Ruh-ul-Quran - Al-Furqaan : 37
وَ قَوْمَ نُوْحٍ لَّمَّا كَذَّبُوا الرُّسُلَ اَغْرَقْنٰهُمْ وَ جَعَلْنٰهُمْ لِلنَّاسِ اٰیَةً١ؕ وَ اَعْتَدْنَا لِلظّٰلِمِیْنَ عَذَابًا اَلِیْمًاۚۖ
وَ : اور قَوْمَ نُوْحٍ : قوم نوح لَّمَّا كَذَّبُوا : جب انہوں نے جھٹلایا الرُّسُلَ : رسول (جمع) اَغْرَقْنٰهُمْ : ہم نے غرق کردیا انہیں وَجَعَلْنٰهُمْ : اور ہم نے بنایا انہیں لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے اٰيَةً : ایک نشانی وَاَعْتَدْنَا : اور تیار کیا ہم نے لِلظّٰلِمِيْنَ : ظالموں کے لیے عَذَابًا : ایک عذاب اَلِيْمًا : دردناک
اور قوم نوح کو بھی جبکہ انھوں نے رسولوں کی تکذیب کی ہم نے ان کو غرق کردیا، اور ہم نے انھیں لوگوں کے لیے ایک نشان عبرت بنادیا اور ہم نے ان ظالموں کے لیے ایک دردناک عذاب بھی تیار کر رکھا ہے
وَقَوْمَ نُوْحٍ لَّمَّا کَذَّبُوا الرُّسُلَ اَغْرَقْنٰـہُمْ وَجَعَلْنٰـھُمْ لِلنَّاسِ اٰ یَۃً ط وَاَعْتَدْنَا لِلظّٰلِمِیْنَ عَذَابًا اَلِیْمًا۔ (الفرقان : 37) (اور قوم نوح کو بھی جبکہ انھوں نے رسولوں کی تکذیب کی ہم نے ان کو غرق کردیا، اور ہم نے انھیں لوگوں کے لیے ایک نشان عبرت بنادیا اور ہم نے ان ظالموں کے لیے ایک دردناک عذاب بھی تیار کر رکھا ہے۔ ) حضرت نوح (علیہ السلام) کا ذکر اولین رسول اور دیگر بعض خصوصیات کے باعث گزشتہ دو آیتوں میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر سب سے پہلے شاید اس لیے کیا گیا کہ اہل کتاب کی وجہ سے قریش حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی رسالت سے آگاہ تھے۔ اور ان کی وجہ سے فرعون اور آل فرعون پر جو عذاب آیا اس کا تذکرہ اکثر وہ اہل کتاب سے سنتے رہتے تھے۔ اور اب قوم نوح کا ذکر کیا جارہا ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ طوفانِ نوح کے واقعات سینہ بہ سینہ نسلاً بعدِنسلٍ قریش تک پہنچ چکے تھے اور لوگ اس سے اچھی طرح واقف تھے اور پھر یہ بات بھی ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) ، حضرت آدم (علیہ السلام) کے بعد پہلے رسول بھی ہیں اور دنیا کی تباہی کے بعد آدم ثانی بھی۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے سامنے اللہ تعالیٰ کا دین پیش کیا، شرک کی مذمت کی، اللہ تعالیٰ کی توحید کی طرف بلایا اور پھر چند سالوں تک نہیں، ساڑھے نو سو سال تک آپ ( علیہ السلام) نے ان میں حق رسالت ادا کیا۔ اور اس قدر جان ماری اور لوگوں کی اذیتیں برداشت کیں کہ تاریخِ مذہب میں اس کی اور کوئی مثال نہیں ملتی۔ لیکن آپ ( علیہ السلام) کی قوم نے آپ ( علیہ السلام) کی بات سن کے بھی نہیں دی۔ بہت مختصر تعداد میں لوگ آپ ( علیہ السلام) پر ایمان لائے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر طوفانِ بادوباراں مسلط کیا اور زمین کے سوتے کھول دیئے گئے۔ بجز ان لوگوں کے جو آپ ( علیہ السلام) پر ایمان لائے، کسی شخص کو زندہ نہیں چھوڑا گیا۔ اور یہ ایک ایسا ہولناک واقعہ تھا کہ طویل زمانہ گزر جانے کے باوجود بھی لوگوں کے ذہنوں سے کبھی فراموش نہ ہوا۔ ہر نسل نے دوسری نسل کو یہ داستان پہنچائی اور اس طرح سے اس تباہ ہونے والی قوم کو تمام دنیا کے انسانوں کے لیے عبرت بنادیا۔ تاکہ ہر دور کا انسان اس سے سبق حاصل کرے کہ جو لوگ رسولوں کی تکذیب کرتے ہیں بالآخر ان کا حشر یہ ہوا کرتا ہے۔ آخر میں فرمایا کہ ایک پوری قوم کا طوفان میں ڈبو دیا جانا اور ہلاک کردینا ایک بہت بڑی سزا سہی، لیکن جو لوگ صدیوں تک اللہ تعالیٰ کے رسول کی نہایت ہمدردی و غمگساری پر مبنی تبلیغ و دعوت کے باوجود ایمان لانے سے انکار کرتے ہیں، ان کے لیے یہ سزا کافی نہیں۔ ویسے بھی اللہ تعالیٰ کی ذات کا انکار جبکہ وہ کائنات کا خالق ومالک ہے اور اس کے اختیارات میں کسی اور کو شریک کرنے کی جسارت اتنا بڑا جرم ہے جس کے لیے بڑی سے بڑی سزا بھی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ اس لیے ہم نے ایسے ظالموں کے لیے آخرت میں دردناک عذاب بھی تیار کر رکھا ہے۔ یہاں بھی وہ دنیا کے لیے نمونہ عبرت بنے رہے اور آخرت میں بھی ان کی سزا عذاب الیم ہوگی۔ ایک رسول کا انکار، سب کا انکار اس آیت میں ” الرسل “ کا لفظ قابل غور ہے۔ ” الرسل “ رسول کی جمع ہے حالانکہ قوم نوح نے حضرت نوح (علیہ السلام) کی تکذیب کی اور آپ ( علیہ السلام) کو جھٹلایا تھا۔ آپ ( علیہ السلام) کی موجودگی میں کوئی دوسرا رسول مبعوث نہیں ہوا۔ لیکن الرسل کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس قوم نے بہت سے رسولوں کو جھٹلایا۔ ظاہر ہے یہ امرواقعی کے مطابق نہیں۔ اس کا ایک جواب بعض اہل علم نے یہ دیا کہ اس طریق تعبیر سے مقصود اس جرم کی سنگینی کی طرف توجہ دلانا ہے کہ جو لوگ کسی ایک رسول کی تکذیب کرتے ہیں وہ درحقیقت سب رسولوں کی تکذیب کرتے ہیں۔ کیونکہ تمام رسولوں کا پیغام ایک ہے، اور ان کا بھیجنے والا بھی ایک ہے۔ جو شخص ایک رسول کو ماننے سے انکار کرتا ہے وہ درحقیقت سلسلہ رسالت اور سرچشمہ رسالت کا انکار کرتا ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کا نام کہنے تو ایک پیغمبر کا نام ہے، لیکن ان کا انکار سلسلہ نبوت کا انکار ہے۔ مولانا روم کے اشارات اس معاملے میں ازبس لطیف واقع ہوئے ہیں۔ انھوں نے آنحضرت ﷺ کے بارے میں فرمایا اور وہی بات حضرت نوح (علیہ السلام) کے بارے میں کہی جاسکتی ہے : نامِ احمد نام جملہ انبیاء است چونکہ صد آمد نود ہم پیش ما است بعض اہل علم نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ قوم نوح نے حضرت نوح (علیہ السلام) کا انکار اس بنیاد پر کیا تھا کہ تم ایک بشر ہو اور بشر کبھی رسول نہیں ہوسکتا۔ وہ بشر کو ایک فروتر مخلوق سمجھتے تھے اور رسالت کا منصب ان کے نزدیک کسی برتر مخلوق کا استحقاق ہے جبکہ حضرت آدم (علیہ السلام) سے لے کر آنحضرت ﷺ تک جتنے بھی نبی اور رسول آئے ہیں وہ سب بشر تھے۔ تو اگر بشریت اور نبوت میں منافات ہے اور اس کی وجہ سے حضرت نوح (علیہ السلام) کی نبوت کا انکار کیا جاسکتا ہے تو پھر باقی انبیاء کو ماننے کا کیا جواز رہ جاتا ہے۔ تو اس سے نتیجہ خودبخود یہ نکلتا ہے کہ انھوں نے ایک رسول کا انکار نہیں کیا بلکہ سب رسولوں کا انکار کردیا۔
Top