Ruh-ul-Quran - An-Noor : 64
اَلَاۤ اِنَّ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ قَدْ یَعْلَمُ مَاۤ اَنْتُمْ عَلَیْهِ١ؕ وَ یَوْمَ یُرْجَعُوْنَ اِلَیْهِ فَیُنَبِّئُهُمْ بِمَا عَمِلُوْا١ؕ وَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ۠   ۧ
اَلَآ اِنَّ لِلّٰهِ : یاد رکھو بیشک اللہ کے لیے مَا : جو فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَالْاَرْضِ : اور زمین قَدْ يَعْلَمُ : تحقیق وہ جانتا ہے مَآ : جو۔ جس اَنْتُمْ : تم عَلَيْهِ : اس پر وَيَوْمَ : اور جس دن يُرْجَعُوْنَ : وہ لوٹائے جائیں گے اِلَيْهِ : اس کی طرف فَيُنَبِّئُهُمْ : پھر وہ انہیں بتائے گا بِمَا : اس سے عَمِلُوْا : انہوں نے کیا وَاللّٰهُ : اور اللہ بِكُلِّ شَيْءٍ : ہر شے کو عَلِيْمٌ : جاننے والا
خبردار ! اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے، تم جس حال پر ہو اللہ اس سے اچھی طرح باخبر ہے اور جس دن یہ اس کی طرف لوٹائے جائیں گے تو وہ انھیں ان کے کرتوتوں سے باخبر کرے گا اور اللہ ہر چیز سے اچھی طرح واقف ہے
اَ لَآاِنَّ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ط قَدْیَعْلَمُ مَـآ اَنْـتُمْ عَلَیْہِ ط وَیَوْمَ یُرْجَعُوْنَ اِلَیْہِ فَیُنَبِّئُھُمْ بِمَا عَمِلُوْا ط وَاللّٰہُ بِکُلِّ شَیْ ئٍ عَلِیْمٌ۔ (النور : 64) (خبردار ! اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے، تم جس حال پر ہو اللہ اس سے اچھی طرح باخبر ہے اور جس دن یہ اس کی طرف لوٹائے جائیں گے تو وہ انھیں ان کے کرتوتوں سے باخبر کرے گا اور اللہ ہر چیز سے اچھی طرح واقف ہے۔ ) روئے سخن چونکہ گزشتہ آیات میں بھی منافقین کی طرف رہا ہے اس لیے قرین قیاس یہ ہے کہ یہ منافقین ہی کو اس سورة میں آخری تنبیہ کی جارہی ہے، اور تنبیہ کے تیور بہت تیکھے ہیں۔ انھیں سب سے پہلے خبردار کیا گیا ہے کہ تم نے آج تک جس طرح آنحضرت ﷺ کی دعوت اور آپ ﷺ کے لائے ہوئے دین کو غیرسنجیدہ انداز میں لیا ہے اس سے تمہیں رک جانا چاہیے۔ اور جن قوتوں کے بھروسے پر تم نے بہت سے فتنے اٹھائے ہیں اور آئندہ بھی اٹھانے کا ارادہ رکھتے ہیں وہ قوتیں فریبِ نظر سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتیں۔ زمین و آسمان میں اصل حکومت صرف اللہ تعالیٰ کی ہے۔ وہی اس کائنات کا خالق ومالک ہے اور تمہیں یہ بھی غلط فہمی ہے کہ تم درپردہ جو کچھ کرتے ہو اسے کوئی جاننے والا نہیں۔ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ تم جس حال میں رہے ہو اور تم نے آج تک جو کچھ کیا ہے، اللہ تعالیٰ ہر بات اور ہر چیز سے واقف ہے اور وہ تمہارے مخفی ارادوں کو بھی جانتا ہے۔ تنبیہ کی قوت کو مزید مستحکم کرنے کے لیے ان سے منہ پھیرتے ہوئے بےالتفاتی کو بھی اس میں شامل فرما دیا اور یہ تأثر دیا کہ تم سے براہ راست خطاب تمہاری بھلائی کے لیے تھا لیکن معلوم ہوتا ہے کہ تم اس عزت افزائی کے لائق نہیں ہو۔ اس لیے ان سے منہ پھیر کر فرمایا کہ جس دن یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹائے جائیں گے اور اس کے حضور ان کی پیشی ہوگی اس روز انھیں ان کے ایک ایک عمل سے آگاہ کیا جائے گا۔ جس سے انھیں اندازہ ہوگا کہ ہم جو کاررائیاں ہزار پردوں میں چھپ کر کرتے رہے ہیں آج وہ ہماری آنکھوں کے سامنے موجود ہیں اور اس کا انجام بھی ہمیں نظر آرہا ہے۔ تب تمہیں یقین آئے گا کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز سے باخبر تھا اور باخبر ہے۔ لیکن اس وقت یہ علم اور یقین تمہارے کام نہیں آئے گا کیونکہ اب چڑیاں کھیت چگ چکی ہوں گی اور تم دارالعمل سے دارالجزاء میں پہنچ کر جزاء کا سامنا کررہے ہو گے۔ شاعر نے شاید اسی تأثر کو نمایاں کرتے ہوئے کہا تھا : قریب ہے یارو روز محشر، چھپے گا کشتوں کا خون کیونکر جو چپ رہے گی زبان خنجر، لہو پکارے گا آستیں کا
Top