Ruh-ul-Quran - Al-Muminoon : 61
اُولٰٓئِكَ یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَ هُمْ لَهَا سٰبِقُوْنَ
اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ يُسٰرِعُوْنَ : جلدی کرتے ہیں فِي الْخَيْرٰتِ : بھلائیوں میں وَهُمْ : اور وہ لَهَا : ان کی طرف سٰبِقُوْنَ : سبقت لے جانیوالے ہیں
یہی لوگ بھلائیاں کرنے میں جلدی کرتے ہیں اور وہ بھلائیوں کی طرف سبقت کرنے والے ہیں
اُولٰٓئِکَ یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَھُمْ لَھَا سٰبِقُوْنَ ۔ (المومنون : 61) (یہی لوگ بھلائیاں کرنے میں جلدی کرتے ہیں اور وہ بھلائیوں کی طرف سبقت کرنے والے ہیں۔ ) ان آیات سے پہلے فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ جن لوگوں کی مال واولاد میں اضافہ فرماتے ہیں اور روزبروز ان کی دولت بڑھتی چلی جاتی ہے تو وہ بجائے اسے آزمائش سمجھنے کے اللہ کا انعام سمجھنے لگتے ہیں اور اس خوش فہمی میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ اس طرح سے اللہ تعالیٰ ان کے لیے خیر میں اضافہ فرما رہے ہیں۔ ان کے جواب میں فرمایا گیا ہے کہ خیر اور بھلائی میں اضافہ مال واولاد میں اضافے سے نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیے تو دل و دماغ میں تبدیلی کا برپا ہونا ضروری ہے۔ دنیا کے حریص اسبابِ دنیا کے معمولی خسارے سے پریشان ہوجاتے ہیں اس خسارے کو دور کرنے کے لیے انھیں اگر دوسروں کے کھنڈرات پر اپنی عظمت کی عمارت اٹھانی پڑے، اپنی تجوری بھرنے کے لیے دوسروں کی قوت لایموت چھیننی پڑے، اپنے سامانِ عیش ونشاط کی فراوانی کے لیے دوسروں کی ہڈیوں کا تیل نکالنا پڑے تو انھیں کوئی تأمل نہیں ہوتاکیون کہ وہ کامیابی صرف اپنی ذات کی کامیابی سمجھتے ہیں، لیکن حقیقت میں جو لوگ دنیا کی بہتری اور خیر کا سامان کرتے ہیں وہ اپنے لیے کم دوسروں کے لیے زیادہ جیتے ہیں۔ وہ ہر کام کرنے سے پہلے اپنے رب کے سامنے جواب دہی سے ڈرتے ہیں۔ دنیا میں نام نہاد عظمتوں کو تخت کبریائی پر فائز کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ وہ جو کچھ اللہ کے راستے میں دیتے ہیں اسے اپنی ذات کا ذریعہ بنانے کی بجائے اللہ کی رضا کے حصول کا ذریعہ بناتے ہیں۔ اس فکری تبدیلی سے جو عام رویہ جنم لیتا ہے اس کے نتیجے میں بھلائیاں آگے بڑھتی ہیں اور یہی درحقیقت اس فوزوفلاح کا راستہ ہے جس کی طرف اشارہ اس سورة کے آغاز میں بھی فرمایا گیا۔
Top