Ruh-ul-Quran - An-Noor : 63
لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا١ؕ قَدْ یَعْلَمُ اللّٰهُ الَّذِیْنَ یَتَسَلَّلُوْنَ مِنْكُمْ لِوَاذًا١ۚ فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِهٖۤ اَنْ تُصِیْبَهُمْ فِتْنَةٌ اَوْ یُصِیْبَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
لَا تَجْعَلُوْا : تم نہ بنا لو دُعَآءَ : بلانا الرَّسُوْلِ : رسول کو بَيْنَكُمْ : اپنے درمیان كَدُعَآءِ : جیسے بلانا بَعْضِكُمْ : اپنے بعض (ایک) بَعْضًا : بعض (دوسرے) کو قَدْ يَعْلَمُ : تحقیق جانتا ہے اللّٰهُ : اللہ الَّذِيْنَ : جو لوگ يَتَسَلَّلُوْنَ : چپکے سے کھسک جاتے ہیں مِنْكُمْ : تم میں سے لِوَاذًا : نظر بچا کر فَلْيَحْذَرِ : پس چاہیے کہ وہ ڈریں الَّذِيْنَ : جو لوگ يُخَالِفُوْنَ : خلاف کرتے ہیں عَنْ اَمْرِهٖٓ : اس کے حکم سے اَنْ : کہ تُصِيْبَهُمْ : پہنچے ان پر فِتْنَةٌ : کوئی آفت اَوْ يُصِيْبَهُمْ : یا پہنچے ان کو عَذَابٌ : عذاب اَلِيْمٌ : دردناک
اپنے درمیان رسول کے بلانے کو آپس میں ایک دوسرے کا سا بلانا نہ سمجھو، اللہ تم میں سے ان لوگوں کو اچھی طرح جانتا ہے جو ایک دوسرے کی آڑ لیتے ہوئے کھسک جاتے ہیں، پس وہ لوگ جو اللہ کے رسول کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں انھیں ڈرنا چاہیے کہ ان پر کوئی آزمائش آجائے یا ان کو ایک دردناک عذاب آپکڑے
لاَ تَجْعَلُوْا دُعَآئَ الرَّسُوْلِ بَیْنَکُمْ کَدُعَـآئِ بَعْضِکُمْ بَعْضًا ط قَدْ یَعْلَمُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ یَتَسَلَّلُوْنَ مِنْکُمْ لِوَاذًا ج فَلْیَحْذَرِالَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِہٖٓ اَنْ تُصِیْبَہُمْ فِـتْـنَۃٌ اَوْیُصِیْبَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ۔ (النور : 63) (اپنے درمیان رسول کے بلانے کو آپس میں ایک دوسرے کا سا بلانا نہ سمجھو، اللہ تم میں سے ان لوگوں کو اچھی طرح جانتا ہے جو ایک دوسرے کی آڑ لیتے ہوئے کھسک جاتے ہیں، پس وہ لوگ جو اللہ کے رسول کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں انھیں ڈرنا چاہیے کہ ان پر کوئی آزمائش آجائے یا ان کو ایک دردناک عذاب آپکڑے۔ ) دعاء الرسول سے مراد اور اس کی اہمیت اجتماعی امر میں آنحضرت ﷺ کے حکم کی اہمیت کو بیان کرنے کے بعد اب عام معمول کی زندگی اور آپ ﷺ کی عام مجالس میں آپ ﷺ کے حکم کی اہمیت کو بیان فرمایا جارہا ہے۔ سب سے پہلی بات جو فرمائی گئی ہے اگرچہ اس کے الفاظ عام ہیں لیکن قرینہ دلیل ہے کہ کلام کا رخ منافقین ہی کی طرف ہے۔ ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے رسول کے بلاوے کو اس طرح نہ سمجھو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے کو بلاتے ہو۔ یہاں بلاوے کے لیے دعا کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے تین معنی ہوسکتے ہیں اور اس آیت میں تینوں ہی مراد لیے جاسکتے ہیں۔ 1 دعاء الرسول سے مراد، رسول اللہ ﷺ کا لوگوں کو بلانا ہے۔ اس سورة میں اضافت الی الفاعل ہوگی اور مفہوم یہ ہوگا کہ آنحضرت ﷺ جب تمہیں بلائیں تو اس کو اس طرح نہ سمجھنا جیسے تم ایک دوسرے کو بلاتے ہو۔ کہ جس کو بلایا جاتا ہے اسے اختیار ہوتا ہے چاہے وہ آئے نہ آئے۔ بلانے پر نہ اس کا آنا فرض ہوتا ہے اور نہ جانے کے لیے اجازت لینا ضروری ہوتا ہے۔ لیکن آنحضرت ﷺ کا بلانا اس سے بالکل مختلف حیثیت رکھتا ہے۔ آپ ﷺ کے بلانے پر لبیک کہنا، اس کی فوری تعمیل کرنا فرض اور واجب ہے اور اس میں تساہل کرنا فسق ہے اور اس کا انکار کرنا کفر ہے۔ حضرت ابی ابن کعب ( رض) کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی شخص نماز میں مشغول ہو اور حضور ﷺ اسے بلائیں تو نماز توڑنا ضروری ہوجاتا ہے۔ 2 اور دوسرا اس کا معنی ہے رسول کو پکارنا اور بلانا۔ اس صورت میں اضافت الی المفعول ہوگی۔ حضرت عبداللہ ابن عباس ( رض) سے ابن کثیر اور قرطبی نے یہی نقل کیا ہے۔ اس تفسیر کی بنا پر آیت کا مفہوم یہ ہوگا کہ تم جب رسول اللہ ﷺ کو پکارو یا بلائو یا مخاطب کرو تو عام لوگوں کی طرح آپ ﷺ کا نام لے کر یا محمد ﷺ نہ کہو، یہ بےادبی ہے۔ بلکہ تعظیمی القاب کے ساتھ یارسول اللہ، یا نبی اللہ وغیرہ الفاظ سے آپ ﷺ کو پکارا جائے۔ کیونکہ آپ ﷺ کی تعظیم و توقیر مسلمانوں پر واجب ہے۔ اور ایسی ہر چیز جو آپ ﷺ کو تکلیف دیتی اور ادب کے خلاف ہو اس کا ارتکاب حرام ہے۔ سورة الحجرات میں حکم دیا گیا ہے کہ آپ ﷺ کے سامنے آواز کو پست رکھو۔ جس طرح آپس میں بےتکلفی سے باتیں کرتے ہو، آنحضرت ﷺ سے مت کرو۔ آپ ﷺ اگر گھر میں تشریف رکھتے ہوں تو باہر سے آواز دے کر مت بلائو۔ کس قدر دکھ کی بات ہے کہ آج کل بعض شعراء نے اپنے اشعار میں یا محمد ﷺ کا استعمال عام کردیا ہے اور بعض جاہل محبت کے جوش میں آپ ﷺ کو یا محمد ﷺ کہہ کر پکارتے ہیں۔ اور اسے اظہارِ عشق سمجھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس سے اپنی پناہ میں رکھے۔ 3 دعا کو دعاہی کے معنوں میں لیا جائے۔ یعنی تم اللہ تعالیٰ کے رسول کی دعا کو عام آدمیوں کی سی دعا نہ سمجھو۔ اگر وہ خوش ہو کر کسی کو دعا دیتے ہیں تو اس سے بڑی نعمت کوئی نہیں۔ اور اگر وہ ناراض ہو کر بددعا دیتے ہیں تو اس سے بڑھ کر بدنصیبی کوئی نہیں۔ یہ تینوں مفہوم اپنے اپنے محل کے لحاظ سے یقینا صحیح ہیں۔ اور بعض حوالوں سے ان میں سے ہر ایک مطلب مراد لیا جاسکتا ہے۔ لیکن سیاق کلام کا جہاں تک تقاضا ہے پہلا مفہوم اس سے زیادہ میل کھاتا ہے۔ اس کے بعد منافقین کو تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا کہ تم لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے رسول کے بلانے اور آپ ﷺ کے حکم کو اپنے نفاق کے باعث وہ اہمیت نہیں دی جو اس کی شان کا تقاضا ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ اجتماعی کاموں میں بھی آنحضرت ﷺ کے دکھانے کے لیے وقتی طور پر حاضر ہوجاتے ہو اور پھر ایک دوسرے کی آڑ لیتے ہوئے وہاں سے کھسک جاتے ہو۔ اور تم یہ سمجھتے ہو کہ آنحضرت ﷺ نے چونکہ دیکھا نہیں، اس لیے تمہاری اس حرکت سے کوئی واقف بھی نہیں، حالانکہ اللہ تعالیٰ سے کوئی بات مخفی نہیں۔ وہ تو تمہاری ہر حرکت سے واقف ہے اور وہ جانتا ہے جس طرح تم وہاں سے کھسکتے ہو۔ تَسَلَّلَ … کے معنی چل دینے اور چپکے سے کھسک جانے کے ہیں۔ لِوَاذًا … کے معنی ایک دوسرے کی آڑ اور پناہ لیتے ہوئے۔ اس کے بعد فرمایا کہ جو لوگ یہ حرکتیں کرتے اور اجتماعی مواقع سے کھسک جاتے ہیں یا کسی اور مخفی طریقے سے آنحضرت ﷺ کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں، کیونکہ علانیہ اور کھلم کھلا آنحضرت ﷺ کی مخالفت کرنا منافقین کے لیے ممکن نہ تھا۔ وہ سامنے ہمیشہ امنا و صدقنا کہتے تھے لیکن درپردہ منافق ہونے کی وجہ سے ان کا رویہ مخالفانہ ہوتا تھا۔ انھیں تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ آپ ﷺ کی مخالفت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے ڈریں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ انھیں کسی فتنے میں مبتلا کردے اور یا دردناک عذاب ان پر بھیج دے۔ حضرت امام جعفر صادق ( رض) نے فتنے کا مطلب ظالموں کا تسلط لیا ہے، یعنی اگر مسلمان آنحضرت ﷺ کے احکام کی خلاف ورزی کریں گے تو اندیشہ ہے کہ ان پر ظالم و جابر حکمران مسلط کردیئے جائیں۔ بعض اہل علم کے نزدیک فتنہ سے مراد بیشمار صورتیں ہوسکتی ہیں۔ مثلاً آپس کے تفرقے اور خانہ جنگیاں، اخلاقی زوال، نظام جماعت میں پراگندگی، داخلی انتشار، سیاسی اور مادی طاقت کے ٹوٹ جانے کے باعث بےوقار ہوجانا، ریاست کی سالمیت کا خطرے میں پڑجانا وغیرہ۔ اور جہاں تک عذاب کا تعلق ہے، قرآن کریم میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ وہ تمہارے اوپر سے عذاب نازل کرے، یا تمہارے پائوں کے نیچے سے، اور یا تمہارے اندر خانہ جنگی برپا کردے۔ آج ہم اپنے انتشار، بدنظمی اور اسلام سے انحراف کے باعث ایسی ہی صورتحال کا سامنا کررہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنی حفاظت میں رکھے۔
Top