Ruh-ul-Quran - Al-Muminoon : 51
یٰۤاَیُّهَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَ اعْمَلُوْا صَالِحًا١ؕ اِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌؕ
يٰٓاَيُّهَا : اے الرُّسُلُ : رسول (جمع) كُلُوْا : کھاؤ مِنَ : سے الطَّيِّبٰتِ : پاکیزہ چیزیں وَاعْمَلُوْا : اور عمل کرو صَالِحًا : نیک اِنِّىْ : بیشک میں بِمَا : اسے جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو عَلِيْمٌ : جاننے والا
اے رسولو ! پاکیزہ چیزیں کھائو اور نیک عمل کروتم جو کچھ بھی کرو گے میں اس کو خوب جانتاہوں
یٰٓـاَیُّھَا الرُّسُلُ کُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا ط اِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌ۔ (المومنون : 51) (اے رسولو ! پاکیزہ چیزیں کھائو اور نیک عمل کروتم جو کچھ بھی کرو گے میں اس کو خوب جانتا ہوں۔ ) یٰـٓاَیُّھَاالرُّسُلُ کا مفاد گزشتہ دو رکوعوں میں متعدد انبیائے کرام کا ذکر کرنے کے بعد تمام انبیائے کرام کو یٰٓـاَیُّھَا الرُّسُلکے مشترک لفظ سے خطاب فرماکر ایک خاص حقیقت کی طرف متوجہ کرنا مقصود ہے۔ وہ یہ کہ گزشتہ دو رکوعوں میں ہم نے سب سے پہلے حضرت نوح (علیہ السلام) کا ذکر کیا جو انسانوں میں بگاڑ پیدا ہوجانے کے بعد اللہ کی جانب سے پہلے رسول ہیں۔ پھر ان رسولوں کی طرف اشارے کیے جو ان قوموں کی طرف آئے جو قوم نوح کی تباہی کے بعدمختلف وقتوں میں روئے زمین پر اٹھائی گئیں۔ پھر ان دو رسولوں کا ذکر فرمایا گیا جنھوں نے تاریخِ اقوام اور تاریخِ مذاہب میں اپنی پیدا کردہ امت کے باعث بہت گہرا اثر پیدا کیا اور صدیوں تک دینی نقطہ نگاہ سے قوموں کی امامت کی اور اب وہ اپنے زوال اور بگاڑ کی انتہا کو پہنچ رہی تھیں۔ اس کے بعد خاتم النبیین ﷺ سے پہلے سلسلہ نبوت کے آخری نبی کا ذکر فرماکربنی اسرائیل کی اس شاخ کی طرف اشارہ کیا جو آنحضرت ﷺ کی معاصر قوموں میں سے ایک مضبوط مملکت کی مالک تھی اور یہ دونوں قومیں اس وقت اسلام کی سب سے بڑی حریف تھیں۔ ان مختلف اقوام اور امتوں کو دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید ان کی طرف مبعوث کیے جانے والے انبیائے کرام نے انھیں مختلف دین دیئے تھے۔ مختلف شریعتیں عطا کی تھیں اور اللہ کی بندگی کا وہ تصور دیا تھا جو ایک دوسرے سے الگ اور جدا تھا۔ لیکن یٰٓاَیُّھَا الرُّسُل کہہ کر ان تمام واہموں اور غلط فہمیوں کا ازالہ کیا گیا ہے کہ دنیا میں جو نبی اور رسول بھی آیا اس نے اللہ کی طرف سے خدا پرستی اور اللہ کی کامل بندگی اور اطاعت کی دعوت دی۔ سب نے ایک ہی دین پیش کیا اور بندگی اور خدا پرستی کی دعوت میں یہ تمام انبیاء مکمل طور پر ایک دوسرے کے حلیف اور مماثل تھے۔ سب نے اصل دین کو قائم کرنے پر اپنا سارا زور صرف کیا۔ البتہ ! اگر اللہ تعالیٰ کی حکمت مقتضی ہوئی تو انھوں نے اسی دین کے مزید مقتضیات نمایاں کیے۔ قرآن اسی سلسلہ کی آخری کڑی ہے۔ اس نے اصل دین کو بالکل نکھار کر اس کی اصل صورت میں پیش کردیا اور اس کے جو پہلو ابھی تشنہ تکمیل تھے اور جن کی تکمیل کا کام سابق انبیائے کرام کی پیش گوئیوں کے مطابق آخری بعثت پر اٹھا رکھا گیا تھا ان کی اس نے تکمیل کردی۔ ان تمام رسولوں اور ان کی دعوت میں اس حدتک یکسانی، مماثلت اور قربت پائی جاتی ہے کہ جب تمام رسولوں کا ذکر کیا جاتا ہے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایک ہی رسول کی شخصیت اور اس کی دعوت کے ابواب الٹے جارہے ہیں اور جب کسی ایک رسول کی شخصیت اور اس کی دعوت کا ذکر کیا جاتا ہے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تمام رسولوں کی دعوت کو ایک کو زے میں بند کردیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر یوں سمجھنا چاہیے کہ جب ہم سو کا لفظ بولتے ہیں تو اس میں نناوے کے ہند سے شامل اور مراد ہوتے ہیں۔ اور جب ایک، دو ، تین، چار سے سو تک کے عدد شمار کرتے ہیں تو مراد اس سے سو ہی ہوتا ہے۔ مولانا روم نے اس بارے میں جو اشارات کیے ہیں وہ ازبس لطیف واقع ہوئے ہیں۔ ؎ نامِ احمد نام جملہ انبیا است چونکہ صد آمد نود ہم پیش ما است چند غلط فہمیوں کا ازالہ اس آیت کریمہ میں انبیائے کرام کی دعوت کے سلسلہ میں کچھ غلط فہمیوں کا بھی ازالہ فرمایا گیا ہے۔ جن میں پہلی غلط فہمی وہ ہے جسے عیسائیت اور ہندو مت نے ضلالت کی انتہا تک پہنچایا۔ انھوں نے دنیا کو یہ تصور دیا کہ اللہ کی ذات ایسی پاکیزہ ہے کہ پاکیزہ ہوئے بغیر اس کا قرب حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ دنیا اور اس کے علائق ایک گندگی ہیں جس میں آلودہ ہو کر کوئی شخص قرب خداوندی اور اس کی بندگی کا حق ادا کرنے کا تصور نہیں کرسکتا۔ اس لیے اگر کوئی شخص یہ چاہتا ہے کہ میں اللہ کا قرب حاصل کروں تو اسے ترک دنیاکا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ جسے عیسائیت نے ” رہبانیت “ قرار دیا ہے اور ہندومت نے اسے ” جوگی ازم “ کا نام دیا ہے۔ اس آیت کریمہ میں پاکیزہ نعمتوں کا رزق کھانے کا حکم دے کر اس تصور کی جڑ کاٹ دی ہے۔ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ کی بندگی ترک دنیا نہیں بلکہ دنیا کا حصول اور استعمال ہے لیکن شرط یہ ہے کہ دنیا کی ان نعمتوں کو حاصل کیا جائے جسے اللہ کی شریعت نے پاکیزہ قرار دیا ہے اور اس طریقے سے حاصل کیا جائے جسے اس کی شریعت نے جائز اور حلال قرار دیا ہے۔ حرام طریقے سے حاصل ہونے والی پاکیزہ چیز بھی ناپاک اور حرام ہوجاتی ہے۔ آبِ زم زم انتہائی پاک اور مدینہ طیبہ کا خرما انتہائی پاکیزہ ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص چوری یا غصب کے ذریعے حاصل کرتا ہے تو یہ پاکیزہ نعمتیں بھی اس کے لیے ناپاک ہوجاتی ہیں۔ مزید فرمایا کہ طیبات کھانے کے ساتھ ساتھ صالح عمل بھی کرو۔ اس لیے کہ جس دین میں بنیادی صداقتوں کو قبول کرنے کے بعد ان پر عمل کرنے سے پہلو تہی کی جائے، اسلام نے اسے فسق وفجور قرار دیا ہے۔ وہ خدا پرستی کا نھیں خدا سے بغاوت کا راستہ ہے۔ مزید یہ اشارہ فرمایا کہ جب تک تم طیبات تک خود کو محدود نہ رکھو اور جائز طریقوں سے طیبات کو حاصل نہ کرو اس وقت تک تمہارا کوئی عمل عمل صالح کہلانے کا حق نہیں رکھتا۔ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا : الرجل یطیل السفراشعث اغبر ومطعمہ حرام ومشربہ حرام وملبسہ حرام و غذی بالحرام یمد یدیہ فی السماء یارب یارب فانّٰی یستجاب لذلک ” ایک شخص لمبا سفر کرکے غبار آلود پراگندہ مو آتا ہے اور آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا اٹھا کر دعائیں مانگتا ہے یا رب یارب مگر حال یہ ہوتا ہے کہ روٹی اس کی حرام، کپڑے اس کے حرام اور جسم اس کا حرام کی روٹیوں سے پلا ہوا ہے۔ اب کس طرح ایسے شخص کی دعا قبول ہو “۔ (مسلم، ترمذی، احمد، من حدیث ابی ہریرہ) مزید فرمایا کہ زندگی گزارتے ہوئے اس بنیادی تصور کو کبھی دل و دماغ سے الگ نہ ہونے دینا کہ تم جو کچھ کرتے ہو میں اسے جانتا ہوں یعنی تمہاری ہر حرکت میرے علم اور میری نگاہوں میں ہے۔ تم کسی وقت میرے حصار سے باہر نہیں ہو۔ تمہارا ہر عمل محفوظ کیا جارہا ہے اور اسی کی بنیاد پر قیامت کے دن تم سے باز پرس کی جائے گی اور اعلائے کلمۃ الحق کے سلسلہ میں اگر کبھی تمہیں تنہائی کا احساس ہو تو یہ مت بھولو کہ میں تمہارا پشت پناہ ہوں اور میں ہر وقت تمہارے ساتھ ہوں اور یہ بھی یاد رکھو کہ میری طرف سے تم پر جو شریعت نازل کی گئی ہے اس کو انفرادی اور اجتماعی زندگی میں نافذ اور برپا کرنا تمہاری ذمہ داری ہے اور اسے تم کہاں تک ادا کرتے ہو میں ہمیشہ اسے دیکھتا رہوں گا اور اسی حوالے سے تمہاری دنیوی اور اخروی کامیابیوں کا فیصلہ ہوگا۔ یہ بات یاد رہے کہ خطاب اگرچہ رسولوں سے ہے لیکن ان کے واسطے سے یہ ہدایات امتوں کی دی جارہی ہیں۔
Top