Ruh-ul-Quran - Al-Muminoon : 28
فَاِذَا اسْتَوَیْتَ اَنْتَ وَ مَنْ مَّعَكَ عَلَى الْفُلْكِ فَقُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ نَجّٰىنَا مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ
فَاِذَا : پھر جب اسْتَوَيْتَ : تم بیٹھ جاؤ اَنْتَ : تم وَمَنْ : اور جو مَّعَكَ : تیرے ساتھ (ساتھی) عَلَي : پر الْفُلْكِ : کشتی فَقُلِ : تو کہنا الْحَمْدُ : تمام تعریفیں لِلّٰهِ : اللہ کے لیے الَّذِيْ : وہ جس نے نَجّٰىنَا : ہمیں نجات دی مِنَ : سے الْقَوْمِ : قوم الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
پس جب آپ اور آپ کے ساتھی کشتی میں اچھی طرح بیٹھ جائیں تو آپ کہیے کہ شکر ہے اس اللہ کے لیے جس نے ہمیں ظالم قوم سے نجات دی
فَاِذَااسْتَوَیْتَ اَنْتَ وَمَنْ مَّعَکَ عَلَی الْفُلْکِ فَقُلِ الْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِیْ نَجّٰنَامِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ ۔ وَقُلْ رَّبِّ اَنْزِلْنِیْ مُنْزَلًا مُّبٰرَکًا وَّاَنْتَ خَیْرُالْمُنْزِلِیْنَ ۔ (المومنون : 28، 29) پس جب آپ اور آپ کے ساتھی کشتی میں اچھی طرح بیٹھ جائیں تو آپ کہیے کہ شکر ہے اس اللہ کے لیے جس نے ہمیں ظالم قوم سے نجات دی۔ اور یہ بھی عرض کیجیے کہ اے رب ! تو مجھے اتار مبارک اتارنا اور تو بہترین اتارنے والا ہے۔ ) کشتی پر سوار ہونے والے اور ان کی دعا یہ کشتی پر سوار ہونے والے کون لوگ ہیں ؟ ان میں حضرت نوح اللہ کے وہ عظیم رسول ہیں جنھوں نے نوصدیوں تک اس قوم کو اللہ کی طرف بلایا اور اس کے عـذاب سے ڈرایا اور ان کے ساتھ آپ کے اہل خانہ اور ان لوگوں کی مختصر سی تعداد ہے جنھوں نے قوم کی سنگدلانا اذیتوں کے باوجود اللہ پر ایمان لانے کی جرأت کی اور پھر نہ جانے کب سے وہ ان مصائب کی چکی میں پستے چلے آرہے ہیں۔ اب جبکہ وہ ایک عافیت کدہ میں اپنی جانیں بچا کر بیٹھنے میں کامیاب ہوگئے ہیں تو اس سے چند لمحے پہلے تک ان کی قوم کی طرف سے ان کی زندگیاں اور ان کے مال، ان کے بچے اور ان کے گھر، انتہائی خطرے میں تھے۔ کسی وقت بھی ان پر ہلاکت و تباہی کی قیامت ٹوٹ سکتی تھی۔ اب وہ لوگ جو صدیوں تک سرکشی اور تمرد کا صور پھونکتے رہے اور جنھوں نے کبھی کوئی نصیحت اور حق کی بات سن کے دینا بھی گوارا نہ کیا۔ اور جن کا گمان یہ تھا کہ ہم اس دھرتی کی فیصلہ کن قوت ہیں کوئی ہمیں چیلنج نہیں کرسکتا اب وہ ان بےبس اور بےکس مسلمانوں کے سامنے اپنے انجام کو پہنچ رہے ہیں۔ کشتی لمحہ بہ لمحہ پانی کی لہروں پر بلند ہوتی جارہی ہے اور سیلاب کی طغیانی اس حد تک زوروں پر ہے کہ پہاڑوں کی چوٹیاں بھی پانی میں ڈوبتی دکھائی دیتی ہیں۔ لیکن یہ مظلوم لوگ نہایت اطمینان اور راحت کے ساتھ کشتی میں سوار ہیں اور پانی کا کوئی جھونکا اندر آکر ان کی پریشانی کا باعث بننے کی جرأت نہیں کررہا۔ ایسی حالت میں انھیں یہ ہدایت کی جارہی ہے کہ آپ اللہ کا شکر ادا کیجیے اور یہ دعا کیجیے کہ الہٰی تیرا شکر ہے کہ ہم بےوسیلہ اور بےکس لوگوں کو ان ظالم درندوں سے تو نے بچایا۔ ظاہر ہے کہ اس موقع سے بڑھ کر اللہ کا شکر ادا کرنے کا اور کونسا موقع ہوسکتا تھا اور ساتھ ہی یہ بھی ہدایت کی کہ کشتی جن منزلوں کی طرف بڑھ رہی ہے وہ آپ کے لیے ان دیکھی اور ان جانی منزلیں ہیں۔ زندگی کے وسائل کے اعتبار سے ہر چیز تباہی کی نذر ہوگئی ہے۔ زمین پر نہ کوئی جائے پناہ باقی ہے اور نہ اشیائے ضرورت کی کوئی چیز۔ لیکن ایک آستانہ ایسا ہے جس کی پناہ ایسی تمام ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے کافی ہے۔ اس لیے فرمایا کہ آپ اللہ سے دعا کیجیے کہ زمین پر ہمارا کوئی اپنا نہیں جس کے پاس جاسکیں۔ صرف تیرا ایک آستانہ ہے اس لیے ہم صرف تیرے مہمان ہیں تو ہمارا میزبان ہے۔ جس طرح تو نے ہمیں ان ناہنجاروں سے بچایا ہے اسی طرح کسی مبارک منزل پر ہمیں اتار، تجھ سے بڑھ کر بہتر اتارنے والا اور کون ہوسکتا ہے ؟ یہ دعا چونکہ اللہ کی طرف سے سکھائی گئی ہے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ یہ صرف دعا نہیں بلکہ فوزوفلاح کی بشارت بھی ہے۔ اس میں دوسرے لفظوں میں یہ باور کرایا جارہا ہے کہ تم ایک بہترین میزبان کے مہمان ہو۔ وہ تمہیں جہاں بھی اتارے گا اس سرزمین کو تمہارے لیے بہتر بنائے گا۔ وہیں تم پھولوپھلو گے۔ تمہاری افرادی تعداد کتنی بھی کم صحیح لیکن اللہ کی قدرت تو کم نہیں وہ تم ہی چند افراد اور تھوڑے سے وسائلِ معاش سے دنیا کو پھر آباد کرے گا۔
Top