Ruh-ul-Quran - Al-Muminoon : 64
حَتّٰۤى اِذَاۤ اَخَذْنَا مُتْرَفِیْهِمْ بِالْعَذَابِ اِذَا هُمْ یَجْئَرُوْنَؕ
حَتّيٰٓ اِذَآ : یہاں تک کہ جب اَخَذْنَا : ہم نے پکڑا مُتْرَفِيْهِمْ : ان کے خوشحال لوگ بِالْعَذَابِ : عذاب میں اِذَا هُمْ : اس وقت وہ يَجْئَرُوْنَ : فریاد کرنے لگے
یہاں تک کہ جب ہم ان کے خوشحال لوگوں کو عذاب میں پکڑیں گے تو اس وقت وہ چِلّائیں گے
حَتّٰیٓ اِذَآ اَخَذْنَا مُتْرَفِیْھِمْ بِالْعَذَابِ اِذَا ھُمْ یَجْئَرُوْنَ ۔ لَا تَجْئَرُوا الْیَوْمَ اِِنَّکُمْ مِّنَّا لَا تُنصَرُوْنَ ۔ (المومنون : 64، 65) یہاں تک کہ جب ہم ان کے خوشحال لوگوں کو عذاب میں پکڑیں گے تو اس وقت وہ چِلّائیں گے۔ آج نہ چِلّائو اب ہماری طرف سے تمہاری کوئی مدد نہیں کی جائے گی۔ ) مترفین کا انجام اللہ کے سامنے جوابدہی سے بےنیاز ہو کر چونکہ ان کی ترجیحات بدل گئی ہیں اور ان کے اعمال بالکل دوسری روش اختیار کرچکے ہیں۔ ان کی ذہنی اور عملی حالت اس حال کو پہنچ گئی ہے کہ وہ اپنے رویے سے مختلف بات سننا بھی گوارا نہیں کرتے اور یہ لوگ اپنے معاشرے کی جو صورت آرائی کرچکے ہیں اس میں امرا وغربا کے دومختلف طبقے اس طرح اپنی جڑیں بنا چکے ہیں گویا وہ انسانی زندگی کے لازمے ہیں۔ اس معاشرے کو لیڈ (Lead) کرنے والا اور رہنمائی کرنے والا وہ بالادست طبقہ ہے جس کو اس آیت میں مترفین کہا گیا ہے۔ حقیقت میں ان تمام خرابیوں کی اگر ذمہ داری کسی پر ڈالی جاسکتی ہے تو وہ یہی مترفین کا گروہ ہے۔ اسی لیے اس آیت کریمہ میں فرمایا گیا ہے کہ یہ لوگ چونکہ نصیحت وفہمائش کے مرحلے سے گزر چکے ہیں اس لیے اب ایک ہی صورت ہے کہ ان کے خوشحال طبقے پر اللہ کا عذاب نازل ہو۔ وہ اس وقت یقینا تکبر اور تمرد کی تصویر بنے ہوئے ہیں لیکن جب ان پرا للہ کی گرفت آئے گی اور پھر وہ اس طرح آہ وبکا کریں گے بلکہ اس طرح چلائیں گے جس طرح بیل ذبح ہوتا ہوا ڈکراتا ہے کیونکہ ” جوأر “ بیل کی آواز کو کہتے ہیں۔ تو ان کی اس آہ وزاری اور بےتحاشہ چیخنے پر کوئی رحم نہیں کھایاجائے گا بلکہ اللہ کی طرف سے آواز آئے گی کہ آج چیخنے اور چلانے کی کوشش نہ کرو۔ ہمارے رسول نے تمہیں سمجھانے بجھانے کے لیے ہر ممکن طریقہ اختیار کیا۔ خونِ جگر پی پی کر تمہارے ساتھ اظہارِ ہمدردی کیا۔ تمہاری گالیوں پر تمہارے لیے دعائیں کی۔ لیکن تم نے ہمارے رسول کی بات سن کر نہ دی۔ تم اپنے تکبر اور تمرد میں اس حد کو پہنچ گئے ہو کہ کسی طرح کا رحم اور ہمدردی کے تم مستحق نہیں رہے کیونکہ جب اللہ کا عذاب آجاتا ہے تو پھر دعائیں بھی قبول نہیں ہوتیں جس طرح فرعون نے ڈوبتے ہوئے اللہ پر ایمان لانے کا دعویٰ کیا تاکہ اللہ سے رحم کی بھیک مانگے لیکن صاف فرمایا گیا کہ اب تمہیں اللہ پر ایمان یاد آیا اس سے پہلے تم انتہا درجے کے نافرمان اور مفسد رہے ہو، اب تم پر رحم نہیں کیا جاسکتا۔
Top