Ruh-ul-Quran - An-Noor : 16
وَ لَوْ لَاۤ اِذْ سَمِعْتُمُوْهُ قُلْتُمْ مَّا یَكُوْنُ لَنَاۤ اَنْ نَّتَكَلَّمَ بِهٰذَا١ۖۗ سُبْحٰنَكَ هٰذَا بُهْتَانٌ عَظِیْمٌ
وَلَوْلَآ : اور کیوں نہ اِذْ : جب سَمِعْتُمُوْهُ : تم نے وہ سنا قُلْتُمْ : تم نے کہا مَّا يَكُوْنُ : نہیں ہے لَنَآ : ہمارے لیے اَنْ نَّتَكَلَّمَ : کہ ہم کہیں بِھٰذَا : ایسی بات سُبْحٰنَكَ : تو پاک ہے ھٰذَا : یہ بُهْتَانٌ : بہتان عَظِيْمٌ : بڑا
اور ایسا کیوں نہ ہوا کہ جب تم نے یہ افواہ سنی تو تم نے کہہ دیا ہوتا کہ ہمیں کیا حق ہے کہ ہم ایسی بات زبان پر لائیں، اے اللہ تو پاک ہے، یہ تو ایک بہت بڑا بہتان ہے
وَلَوْلَآ اِذْسَمِعْتُمُوْہُ قُلْتُمْ مَّایَکُوْنُ لَنَـآ اَنْ نَّـتَـکَلَّمَ بِھٰذَا صلے ق سُبْحٰنَـکَ ھٰذَا بُھْتَانٌ عَظِیْمٌ۔ (النور : 16) (اور ایسا کیوں نہ ہوا کہ جب تم نے یہ افواہ سنی تو تم نے کہہ دیا ہوتا کہ ہمیں کیا حق ہے کہ ہم ایسی بات زبان پر لائیں، اے اللہ تو پاک ہے، یہ تو ایک بہت بڑا بہتان ہے۔ ) ایک اور پہلو سے تنبیہ پیشتر ازیں آیت 12 کا آغاز بھی ان ہی الفاظ سے ہوا ہے جن الفاظ سے اس آیت کا آغاز ہورہا ہے، لیکن وہاں یہ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ جب تمہارے اندر اس بہتان کی افواہ پھیلی تو تمہیں فوراً مسلمانوں کے آپس میں حقیقی رشتے کی یاد تازہ ہونی چاہیے تھی۔ اور اگر اس رشتے کے تقاضوں کو ملحوظِ خاطر رکھا جاتا تو اس الزام کو پھیلنے کا موقع نہ ملتا۔ لیکن پیش نظر آیت کریمہ میں اب یہ فرمایا جارہا ہے کہ تمہیں ایک اور حوالے سے بھی اس بہتان کو زبان پر لانے سے اجتناب کرنا چاہیے تھا۔ اور اس حوالے کا ذکر سُبْحٰنَـکَکے لفظ سے کیا گیا، جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا رسول کوئی کام اللہ تعالیٰ کے حکم یا اس کی اجازت کے بغیر نہیں کرتا۔ اور مزید یہ کہ اس کے ہر کام کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ پر ہوتی ہے، کیونکہ وہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کا نمائندہ ہے۔ اس اصول کے تحت اللہ تعالیٰ کا رسول جب کسی عورت سے نکاح کرتا ہے تو وہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کا انتخاب ہوتی ہے اور اسی کے حکم سے یہ نکاح بروئے کار آتا ہے۔ اگر آگے چل کر پیغمبر کی بیوی کسی ایسی کمزوری کا شکار ہوتی ہے جو ذات رسالت مآب کی صحبت کے شایان شان نہ ہو تو اس کا حرف جہاں رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی پر آتا ہے، وہیں اللہ تعالیٰ کی ذات جل جلالہ پر بھی آتا ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ ( رض) آنحضرت ﷺ کی سب سے محبوب رفیقہ حیات ہیں اور احادیث کی صراحت کے مطابق اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپ ( رض) کا آنحضرت ﷺ سے نکاح ہوا، اور ہجرت کے بعد رخصتی ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے تمام امہات المومنین میں سب سے زیادہ آپ ( رض) کو علم شریعت عطا فرمایا۔ اور آنحضرت ﷺ پر اس وقت وحی نازل ہوتی جب آپ ﷺ حضرت عائشہ ( رض) کے گھر میں ہوتے تھے۔ آپ ﷺ کی زبان فیض ترجمان سے حضرت عائشہ صدیقہ ( رض) کے بیشمار فضائل بیان ہوئے۔ ان تمام باتوں کے باوجود اگر حضرت عائشہ صدیقہ ( رض) نَعَوْذُبِاللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ کسی کمزوری کا شکار ہوتی ہیں تو اس کی زد براہ راست اللہ تعالیٰ کے انتخاب اور آنحضرت ﷺ کے اعتماد پر پڑتی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ اس سے پاک ہے کہ اس کی طرف کسی کمزوری کو منسوب کیا جائے یا اس کا کوئی انتخاب غلط ثابت ہو۔ چناچہ جیسے ہی یہ بہتان مسلمانوں کے کانوں تک پہنچا تھا، انھیں یہ سوچ کر کہ یہ بہتان درحقیقت ام المومنین پر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات عظیم پر ہے۔ فوراً کہہ دینا چاہیے تھا کہ ہم ایسی بےہودہ بات کو کبھی زبان پر لانے کی جسارت نہیں کرسکتے، یہ تو بہت بڑا بہتان ہے جسے دشمنوں نے اختراع کیا ہے۔
Top