Ruh-ul-Quran - Al-Muminoon : 68
اَفَلَمْ یَدَّبَّرُوا الْقَوْلَ اَمْ جَآءَهُمْ مَّا لَمْ یَاْتِ اٰبَآءَهُمُ الْاَوَّلِیْنَ٘
اَفَلَمْ يَدَّبَّرُوا : کیا پس انہوں نے غور نہیں کیا الْقَوْلَ : کلام اَمْ : یا جَآءَهُمْ : ان کے پاس آیا مَّا : جو لَمْ يَاْتِ : نہیں آیا اٰبَآءَهُمُ : ان کے باپ دادا الْاَوَّلِيْنَ : پہلے
کیا ان لوگوں نے اس کلام پر کبھی غور نہیں کیا یا ان کے پاس پیغمبر ﷺ کوئی ایسی چیز لے کر آئے ہیں جو ان کے اگلے آبائو اجداد کے پاس نہیں آئی
اَفَلَمْ یَدَّ بَّرُوا الْقَوْلَ اَمْ جَآئَ ھُمْ مَّا لَمْ یَاْتِ اٰبَآئَ ھُمُ الْاَوَّلِیْنَ ۔ (المومنون : 68) (کیا ان لوگوں نے اس کلام پر کبھی غور نہیں کیا یا ان کے پاس پیغمبر ﷺ کوئی ایسی چیز لے کر آئے ہیں جو ان کے اگلے آبائو اجداد کے پاس نہیں آئی۔ ) مشرکین مکہ کی مخالفت کے نام نہاد اسباب مشرکینِ مکہ کا رویہ جو گزشتہ آیات میں متعدد دفعہ زیر بحث آچکا ہے اور آنحضرت ﷺ کی دعوت کے ساتھ ان کا سلوک جس کو ہر آنکھ دیکھ رہی ہے کیا اس وجہ سے ہے کہ نبی کریم ﷺ اللہ کی طرف سے جو کتاب ان کے سامنے پیش کررہے ہیں یعنی قرآن کریم انھوں نے کبھی اس پر غور و فکر نہیں کیا کہ وہ کتاب کیسی ہے ؟ کیسی زبان میں ہے ؟ اس کی فصاحت و بلاغت کا عالم کیا ہے ؟ وہ انھیں کس بات کی دعوت دیتی ہے ؟ اور یا ایسا ہے کہ انھوں نے غور تو کیا ہے لیکن وہ کتاب انھیں سمجھ میں نہیں آئی۔ یہ دونوں باتیں درحقیقت ناقابلِ قبول ہیں۔ نبی کریم ﷺ کی جو دعوت ان کے لیے پریشانی کا باعث بنی ہوئی ہے اور کتاب کی تلاوت دلوں کی تسخیر کررہی ہے اور جس کی معجز بیانی نے قریش کے بڑے بڑے لوگوں کو حیرانی میں مبتلا کررکھا ہے اور جس کی بیان کردہ تعلیم اور نظام زندگی کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہے یہ کیسے ممکن ہے کہ انھوں نے کبھی اس پر غور وفکر نہ کیا ہو ؟ رہی یہ بات کہ ہوسکتا ہے کہ انھیں یہ کتاب سمجھ نہ آئی ہو۔ یہ بات قبول کرنا بھی محال ہے اس لیے کہ وہ کتاب کوئی چیستان نہیں جو سمجھ نہ آتی ہو۔ اس کی زبان الجھی ہوئی زبان نہیں وہ اسی زبان میں نازل ہورہی ہے جسے قریش کی زبان کہا جاتا ہے۔ اس لیے یہ دونوں باتیں ان کے رویے کا باعث نہیں ہوسکتیں۔ تیسری بات اس آیت کریمہ میں یہ فرمائی گئی ہے کہ شاید ان کے موجودہ رویے کا سبب یہ ہے کہ ان کے بڑے بڑے لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ محمد ﷺ ہمارے پاس ایک ایسی دعوت لے کر آئے ہیں اور اللہ کی طرف سے اپنے اوپر ایسی وحی اترنے کا دعویٰ کررہے ہیں اور ایسی باتوں کی تعلیم دے رہے ہیں جو باتیں اور جو وحی ہمارے اگلے آبائو اجداد میں کبھی نہیں آئی۔ ان میں کبھی کسی نے نبوت کا دعویٰ نہیں کیا۔ اور کبھی یہ بات نہیں کہی کہ تم چونکہ اللہ کے بندے ہو اور اللہ تمہارا معبود ہے اس لیے تمہیں زندگی گزارنے کا طریقہ اور ڈھب اللہ کی طرف سے ملنا چاہیے۔ تم اپنی طرف سے جو اصول حیات اور ضوابطِ حیات طے کرو گے وہ صحیح نہیں ہوں گے۔ اس طرح کی باتیں ہمارے آبائواجداد نے کبھی نہیں سنیں۔ یہ بات بھی پہلی دونوں باتوں کی طرح بالکل غلط ہیں۔ اس لیے کہ جہاں تک نبوت کا تعلق ہے اور اللہ کی طرف سے رہنمائی نازل کیے جانے کا سوال ہے یہ کوئی نئی بات نہیں۔ قریش اور دوسرے اہل عرب اپنے تجارتی اسفار میں عراق، شام اور مصر سے گزرتے رہتے ہیں۔ اس لیے وہاں جو نبی مبعوث ہوئے ان کی تاریخ ان کے لیے اجنبی نہیں اور یہ بھی اب امر واقعہ ہے کہ ان کی اپنی سرزمین میں ان کے اپنے آبائواجداد میں حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل (علیہما السلام) اللہ کے رسول گزرے ہیں۔ اور خود جزیرہ عرب کے اندر حضرت ہود، حضرت صالح اور حضرت شعیب (علیہم السلام) اپنے اپنے وقتوں میں رسول بن کر آئے۔ اور ان کی قومیں ان کی تکذیب کے باعث اللہ کے عذاب کا شکار ہوئیں۔ یہ سب لوگ ان کے جانے پہچانے ہیں اور یہ انھیں اپنے تئیں اللہ کے سچے نبی سمجھتے ہیں۔ تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ آنحضرت ﷺ کی دعوت کو یہ کہہ کر رد کردیں کہ یہ ایک ایسی اجنبی چیز ہے جس سے نہ ہم واقف ہیں اور نہ ہمارے آبائواجداد واقف تھے۔
Top