Ruh-ul-Quran - Al-Muminoon : 50
وَ جَعَلْنَا ابْنَ مَرْیَمَ وَ اُمَّهٗۤ اٰیَةً وَّ اٰوَیْنٰهُمَاۤ اِلٰى رَبْوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّ مَعِیْنٍ۠   ۧ
وَجَعَلْنَا : اور ہم نے بنایا ابْنَ مَرْيَمَ : مریم کے بیٹے (عیسی) کو وَاُمَّهٗٓ : اور ان کی ماں اٰيَةً : ایک نشانی وَّاٰوَيْنٰهُمَآ : اور ہم نے انہیں ٹھکانہ دیا اِلٰى : طرف رَبْوَةٍ : ایک بلند ٹیلہ ذَاتِ قَرَارٍ : ٹھہرنے کا مقام وَّمَعِيْنٍ : اور جاری پانی
اور ہم نے مریم کے فرزند اور ان کی والدہ کو ایک عظیم نشانی بنایا۔ اور انھیں ایک پرسکون اور چشمے والی بلند جگہ پر ٹھکانہ دیا
وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْیَمَ وَاُمَّہٗٓ اٰیَۃً وَّاٰوَیْنٰھُمَآ اِلٰی رَبْوَۃٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّمَعِیْنٍ ۔ (المومنون : 50) (اور ہم نے مریم کے فرزند اور ان کی والدہ کو ایک عظیم نشانی بنایا۔ اور انھیں ایک پرسکون اور چشمے والی بلند جگہ پر ٹھکانہ دیا۔ ) اس آیت کا مفہوم تاریخِ نبوت کی آخری عظیم شخصیت حضرت مسیح ابن مریم ہیں۔ انسانی فکر کے الجھائو بھی عجیب ہیں۔ گزشتہ آیات میں تو ہم نے پڑھا کہ انسان اسلیے اللہ کے نبیوں پر ایمان لانے سے انکار کرتارہا کہ وہ بشر ہیں اور بشر نبی نہیں ہوسکتا۔ لیکن حضرت مسیح ابن مریم کے بارے میں معاملہ بالکل برعکس رہا کہ ان پر جو لوگ ایمان لائے وہ ان کی بشریت پر معترض ہونے کی بجائے ان کے خدا یا خدا کا بیٹا ہونے کے قائل ہوگئے اور آج تک اس غلط فہمی سے انھیں نجات نہیں مل سکی۔ وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْیَمَ وَاُمَّہٗٓ اٰیَۃً : امامِ رازی فرماتے ہیں کہ چاہیے یہ تھا کہ عبارت یوں ہوتی۔ ” وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْیَمَ وَاُمَّہٗٓ اٰ یَتَیْنِ “ لیکن تثنیہ کی بجائے واحد استعمال کرتے ہوئے آپ کی بن باپ ولادت کی طرف اشارہ کردیا۔ یعنی یہ نہیں فرمایا کہ ایک نشانی ابن مریم تھے اور ایک نشانی خود مریم اور یہ بھی نہیں فرمایا کہ ابن مریم اور اس کی ماں کو دو نشانیاں بنایا بلکہ فرمایا یہ ہے کہ وہ دونوں مل کر ایک نشانی بنائے گئے اس کا مطلب اس کے سوا کیا ہوسکتا ہے کہ باپ کے بغیر ابن مریم کا پیدا ہونا اور مرد کی صحبت کے بغیر مریم کا حاملہ ہونا ہی وہ چیز ہے جو ان دونوں کو ایک نشانی بناتی ہے۔ اس سے پہلے سورة مریم اور بعض دوسری سورتوں میں تفصیل سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر ہوچکا۔ یہاں تو صرف یہ بتانا ہے کہ اس آیت کریمہ میں جو کچھ فرمایا گیا ہے اس کا صحیح مفہوم کیا ہے۔ مختلف لوگوں نے مختلف باتیں ارشاد فرمائی ہیں لیکن ہم فوائد القرآن سے حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی کی تحریر کا ایک اقتباس نقل کرتے ہیں جو دلچسپ بھی ہے اور مفید بھی۔ شاید یہ وہی ٹیلہ یا اونچی زمین ہو جہاں وضع حمل کے وقت حضرت مریم تشریف رکھتی تھیں۔ چناچہ سورة مریم کی آیات ” فَنَادٰھَا مِنْ تَحْتِھَآ اَلاَّ تَحْزَنِیْ قَدْجَعَلَ رَبُّکِ تَحْتَکِ سَرِیًّا۔ وَھُزِّیْٓ اِلَیْکِ بِجِذْعِ النَّخْلَۃِ تُسٰقِطْ عَلَیْکِ رُطَبًا جَنِیًّا۔ “ دلالت کرتی ہیں کہ وہ جگہ بلند تھی۔ نیچے چشمہ یا نہر بہہ رہی تھی اور کھجور کا درخت نزدیک تھا (کذافسرہ ابن کثیر۔ ) لیکن عموماً مفسرین لکھتے ہیں کہ یہ حضرت مسیح کے بچپن کا واقعہ ہے۔ ایک ظالم بادشاہ ہیرودس نامی نجومیوں سے سن کر کہ حضرت عیسیٰ کو سرداری ملے گی لڑکپن ہی میں ان کا دشمن ہوگیا تھا اور قتل کے درپے تھا۔ حضرت مریم الہامِ ربانی سے ان کو لے کر مصر چلی گئیں اور اس ظالم کے مرنے کے بعد پھر شام واپس چلی آئیں۔ چناچہ ” انجیل متی “ میں بھی یہ واقعہ مذکور ہے اور مصر کا اونچا ہونا باعتبار رودنیل کے ہے ورنہ غرق ہوجاتا اور ” ماء معین “ رودِ نیل ہے۔ بعض نے ” ربوۃ “ (اونچی جگہ) سے مراد شام یا فلسطین لیا ہے اور کچھ بعید نہیں کہ جس ٹیلہ پر ولادت کے وقت موجود تھیں وہیں اس خطرہ کے وقت بھی پناہ دی گئی ہو۔ واللہ اعلم۔ بہرحال اہل اسلام میں کسی نے ” ربوۃ “ سے مراد کشمیر نہیں لیا۔ نہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کی قبر کشمیر میں بتلائی۔ البتہ ! ہمارے زمانہ کے بعض زائغین نے ” ربوۃ “ سے کشمیر مراد لیا ہے اور وہیں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی قبر بتلائی ہے جس کا کوئی ثبوت تاریخی حیثیت سے نہیں۔ محض کذب ودروغبانی ہے۔ محلہ ” خان یار “ شہر سری نگر میں جو قبر ” یوزآسف “ کے نام سے مشہور ہے اور جس کی بابت تاریخ اعظمی کے مصنف نے محض عام افواہ نقل کی ہے کہ ” لوگ اس کو کسی نبی کی قبر بتاتے ہیں اور وہ کوئی شہزادہ تھا اور دوسرے ملک سے یہاں آیا “ اس کو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی قبر بتانا پرلے درجہ کی بےحیائی اور سفاہت ہے۔ ایسی اٹکل پچو قیاس آرائیوں سے حضرت مسیح (علیہ السلام) کی حیات کو باطل ٹھہرانا بجز خبط اور جنون کے کچھ نہیں۔ اگر اس قبر کی تحقیق مطلوب ہو اور یہ کہ ” یوزآسف “ کون تھا تو جناب منشی حبیب اللہ صاحب امرتسری کا رسالہ دیکھو جو خاص اسی موضوع پر نہایت تحقیق وتدقیق سے لکھا گیا ہے اور جس میں اس مہمل خیال کی دھجیاں بکھیر دی گئی ہیں۔ فجزاہ اللہ تعالیٰ عنا و عن سائرالمسلمین احسن الجزاء۔
Top