Ruh-ul-Quran - Al-Muminoon : 47
فَقَالُوْۤا اَنُؤْمِنُ لِبَشَرَیْنِ مِثْلِنَا وَ قَوْمُهُمَا لَنَا عٰبِدُوْنَۚ
فَقَالُوْٓا : پس انہوں نے کہا اَنُؤْمِنُ : کیا ہم ایمان لے آئیں لِبَشَرَيْنِ : دو آدمیوں پر مِثْلِنَا : اپنے جیسا وَقَوْمُهُمَا : اور ان کی قوم لَنَا : ہماری عٰبِدُوْنَ : بندگی (خدمت) کرنے والے
تو انھوں نے کہا ہم اپنے ہی جیسے دو آدمیوں پر ایمان لے آئیں درآں حالیکہ ان کی قوم ہماری غلامی کررہی ہے
فَقَالُوْآ اَ نُؤْمِنُ لِبَشَرَیْنِ مِثْلِنَا وَقَوْمُھُمَا لَنَا عٰبِدُ وْنَ ۔ (المومنون : 47) تو انھوں نے کہا ہم اپنے ہی جیسے دو آدمیوں پر ایمان لے آئیں درآں حالیکہ ان کی قوم ہماری غلامی کررہی ہے۔ ) فرعونیوں کا قومی مزاج یہ اسی تکبر کا اظہار ہے جو ان کا قومی مزاج بن چکا تھا۔ ایک تو وہ اسی گمراہی کا شکار تھے جو سب گمراہ قوموں میں قدر مشترک کے طور پر موجود رہی ہے۔ یعنی وہ بشریت اور نبوت میں تضاد سمجھتے تھے۔ ان کے خیال میں نبوت و رسالت ایک بلند منصب ہے اور بشر نہایت معمولی مخلوق ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اتنے بڑے منصب کا تاج ایسی معمولی مخلوق کے ایک فرد کے سر پر رکھ دیاجائے۔ اور ان کے اس عذرلنگ کو ایک ایسے تصور نے تقویت فراہم کی تھی جو ان کا قومی مزاج تھا۔ یعنی ہم حکمرانوں اور آقائوں کی قوم ہیں اور یہ دو فرد جو نبوت کا دعویٰ کررہے ہیں یہ اس قوم سے تعلق رکھتے ہیں جو ہماری غلام ہے۔ تو کیا ہم اپنے غلاموں کو اپنا رہنما مان لیں ؟ اور ان کی اطاعت کا قلادہ اپنی گردن میں ڈال لیں۔
Top