موقع آتا ہے یعنی اتمامِ حجت ہوجاتا ہے تو پیغمبر کو ہجرت کرنے کا حکم ملتا ہے۔ پیغمبر اور اس پر ایمان لانے والے ہجرت کے ذریعے بچالیے جاتے ہیں اور جن لوگوں کی طرف براہ راست اللہ کے نبی کی بعثت ہوتی ہے انھیں تباہ کردیا جاتا ہے۔ چناچہ حضرت نوح (علیہ السلام) نے جب ایسے موقع پر اللہ سے دعا کی تو اللہ کا حکم آیا۔
Top