Ruh-ul-Quran - Al-Muminoon : 30
اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ وَّ اِنْ كُنَّا لَمُبْتَلِیْنَ
اِنَّ : بیشک فِيْ ذٰلِكَ : اس میں لَاٰيٰتٍ : البتہ نشانیاں وَّاِنْ كُنَّا : اور بیشک ہم ہیں لَمُبْتَلِيْنَ : آزمائش
بیشک اس سرگزشت میں بڑی نشانیاں ہیں اور بیشک ہم امتحان کرنے والے ہیں
اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ وَّاِنْ کُنَّا لَمُبْتَلِیْنَ ۔ (المومنون : 30) بیشک اس سرگزشت میں بڑی نشانیاں ہیں اور بیشک ہم امتحان کرنے والے ہیں۔ ) سرگزشت میں مضمر نشانیاں قرآن کریم قصہ گوئی کی کتاب نہیں وہ محض قصہ گوئی کے لیے کسی سرگزشت کو بیان نہیں کرتا بلکہ اس کے پیش نظر چند حقائق کی طرف توجہ دلانا ہوتا ہے۔ چناچہ اسی حقیقت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ اس سرگزشت میں غور کرنے والوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں۔ سب سے پہلی نشانی تو یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ اس دنیا کو پیدا کرنے کے بعد اس طرح لاتعلق ہو کر نہیں بیٹھا کہ وہ اپنی مخلوق کو رزق پہنچانے کا انتظام نہ کرے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے جہاں جہاں اس کی مخلوق ہے وہیں وہیں اس کی ربوبیت کا دسترخوان بچھا ہوا ہے۔ اسی طرح انسانوں کو چونکہ اس نے مکلف بنایا ہے اس لیے تکلیفِ شرعی کی ذمہ داری عائد کردینے کے بعد وہ لاتعلق ہو کر نہیں بیٹھ گیا بلکہ اس کی رہنمائی کے لیے اس نے اپنے رسول بھیجے۔ دوسری حقیقت یہ واضح ہوتی ہے کہ جو لوگ اللہ کے رسولوں کی تبلیغ و دعوت کی تکذیب کرتے ہیں۔ انھیں ایک خاص حد تک تو مہلت دی جاتی ہے لیکن جب اللہ کے رسولوں کی طرف سے ان پر اتمام ِ حجت ہوجاتی ہے تو پھر اس قوم کی مہلت عمل بھی ختم کردی جاتی ہے۔ پھر اللہ کا عذاب آتا ہے جس سے انھیں کوئی چھڑا نہیں سکتا۔ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ کسی جگہ کا اقتدار عطا فرماتا ہے اور اپنی زمین کے وسائل ان کے حوالے کرتا ہے تو انھیں ساتھ ہی آزمائش میں بھی مبتلا کرتا ہے۔ ان کا اقتدار اس بات کا اجازت نامہ نہیں ہوتا کہ وہ جو چاہیں کرتے پھریں بلکہ وہ انھیں دیکھتا رہتا ہے کہ وہ اپنے اقتدار کو کس طرح استعمال کررہے ہیں اور جب وہ اپنے اقتدار سے بد مست ہو کر اپنے خالق ومالک سے بغاوت کا رویہ اختیار کرتے ہیں تو پھر اللہ کا عذاب آجاتا ہے۔ اس سرگزشت سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح رسولوں کی دعوت ہمیشہ ایک ہی رہی ہے اسی طرح ان کے مخالفین کی مخالفت کا انداز بھی ہمیشہ سے ایک ہی رہا ہے۔ یہ حقیقت اگر پیش نظر رہے تو ہر دور کے اہل حق جب مصائب سے گزرتے ہیں تو ہر دور کے رسولوں کو بالآخر جو فوزوفلاح نصیب ہوتی ہے وہ ان کے لیے مشعل راہ ثابت ہوسکتی ہے اور ہر دور کے اہل باطل اگر معذب قوموں کی تاریخ سامنے رکھیں اور قوم نوح کا انجام ان کے سامنے ہو تو انھیں یہ بات سمجھنے میں دشواری پیش نہیں آسکتی کہ ہم کس انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
Top