Ruh-ul-Quran - Al-Muminoon : 43
مَا تَسْبِقُ مِنْ اُمَّةٍ اَجَلَهَا وَ مَا یَسْتَاْخِرُوْنَؕ
مَا تَسْبِقُ : نہیں سبقت کرتی ہے مِنْ اُمَّةٍ : کوئی امت اَجَلَهَا : اپنی میعاد وَمَا : اور نہ يَسْتَاْخِرُوْنَ : پیچھے رہ جاتی ہے
کوئی قوم اپنی اجل معین سے نہ بڑھ سکتی ہے اور نہ وہ اس سے پیچھے ہی ہٹ سکتی ہے
مَا تَسْبِقُ مِنْ اُمَّۃٍ اَجَلَھَا وَمَا یَسْتَاْ خِرُوْنَ ۔ (المومنون : 43) کوئی قوم اپنی اجل معین سے نہ بڑھ سکتی ہے اور نہ وہ اس سے پیچھے ہی ہٹ سکتی ہے۔ ) غلط فہمی کے ازالے کے لیے سنت اللہ کا بیان مختلف انبیائے کرام اور رسولانِ گرامی کی دعوت کی تکذیب کے نتیجے میں عذاب کا شکار ہونے والی امتوں کی تاریخ بیان کی جارہی ہے تاکہ یہ بات اچھی طرح واضح ہوجائے کہ دنیا میں قوموں کی حیات وبقاء اور عزت وسرافرازی دنیوی وسائل کی فراہمی کا نتیجہ نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے آنے والے پیغامِ ہدایت کی قبولیت کا نتیجہ ہے۔ اسی طرح دنیا کی تباہی دنیا کے وسائل کی کمی سے فیصلہ کن سطح کو نہیں پہنچتی بلکہ اس کا حقیقی فیصلہ اللہ کے رسولوں اور ان پر نازل ہونے والی ہدایت کے انکار پر مبنی ہوتا ہے۔ لیکن اس سلسلے میں بجائے اس کے کہ قومیں اس استدلال سے صحیح نتیجہ اخذ کرنے کی کوشش کریں یہ قوموں کی بدنصیبی ہے کہ ہر بگڑی ہوئی قوم ممکن ہے دوسروں کے بارے میں اس استدلال کو حتمی سمجھتی ہو۔ لیکن اپنے بارے میں اس کارویہ دوسرے اسباب کا نتیجہ ہوتا ہے جو اس کے خودساختہ ہوتے ہیں۔ انھیں میں سے ایک یہ غلط فہمی بھی ہے کہ جب کوئی اللہ کا رسول کسی قوم کی طرف مبعوث ہوتا ہے اور وہ اس کی دعوت کو قبول کرنے سے انکار کرتی ہے تو وہ اسے اللہ کے عذاب سے ڈراتا ہے اور جب اس انذار پر چند سال گزر جاتے ہیں اور عذاب کا نزول نہیں ہوتا تو قوم اس بارے میں یکسو ہوجاتی ہے کہ یہ دعوائے رسالت کرنے والا اللہ کا حقیقی رسول نہیں ورنہ آج تک ہم پر عذاب نازل ہوچکا ہوتا اور ہماری زندگی کا رویہ وہ نہیں جو معذب قوموں کا ہوتا ہے ورنہ ہمیں اتنی مہلت نہ دی جاتی۔ اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے پیش نظر آیت کریمہ میں عذاب کے بارے میں سنت اللہ کو بیان کیا جارہا ہے۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ کے رسول جب کسی قوم کو عذاب سے ڈراتے ہیں تو ان کا یہ انذار یقینا حقیقت پر مبنی ہوتا ہے کیونکہ پیغمبروں اور ان کی دعوت کی تکذیب ہی درحقیقت کسی قوم کی زندگی کو مباح کردیتی ہے۔ لیکن رہی یہ بات کہ وہ وقت کب آئے گا جب ان پر اللہ کے عذاب کا کوڑا برسے گا ؟ تو اس وقت کو اجل معین کہتے ہیں۔ اس اجل معین کا وقت اللہ کے سوا کسی کے علم میں نہیں ہوتا۔ اس اجل معین کا تعین اللہ کی جانب سے کسی بھی قوم کی اخلاقی حالت کے حوالے سے کیا جاتا ہے۔ لیکن وہ قوم اپنی اجل کو کب پہنچے گی اس بات کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ دوسری بات جو اسی اجل ہی سے متعلق ہے۔ وہ یہ ہے کہ کوئی امت اپنی اجل معین سے پہلے عذاب کا شکار نہیں ہوتی۔ اسی طرح جس قوم کی اجل آجاتی ہے وہ اپنی تباہی اور بربادی کو ایک لمحہ کے لیے بھی مؤخر نہیں کرسکتی۔ جس طرح پانی ابلنے کی ایک اجل ہے وہ یہ ہے کہ اس کی مطلوب حرارت پانی کو پہنچ جائے اور اسی طرح اس کے جم جانے کی بھی ایک اجل ہے۔ وہ یہ ہے کہ اس میں وہ ٹھنڈک پیدا ہوجائے جو اس کے جما دینے کے لیے مطلوب ہے۔ اسی طرح کسی قوم کا بگاڑ جب اس سطح کو پہنچ جاتا ہے جو اس کے لیے اجل مقرر کردی گئی ہے۔ تو پھر وہ قوم اپنے انجام کو پہنچ کر رہتی ہے۔ اس حقیقت سے بالواسطہ قریش کو توجہ دلانا مقصود ہے کہ تم یہ سمجھتے ہو کہ اگر اللہ کا عذاب ہمارے لیے مقدر ہوچکا ہوتا تو وہ اب تک آچکا ہوتا۔ لیکن ابھی تک عذاب کا نہ آنا اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ لوگ ہیں۔ انھیں یہ کہا جارہا ہے کہ تم پر عذاب آنے کی ایک اجل معین ہے اس میں تقدیم و تاخیر نہیں ہوسکتی۔ اس لیے تم ابھی تک بچے ہوئے ہو۔
Top