Ruh-ul-Quran - An-Noor : 6
وَ الَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ اَزْوَاجَهُمْ وَ لَمْ یَكُنْ لَّهُمْ شُهَدَآءُ اِلَّاۤ اَنْفُسُهُمْ فَشَهَادَةُ اَحَدِهِمْ اَرْبَعُ شَهٰدٰتٍۭ بِاللّٰهِ١ۙ اِنَّهٗ لَمِنَ الصّٰدِقِیْنَ
وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ يَرْمُوْنَ : تہمت لگائیں اَزْوَاجَهُمْ : اپنی بیویاں وَلَمْ يَكُنْ : اور نہ ہوں لَّهُمْ : ان کے شُهَدَآءُ : گواہ اِلَّآ : سوا اَنْفُسُهُمْ : ان کی جانیں (خود) فَشَهَادَةُ : پس گواہی اَحَدِهِمْ : ان میں سے ایک اَرْبَعُ : چار شَهٰدٰتٍ : گواہیاں بِاللّٰهِ : اللہ کی قسم اِنَّهٗ لَمِنَ : کہ وہ بیشک سے الصّٰدِقِيْنَ : سچ بولنے والے
اور جو لوگ اپنی بیویوں پر الزام لگائیں اور ان کے پاس خود اپنے سوا دوسرے کوئی گواہ نہ ہوں تو ان میں سے ایک شخص کی شہادت یہ ہے کہ وہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر گواہی دے کہ وہ (اپنے الزام) میں سچا ہے
وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ اَزْوَاجَھُمْ وَلَمْ یَکُنْ لَّھُمْ شُھَدَآئُ اِلَّآ اَنْفُسُھُمْ فَشَھَادَۃُ اَحَدِھِمْ اَرْبَعُ شَھٰدٰتٍ م بِاللّٰہِ لا اِنَّـہٗ لَمِنَ الصّٰدِقِیْنَ ۔ وَالْخَامِسَۃُ اَنَّ لَعْنَتَ اللّٰہِ عَلَیْہِ اِنْ کَانَ مِنَ الْـکٰذِبِیْنَ ۔ وَیَدْرَؤُا عَنْھَا الْعَذَابَ اَنْ تَشْھَدَ اَرْبَعَ شَھٰدٰتٍم بِاللّٰہِ لا اِنَّـہٗ لَمِنَ الْـکٰذِبِیْنَ ۔ لا وَالْخَامِسَۃَ اَنَّ غَضَبَ اللّٰہِ عَلَیْھَـآ اِنْ کَانَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ ۔ وَلَوْلاَ فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَتُہٗ وَاَنَّ اللّٰہَ تَوَّابٌ حَکِیْمٌ۔ (النور : 6 تا 10) (اور جو لوگ اپنی بیویوں پر الزام لگائیں اور ان کے پاس خود اپنے سوا دوسرے کوئی گواہ نہ ہوں تو ان میں سے ایک شخص کی شہادت یہ ہے کہ وہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر گواہی دے کہ وہ (اپنے الزام) میں سچا ہے۔ اور پانچویں بار یہ کہے کہ اس پر اللہ کی لعنت ہو، اگر وہ کذب بیانی کرنے والوں میں سے ہو۔ اور عورت سے سزا اس طرح ٹل سکتی ہے کہ وہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر شہادت دے کہ یہ شخص اپنے الزام میں جھوٹا ہے۔ اور پانچویں مرتبہ یہ کہے کہ خدا کا غضب ہو اس پر اگر وہ (خاوند) سچا ہو۔ اور اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی (تو تم بڑی الجھنوں میں پڑجاتے) اور بیشک اللہ تعالیٰ بہت توبہ قبول کرنے والا، بڑا دانا ہے۔ ) آیات کا شان نزول جب حدقذف کے بارے میں سابقہ آیت نازل ہوئی تو سعدبن عبادہ ( رض) نے عرض کی، یارسول اللہ ﷺ ! أَھَکَذَا اُنْزِلَتْ ” کیا یہ آیت یونہی نازل ہوئی ہے ؟ “ حضور ﷺ نے فرمایا : اے انصار ! سنتے ہو، تمہارا سردار کیا کہہ رہا ہے۔ سعد بولے، یارسول اللہ ﷺ ! خدا کی قسم میں جانتا ہوں کہ یہ حق ہے، اور اللہ تعالیٰ نے اسے نازل فرمایا ہے، لیکن میں یہ خیال کرکے پریشان ہورہا ہوں کہ اگر میں کسی بدبخت کو اپنی بیوی کے ساتھ ملوث دیکھوں تو جب تک میں چار گواہ تلاش کرکے نہ لائوں، اس کیخلاف زبان نہیں کھول سکتا، اور اگر گواہوں کو بلانے جاؤں گا تو وہ اپنا کام تمام کرکے جا چکا ہوگا۔ اور ایک روایت میں ہے کہ بجائے کسی گواہ کے تلاش کرنے کے میں تو ان دونوں کا سر قلم کردوں گا۔ اس گفتگو کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ ایک رات حضرت ہلال بن امیہ ( رض) اپنے کھیتوں سے جب گھر آئے تو اپنی اہلیہ کے ساتھ ایک آدمی کو ملوث پایا۔ انھوں نے سارا معاملہ اپنی آنکھوں سے دیکھا اور کانوں سے سنا۔ صبح بارگاہِ نبوت ﷺ میں حاضر ہوئے اور سارا ماجرا کہہ سنایا۔ حضور ﷺ کو یہ سن کر بڑی کوفت ہوئی۔ آپ ﷺ نے حضرت ہلال بن امیہ ( رض) سے کہا کہ تم اس پر گواہ پیش کرو، ورنہ تم پر حدقذف جاری ہوگی۔ لیکن روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ہلال ( رض) بالکل مطمئن تھے، انھیں یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ ان کی پشت کو محفوظ فرمائے گا، اور کوئی ایسی آیت نازل فرمائے گا جو اس الجھن کا حل پیش کردے گی۔ اسی اثناء میں آنحضرت ﷺ پر نزول وحی کے آثار نمودار ہوئے۔ جب یہ کیفیت ختم ہوئی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اے ہلال تمہیں مبارک ہو، اللہ تعالیٰ نے تمہاری مشکل کا حل نازل فرما دیا۔ حضرت ہلال ( رض) نے عرض کیا کہ میں اللہ تعالیٰ سے اسی کی امید لگائے ہوئے تھا۔ اب رسول اللہ ﷺ نے ہلال بن امیہ ( رض) کی بیوی کو بھی بلوا لیا۔ جب دونوں میاں بیوی جمع ہوگئے تو آپ ﷺ نے انھیں پہلے حکم خداوندی سنایا، پھر فرمایا خوب سمجھ لو کہ آخرت کا عذاب دنیا کے عذاب سے زیادہ سخت ہے۔ حضرت ہلال ( رض) نے عرض کیا، میں نے اس پر بالکل صحیح الزام لگایا ہے۔ عورت نے کہا یہ بالکل جھوٹ ہے۔ الزام سے انکار پر دونوں میں ملاعنت حضور ﷺ نے فرمایا، اچھا تو ان دونوں میں ملاعنت کرائی جائے۔ چناچہ پہلے حضرت ہلال ( رض) اٹھے، انھوں نے حکم قرآنی کے مطابق قسمیں کھانی شروع کیں۔ نبی کریم ﷺ اس دوران میں بار بار فرماتے رہے، اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ تم میں سے ایک ضرور جھوٹا ہے، پھر کیا تم میں سے کوئی توبہ کرے گا۔ پانچویں قسم سے پہلے حاضرین نے ہلال ( رض) سے کہا خدا سے ڈرو، دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے ہلکا ہے۔ پانچویں قسم تم پر عذاب واجب کردے گی، مگر انھوں نے پانچویں قسم بھی کھالی۔ پھر عورت اٹھی اور اس نے بھی قسمیں کھانی شروع کیں۔ پانچویں قسم سے پہلے اسے بھی روک کر کہا گیا کہ خدا سے ڈر، آخرت کے عذاب کی بہ نسبت دنیا کا عذاب برداشت کرلینا آسان ہے۔ یہ آخری قسم تجھ پر عذاب الٰہی کو واجب کردے گی۔ یہ سن کر وہ کچھ دیر رکی اور جھجکتی رہی۔ لوگوں نے سمجھا اعتراف کرنا چاہتی ہے، پھر کہنے لگی میں ہمیشہ کے لیے اپنے قبیلے کو رسوا نہیں کروں گی اور پانچویں قسم بھی کھا گئی۔ اس کے بعد نبی کریم ﷺ نے دونوں کے درمیان تفریق کرا دی۔ حضور ﷺ نے فرمایا، اب جو بچہ پیدا ہو اس کی نسبت اس کی ماں کی طرف کی جائے، اور ساتھ ہی ایک اور حکم بھی دیا کہ اگر اس کے بعد کسی نے اس عورت کو زنا سے متہم کیا یا اس کے بچے کو حرامی کہا تو اس پر حدقذف لگائی جائے گی۔ اس ارشاد سے واضح ہوگیا کہ جس کو شریعت کسی الزام سے بری کردے پھر اس پر کسی کو زبان درازی کرنے کا حق نہیں پہنچتا۔ اس طریقہ کار کو لعان کہتے ہیں۔ لعان کرنے سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے اور پھر وہ عورت زندگی بھر اس کے نکاح میں نہیں آسکتی۔ آخری آیت کریمہ کا ایک ترجمہ تو وہ ہے جو ہم نے اوپر کیا ہے، اور دوسرا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اگر تم پر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی اور یہ بات نہ ہوتی کہ اللہ تعالیٰ توبہ قبول فرمانے والا اور صاحب حکمت ہے تو تم اس کی پکڑ میں آجاتے۔ یہ آیت دراصل تنبیہ اور تذکیر کی آیت ہے اور اس میں جوابِ شرط نحو کے عام قاعدے کے مطابق محذوف ہے۔ ہم نے ترجمے میں اس کو کھول دیا ہے اور آگے آیت 14 اس کی تائید کررہی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ کوئی معاشرہ اخلاقی کمزوریوں سے خالی نہیں ہوتا، لیکن اگر اس کو مناسب قانون نہ دیا جائے یا اس کی جہت متعین نہ کی جائے یا اس کی تعلیم و تربیت پر پورا دھیان نہ دیا جائے تو وہ معاشرہ کبھی اپنی اخلاقی منزل کو نہیں پاسکتا۔ اللہ تعالیٰ کا یہ فضل و کرم ہے کہ منافقین نے تو اپنے دل کے پھپھولے پھوڑے اور سازشیوں نے اپنے مذموم ارادے پورا کرنے کی کوشش کی، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے برے ارادوں اور مساعی ذمیمہ کا علاج کرتے ہوئے ایسا قانون دیا اور ایسے نصائح سے نوازا جس نے مسلمان معاشرے کی نہ صرف کمزوریوں کو دور کیا بلکہ ان میں بہتر سے بہتر اخلاق کے لیے زمین ہموار کردی۔ اور شاید ایک اور بات کی طرف اشارہ ہو کہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح جرمِ زنا کی انتہائی سزا مقرر فرمائی اسی طرح اس کے ثبوت میں نہایت احتیاط سے کام لیا اور ہر طرح کی بےاحتیاطی کرنے والوں کو سخت سزا کی تنبیہ کی، لیکن یہی احتیاط جس میں کوتاہی سے حد قذف تک نوبت پہنچ سکتی تھی، میاں بیوی کے معاملے میں اگر اسے باقی رکھا جاتا تو شوہر اپنی بیوی کی بدچلنی پر کڑھتا اور خون کے آنسو پیتا، لیکن اس کا کوئی علاج نہ کر پاتا۔ اللہ تعالیٰ نے خاص کرم فرمایا کہ اس نے ان پیچیدگیوں سے نجات کا راستہ اس امت کو دیا جس کی وجہ سے بداخلاقی کا انسداد بھی ہوگیا اور دلوں کو اطمینان بھی مل گیا۔
Top